ہمارا مسئلہ برما اور افغانستان سے زیادہ پیچیدہ ہے سر۔۔۔۔
اتنے مسلمان برما میں شہید نہیں ہوئے جتنے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان میں شہید ہو چکے ہیں ۔ اعداد وشمار دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے پاکستان کے شہدا کی تعداد افغانستان میں شہید ہونے والوں سے بھی زیادہ ہے ۔ میں نے جس دن یہ رپورٹس دیکھی تھیں اس دن سے افغانستان کی اعلانیہ جنگ کو بھول کر پاکستان کے اندر جاری غیر اعلانیہ جنگ پر فوکس کر لیا تھا ۔ ہمارا مسئلہ برما اور افغانستان سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے ۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دنیا کا واحد ایٹمی حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے دو سے تین لاکھ لوگ مارے گئے تھے ۔ دنیا بھر میں آج بھی ان حملوں کا سوگ منایا جاتا ہے ۔ میرے ملک میں محض چند برس کے دوران دہشت گردی کے دوران شہید ہونے والوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ۔ یہاں تو کوئی ایٹمی حملہ بھی نہیں ہوا ۔ ہم بظاہر حالت جنگ میں بھی نہیں تھے ۔ ہمارے ہسپتالوں سے لے کر سکول تک بم دھماکوں سے اڑائے جا چکے ہیں حالانکہ جنگ کے دوران دونوں مقامات پر حملہ نہیں کیا جاتا ۔ ! آپ آج بھی ہیرو شیما کا سوگ مناتے ہیں لیکن میرے 70 ہزار سے زائد عام شہریوں کا سوگ کس سطح پر منایا جاتا ہے ؟ میرے لئے اس وقت برما اور افغانستان سے بڑا مسئلہ میرے اپنے گلی کوچوں میں ہے ۔ مجھے کون بتائے گا کہ ان 70 ہزار سے زائد لاشوں کی یاد میں پروفائل پکچر کس دن تبدیل کی جائے گی ؟
آپ برما میں فوج بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں ، آپ حکومت کو اقوام متحدہ میں آواز بلند کرنے کا کہتے ہیں ، آپ سفیروں پر پابندی کا بھی کہتے ہیں ۔ آپ درست کہتے ہوں گے لیکن مجھے یہ کون سمجھائے گا کہ اپنے ملک میں زیادہ لاشیں ہیں تو فوج کو کہاں ہونا چاہئے ؟ حکومت کو احتجاج کس کے خلاف کرنا چاہئے ؟ میں اس قوم سے ہوں جس کے دل میں پوری دنیا کا درد ہے لیکن اپنے گھر کا دکھ محسوس کرنے سے قاصر ہے ۔
آپ مون مارکیٹ کے قریب گھر لے لیں ۔ آپ کو ہر دوسرا گھر کسی شہید کا امین ملے گا ۔ آپ کوئٹہ بار چلے جائیں ،آپ کو ہر دوسرے وکیل کے کندھے پر اپنے دوست وکیل کے لاشے کا بوجھ نظر آئے گا ۔ آپ کراچی چلے جائیں ۔ آپ کو ہر محلے میں ایسی ہی داستان مل جائے گی ، آپ پشاور چلے جائیں ، آپ کو گھر گھر کی یہی کہانی ملے گی ۔ آپ پولیس فورس سے مل لیں ، آدھی فورس شہدا کوٹہ پر بھرتی ہے کہ ان لوگوں کے باپ بھائی دوران ڈیوٹی شہید ہوئے تھے ۔ سر! اس وقت برما اور افغانستان سے زیادہ متاثر ہم خود ہیں لیکن شاید ہمارے دل میں اپنے سوا سارے جہان کا درد ہے ۔ میری خیال میں اس وقت ہم جتنا برما اور افغانستان کے مسائل میں الجھنا چاہتے ہیں اس کی بجائے ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اپنے ملک میں قیام امن پر بحال کرنی چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی ، جذباتی نعروں سے پرہیز اور سیاسی حکمت عملی پر فوکس ، پولیس ، رینجرز اور فوج سے مکمل تعاون اور اپنے ارد گرد موجود مشکوک افراد یا حرکت کی فوری اطلاع متعلقہ فورم پر کرنا اپنا قومی فریضہ بنا لینا چاہئے ۔ ہم اس وقت دنیا بھر میں مذاق بن رہے ہیں ۔ تحقیق کا فقدان ، ریسرچ مقالہ اور تھیسز کی بجائےگھسے پٹے آئیڈیاز پر وہی پرانے اور فضول تھیسز ، ڈگریوں کا مقصد محض نوکری اور آئیڈیا میکنگ میں کمی ہمیں مذاق بنا دیتی ہے ۔ ہمارے دوست ممالک بھی اب پیچھے ہٹنے لگے ہیں ، چین ایک وقت تک مولانا مسعود اظہر اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائی ویٹو کر سکتا ہے ، اس کے بعد اسے بیک فٹ پر آنا پڑے گا ۔ خطے میں ہم اپنے دوست کھوتے چلے جا رہی ہیں اور تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ضروری ہے کہ اس وقت سے پہلے ہم دنیا کی فکر چھوڑ کر اپنے ملک کی فکر کریں ۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہو گا کہ برما اور افغانستان سے زیادہ قربانیاں اور شہادتیں ہماری اپنی ہیں ۔ ہم ڈو مور کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں بلکہ اب ہمیں دنیا سے ڈو مور کا مطالبہ کرنا ہے۔ مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے چودھری بھی ایک وقت تک ہی بنا جاتا ہے اس کے بعد سب کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ پھوکلا چودھری ہے ، ایسے لمحہ میں چودھری بن کر دھونس جمانا اپنے لئے نقصان دہ ہوتا ہے لہذا بہتر یہی ہوتا ہے کہ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر فضول کی انا قربان کی جائے اور اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے اس کا حل تلاش کیا جائے.
...
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔