انڈیا کا سیکولر ازم لبادہ
حال ہی میں ایک مسلمان خاندان کے گھر کو صرف اس شک پر آگ لگا دی گئی کہ وہاں گائے کا گوشت پکایا جا رہا تھا۔انڈیا کی اٹھارہ ریاستوں میں گائے کے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد ہے،اس ممنوع گوشت کی فروخت کی وجہ سے انڈیا میں کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور کئی افراد کی پٹا ئی بھی کی گئی جن میں اکثریت مسلمانوں اور عیسائیوں کی ہے۔گائے ہندوؤں کے لئے مقدس ہے لیکن اسی کی نر نسل یعنی بھینسے کے لیے ان کے دل میں کوئی ہمدردی نہیں ماں کی حفاظت کرتے ہوئے بھینسے کی تعداد میں خطر ناک حد تک کمی واقع ہو گئی ہے.کیونکہ ہندوؤں کے مطابق نر کو مارنا پاپ کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسی لیے نر جانور دیگر ممالک سے بھی منگوائے جا رہے ہیں۔
مودی حکومت اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے بھی اس شوشے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔اسی لیے کئی بھارتی وزراء بھی اس معاملے کو بار بار اٹھاتے رہتے ہیں۔تاکہ دباؤ برقرار رہے ۔اس لیے اب یہ شور بھی اٹھ رہا ہے کہ گائے کو ذبح کرنے پر پابندی لگا دی جائے اور گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے اس کو قانونی شکل دی جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو عمر قید کی سزا بھی دی جائے ۔
انڈیا دنیا میں گائے کے گوشت کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔اس وقت انڈیا میں دو کروڑ سے زائد گائیں قربانی کے لئے تیار ہیں لیکن ان کی فروخت پر پابندی عائد ہے۔اس کی ایک وجہ اس کے کاروبار میں پیدا مشکلات کے علاوہ حکومت کا اس کاروبار پر کنٹرول حاصل کرنا ہے ۔حکومت کا کہنا ہے کہ مویشی منڈیوں میں ہونے والے کاروبار کا حجم اربوں میں ہے جسں پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا ۔اسی لیے حکومت اس پر سیلز ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔لیکن ذبیح ہونے والی گائیں انہی مسائل کا شکار رہیں تو لاکھوں اپنی طبعی عمر کے خاتمے پر ویسے ہی ہلاک ہو جائیں گی۔ اور انڈیا کی چار ارب کی ایکسپوٹ بھی بری طرح متاثر ہو گی جو گائے کے گوشت سے ہر سال انڈیا کو حاصل ہوتی ہے۔اس پیشے سے منسلک ہزاروں لوگوں کا بیروز گار ہونے کا خدشہ بھی ہے۔
حیرت انگیز حقیقت یہ بھی ہے کہ انڈین جو سبزی اور دال زیادہ استعمال کرتے تھے اب تیزی سے گوشت کی طرف مائل ہو رہے ہیں گائے کے گوشت کی مانگ میں شہروں میں چودہ فیصد اور گاؤں میں چونتیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے ایک وقت تھا کہ انڈیا میں مرغی کو گندہ پرندہ گردانا جاتا تھا لیکن اب انڈیا چین کو مرغی کا پیداکردہ انڈہ فراہم کرتا ہے ۔یہی صورتحال بکرے کے گوشت کی ہے۔
انڈیا میں کر الہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کی ۵۵ فیصد آبادی ہندو ہے لیکن وہاں کی سب سے مشہور ڈش گائے کا گوشت ہے ۔دنیا بھر سے لوگ صرف یہ خاص ڈش کھانے آتے ہیں۔ان علاقوں میں اس طرز کے بے شمار ہوٹلز ہیں۔ اگر گائے کا گوشت ممنوع ہو گیا تو یہ تمام سیاحتی مقامات بھی بند ہو جائیں گے۔اگرچہ نر گوشت کی سہولت ہو گی۔لیکن پکانے کے بعد یہ فیصلہ کون کرے گا کہ یہ گوشت نر کا ہیں یا مادہ کا۔۔۔۔۔۔ایسے وقت میں جب انڈیا کی ستر فیصد نئی نسل گوشت کو ترجیح دتیے ہیں وہاں ایسی پابندی زیادہ دیر نہیں چل سکے گی۔
انڈیا اگرچہ اس گوشت کے خلاف سائنسی وجہ بھی تلاش کی جارہی ہیں اور بہت سی بیماریوں کی وجہ بھی بتایا جا رہا لیکن یہ کوشش بھی کافی حد تک ناکام ہو چکی ہے عام آدمی اس ساری کوشش کو ڈاکٹروں کا پیسہ بٹور نے کا حربہ ہی سمجھتے ہیں۔
انڈیا کی آبادی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی تعداد بیس سے پچیس کروڑ کے لگ بھگ ہیں جبکہ ہندوؤں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے ۔سیکولر انڈیا نے بھی کبھی اقلیتوں کو تحفظ دنیے کی ذمہ داری پوری نہیں کی تو اگر یہ ہندوؤں انڈیا بن گیا تو پھر کیا ہو سکتا ہے یہ ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔