”ذہین“ افراد کے اعصاب کبھی منتشرنہیں ہوتے نہ ہی وہ ذہنی تناؤ کاشکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ذات ان کی مرضی کے تابع ہوتی ہے

 ”ذہین“ افراد کے اعصاب کبھی منتشرنہیں ہوتے نہ ہی وہ ذہنی تناؤ کاشکار ہوتے ...
 ”ذہین“ افراد کے اعصاب کبھی منتشرنہیں ہوتے نہ ہی وہ ذہنی تناؤ کاشکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ذات ان کی مرضی کے تابع ہوتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:8
 شاید آپ کو یہ معلوم کر کے حیرانی ہو گی کہ اعصابی اور ذہن انتشار‘ دباؤ اور تناؤ جیسی کوئی بھی چیز نہیں۔ اعصاب ٹوٹتے پھوٹتے نہیں اور نہ ہی منتشر ہوتے ہیں۔ اگر ہم منتشر اور ٹوٹے ہوئے اعصاب کو دیکھیں۔ ان سے کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ ان میں ٹوٹ پھوٹ کا کوئی امکان موجود ہے۔ ”ذہین“ افراد کے اعصاب کبھی بھی منتشرنہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ذہنی طور پر دباؤ اور تناؤ کاشکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ذات ان کی مرضی اور خواہش کے تابع ہوتی ہے۔ انہیں یہ بصیرت اور ادراک حاصل ہوتا ہے کہ ناخوشی اور افسردگی کے بجائے خوشی اور تروتازگی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ روزمرہ مسائل زندگی سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔ میری اس بات پر توجہ دیجیے کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ مسائل کو حل کیسے کیا جاتا ہے بلکہ میرا زور اس امر پر ہے کہ مسائل سے نمٹا کیے جاتا ہے۔ مسائل زندگی حل کرنے کی صلاحیت کے ذریعے ذہانت کا معیار متعین کرنے کے بجائے ذہین افراد اس امر کی طرف توجہ دیتے ہیں کہ قطع نظر اس کے کہ مسائل حل ہوں یا نہ ہوں‘ ان کی ذہانت اس امر سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں خوشگواریت اور لطف آمیزی کیسے برقرار رکھتے ہیں۔ آپ خود کو اس وقت واقعی ذہین سمجھنے کا آغاز کر سکتے ہیں جب آپ کے رویے اور طرزعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مشکل اور تلخ حالات کا کیسے سامنا کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص زندگی کے لیے یکساں قسم کی جدوجہد اور کوشش میں ملوث ہوتا ہے۔ جو شخص سماجی طور پر دوسرے لوگوں کے ساتھ منسلک ہوتا ہے‘ اسے بھی ان جیسی مشکلات پیش آتی ہیں۔ اختلافات، لڑائی جھگڑے اور مصالحتیں، زندگی کا ایک ناگزیرہ حصہ ہیں۔ اسی طرح ہر انسان کی زندگی میں دولت، عمررسیدگی، بیماری، اموات، قدرتی آفات اور حادثات جیسے مشکلات و مسائل بدرجہ اتم پیش آتے ہیں لیکن کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو ان مسائل و مشکلات کا نہایت حوصلے اور ہمت سے سامنا کرتے ہیں اورمایوسی‘ ناخوشی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہوتے جبکہ عام لوگ حوصلہ ہار جاتے ہیں کیونکہ وہ اعصابی طور پر منتشر ہوتے ہیں اور ذہنی طور پروہ دباؤ اور تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ جو لوگ مسائل و مشکلات کو انسانی زندگی کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور مسائل و مشکلات کی عدم موجودگی کو خوشی و مسرت کی موجودگی کا معیار نہیں سمجھتے، یہ لوگ انتہائی بلند ذہانت کے مالک ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ آپ ایک بالکل نئی سوچ اور اندازفکر اپنا کر ہی اپنی ذات اور وجود کو اپنے تابع کر سکتے ہیں جو ایک بہت ہی مشکل امر ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیشمار قوتیں ہمارے ا س مقصد کے خلاف ہمیشہ ہی سازشوں میں مصروف رہتی ہیں۔ جب آپ زندگی میں کچھ بھی سوچیں، محسوس کریں یا کوئی عملی قدم اٹھائیں، آپ کو چاہیے کہ اپنی باطنی صلاحیتوں اور استعدادوں پر بھروسہ کریں۔ یہ ایک انقلاب آفریں نظریہ ہے۔ شاید آپ کو بچپن سے بڑے ہونے تک یہی پڑھایااور سکھایا گیا ہے کہ آپ اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں پا سکتے یعنی ناراضی، ڈر، خوف اور نفرت کے ساتھ ساتھ محبت، خوشی، اطمینان، سکون ایسی چیزیں ہیں جو آپ کو پیش آتی ہیں۔ ایک انسان ان عناصر کو اپنے تابع نہیں کرتا بلکہ وہ ان کی موجودگی کو تسلیم کر لیتا ہے، جب آپ کے ساتھ افسوسناک اور غمناک واقعات پیش آتے ہیں تو آپ قدرتی طور پر دکھ اور غم محسوس کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ امید کا دامن پکڑے رکھتے ہیں کہ حالات اچھے اور بہتر ہو جائیں گے اور بہت جلد خوشی، اطمینان، سکون اور مسرت آپ کی زندگی میں دوبارہ داخل ہو جائے گا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -