افسر شاہی اور پلاٹو ں کا کاروبار

افسر شاہی اور پلاٹو ں کا کاروبار
افسر شاہی اور پلاٹو ں کا کاروبار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد ہائیکورٹ نے ججوں اور سول ملازمین کو ایک سے زیادہ پلاٹس کی الاٹمنٹ کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ جیورسٹ فاؤنڈیشن کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے حکم دیا ہے کہ پہلے سے الاٹ شدہ پلاٹ منسوخ نہیں کئے جا رہے تاہم اس معاملے پر کابینہ غور کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سرکاری ملازمین کو اضافی پلاٹ دینا چاہتی ہے تو اس کے لئے باقاعدہ قانون سازی کرے۔ جیورسٹ فاؤنڈیشن نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اضافی پلاٹس کی الاٹمنٹ کے بارے میں 2006ء میں وزیراعظم نے اس معاملے پر جو سمری منظور کی تھی اُس سمری میں دی گئی سفارشات کی کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی، لہٰذا ججز اور سول سرونٹس کو  دیئے گئے اضافی پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی جائے۔


اس سارے معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ کی قیادت میں سیکرٹریوں کے ایک گروپ نے وزیراعظم شوکت عزیز سے ملاقات کی اور مؤقف اختیار کیا کہ گریڈ 22 کے افسروں کو ایک پلاٹ الاٹ کیا جاتا ہے جس پر مکان کی تعمیر اُن کے لئے مشکل ہو جاتی ہے لہٰذا گریڈ 22 کے تمام افسروں کو دو دو پلاٹس الاٹ کئے جائیں۔ وزیراعظم نے یہ سمری منظور کر لی۔ بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اِسے کالعدم قرار دیا، لیکن پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے دو پلاٹس کی الاٹمنٹ کی اجازت دے دی۔مسلم لیگ کی حکومت نے اِسے قائم رکھا اور موجودہ حکومت کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی اور نہ یہ صرف گریڈ بائیس کے افسروں تک محدود ہے،بلکہ یہ ایک سکینڈل بن چکا ہے۔ ایک زمانے تک جو افسر خواہ اُس کا گریڈ کوئی بھی ہو سی ڈی اے کا ایک سال چیئرمین رہ جاتا تھا وہ 600 گز کے ایک پلاٹ کا حقدار ہو جاتا تھا، اور ظاہر ہے پلاٹ بھی وہ اپنی مرضی سے منتخب کرتا ہو گا۔ گویا اُس نے چیئرمین سی ڈی اے کی حیثیت سے کام کرکے قوم پر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہے۔ بعد میں عدالت کے ایک فیصلے کے نتیجے میں یہ پریکٹس ختم ہو گئی۔گریڈ 22 کے افسروں نے ہاؤسنگ فاؤنڈیشن اور کچھ نے کری روڈ سکیم سے استفادہ کیا۔ایف 14 اور ایف 15میں بیورو کریٹس کو الاٹمنٹ ہو چکی ہے، لیکن یہ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج ہو چکی ہے،اور یوں دو نہیں،بلکہ کئی پلاٹوں کے مالک بنے۔ نیوز کی ایک سٹوری کے مطابق اِن پلاٹوں کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 25 ارب روپے ہے ان افسران نے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے جمع کرائے۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس پر سوال اُٹھایا ہے۔


خود مختار اور نیم خودمختار اداروں میں پلاٹوں کی بندربانٹ کی کہانی بھی حیرت انگیز ہے۔ پولیس فاؤنڈیشن میں اس معاملے میں دھاندلی کی کہانی پچھلے دنوں ایک کالم میں ممتاز صحافی رؤف کلاسرہ نے تفصیل سے بیان کی ہے بعد میں ایک چینل پر کلاسرہ اور عامر متین صاحب نے اِس معاملے پر کچھ مزید روشنی ڈالی۔ انہوں نے جو تفصیلات بتائیں وہ خاصی حیرت انگیز ہیں مثلاً فاؤنڈیشن کے تقریباً تمام منیجنگ ڈائریکٹروں نے پانچ پانچ پلاٹ الاٹ کروائے ایک دو ملازمین نے تو 10 پلاٹس بھی الاٹ کرائے جن کی قیمت چند سو تھی ایسے لگتا ہے کہ فاؤنڈیشن کسی جزیرے میں قائم تھی، جہاں کوئی حکومت یا کوئی سیکرٹری یا وزیر نہیں تھا، لہٰذا انہوں نے اپنی مرضی کے فیصلے کئے۔ دو پلاٹس وزیراعظم شوکت عزیز نے الاٹ کروا لئے۔ ظاہر ہے جب حکومت کا سربراہ خود کسی بددیانتی اور ناانصافی میں شامل ہو جائے تو پھر باقی لوگ تو کھل کھیلیں گے۔ یہ حال ہے اُن لوگوں کا جنہیں ہم مقامی ”چوروں“  ”ڈاکوؤں“ کی جگہ امپورٹ کرتے رہے ہیں، لیکن اس بدقسمت قوم کے ساتھ ہمیشہ دھوکا ہو جاتا ہے۔ دراصل پلاٹوں کے اس کاروبار کو بیورو کریٹک اشرافیہ نے Institutionalize کر لیا، جو دراصل کرپشن کی ایک شکل ہے۔


پولیس فاؤنڈیشن کی بہتی گنگا سے میں نے بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور یہ الگ بات کہ وہ مجھے اُلٹی پڑ گئی۔ پانچ سو گز کا ایک پلاٹ میں نے پولیس فاؤنڈیشن کی رہائشی سکیم ای الیون میں الاٹ کرا لیا۔ تقریباً بیس سال پہلے 7 لاکھ روپے ترقیاتی اخراجات کے علاوہ ادا کئے لیکن دو سال بعد میں نے وہ پلاٹ فروخت کر دیا۔ بعد میں ایک موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس سکیم پر سوموٹو نوٹس لے لیا اور قرار دیا کہ یہ سکیم تو پولیس کے شہداء کے لئے تھی اس میں دوسرے لوگوں کو الاٹمنٹ کیسے ہو گئی۔ دوسرا یہ کہ پلاٹس کم قیمت پر الاٹ کئے گئے، لہٰذا انہوں نے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیا۔ کمیشن نے غالباً پانچ پانچ پلاٹس کی الاٹمنٹ پر تو کوئی ایکشن نہ لیا۔البتہ پلاٹوں کی قیمت میں اضافہ کر دیا لہٰذا مجھے 6 لاکھ روپے جمع کروانے پڑے۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخ میں ایک عجیب و غریب فیصلہ تھا کہ جو پلاٹ میں تقریباً بیس سال پہلے بیچ چکا تھا اُس کی قیمت کے سلسلے میں اضافی رقم جمع کرانی پڑی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ الاٹمنٹ غلط تھی تو اِس میں الاٹی کا قصور تھا یا الاٹمنٹ اتھارٹی کا۔ کیا الاٹمنٹ اتھارٹی کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا غالباً اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ ہے ہمارا پیارا پاکستان جہاں دھاندلی کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، لیکن بعض لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی بھی سزا دے دی جاتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -