آج کل جمہوریت کے نام پر عدالتوں کے حکم کی کھلم کھلا حکم عدولی کی جاتی ہے اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے

 آج کل جمہوریت کے نام پر عدالتوں کے حکم کی کھلم کھلا حکم عدولی کی جاتی ہے اور ...
 آج کل جمہوریت کے نام پر عدالتوں کے حکم کی کھلم کھلا حکم عدولی کی جاتی ہے اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:44
اس کے علاوہ ایک اور کیس بہاولپور بنچ میں میرے سامنے پیش ہوا۔ ہوا یہ کہ ایک فوجی صوبیدار بہاولپور سے رحیم یار خان جانے والی بس میں سفر کر رہا تھا۔ بس ایک حادثہ کا شکار ہو گئی۔ صوبیدار صاحب حادثہ میں انتقال کر گئے۔ پولیس نے مسافر بس کو حسب قانون قبضہ میں لے کر اور بس کے مالک کو قانون کے مطابق گرفتار کر لیا۔ زخمی اور فوت ہونے والے مسافروں کے لئے مقرر کئے گئے عوضانہ دینے کا حکم دیا جو کہ بس مالک نے قانون کے مطابق ادا کر دیا اور بس سپرداری پر حاصل کر لی۔ صوبیدار صاحب کی بیوہ کی طرف سے ایک درخواست فوجی افسران کو دی گئی کہ جو معاوضہ دیا گیا ہے وہ کم ہے اس میں اضافہ کیا جائے۔ جس پر متعلقہ فوجی یونٹ کے دیگر افراد نے باہم مل کر اس بس کو بس سٹینڈ سے اپنے قبضہ میں لے لیا تاکہ مالک پر زور ڈالا جا سکے۔ اس پر لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بنچ میں رٹ پٹیشن پیش ہوئی۔ میرے پیش رو جج صاحب نے وفاقی حکومت کے سٹینڈنگ کونسل کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ متعلقہ سینئر افسر سے اس سلسلہ میں ہدایات لے کر فاضل عدالت کو بتائیں۔ جب یہ کیس میرے سامنے پیش ہوا تو سرکاری کونسل نے مجھے بتایا کہ متعلقہ حکام سے رابطہ کیا گیا مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں مل سکا۔ اب میرے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ میں اس یونٹ کے انچارج بریگیڈیئر کو عدالت میں طلب کروں جس کو نوٹس جاری کیا اور اطلاع بھی بھیجی۔ ڈیفنس سیکرٹری کے ذریعہ بھی نوٹس ارسال کی اور 2دن بعد کی تاریخ مقرر کی۔ میں دل میں یہ بھی سوچتا رہا کہ اگر عدالت کے حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو فوجی حکومت ہے اس پر عمل درآمد کا کیا طریقہ ہو گا؟ حیرت کی بات ہے کہ اگلے روز مجھے بریگیڈیئر صاحب کی طرف سے ایک درخواست ملی کہ وہ آرمی کی تربیتی جنگی مشقوں میں مصروف ہونے کی باعث عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتے اس لئے حاضری کا وقت بڑھایا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آرمی کی طرف سے بس کو تحویل میں لینے کی اُنہیں کوئی خبر نہیں۔ میں نے متعلقہ یونٹ کو حکم دے دیا ہے کہ اگر انہوں نے کوئی غیر قانونی اقدام کر کے قبضہ کیا ہے تو فوراً بس مالک کو واپس کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں بس مالک کی طرف سے بذریعہ وکیل مطلع کیا گیا کہ بس اُنہیں واپس مل گئی ہے لہٰذا مقدمہ کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتے۔ اندازہ کریں کہ اس وقت فوجی حکومت تھی مگر اس کے باوجود فوجی حکمران عدالتوں کے احکامات کا احترام کرتے تھے اور بڑی باقاعدگی سے عمل درآمد کیا جاتا تھا جبکہ آج کل جمہوریت کے نام پر عدالتوں کے حکم کی کھلم کھلا حکم عدولی کی جاتی ہے اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔
کچھ مشکل فیصلے
لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ہر جج کو بے شمار قسم کے مقدمات سننے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات تو خواب خیال میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ ایسے معاملات بھی ہمارے سامنے اس طرح آئیں گے۔ جن مقدمات کا بیان ہو چکا اُن کے علاوہ بھی بہت سے مقدمات میرے سامنے آئے جن کا قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا موقع ملا۔ ان میں ایک اہم مقدمہ یہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں قوانین کی اسلامائزیشن کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی معاملہ کو آپ نظری طور پر قانون کی کتابوں میں لکھ دیں مگر اس قانون کا عملاً پتہ اس وقت چلتا ہے جب آپ اس کو نافذ العمل کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جن مشکلات کا مجھے سامنا کرنا پڑا مقدمہ یہ تھا کہ: 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -