نقل دراصل قوموں کی بربادی ۔۔۔
ٹیلی ویژن سکرینوں پر دل ہلا دینے والے مناظر ہیں ۔ کمرہ امتحان میں ممتحن موجود نہیں، مطالعہ پاکستان کا پیپر ہے، کتابیں کھلی ہیں، واٹس اپ پر متفرق سوالات کے جوابات آ رہے ہیں، کسی نے ہینڈ فری لگا رکھی اور دوسری طرف سے جوابات لکھوائے جا رہے ہیں۔
یہ کراچی اور اندرون سندھ میٹرک کے سالانہ امتحانات کے مناظر ہیں جن کو دیکھ کر پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ ارباب اختیار ہوں یا سندھ حکومت، وزیر تعلیم ہوں یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر، کون ہے جو ان حالات سے بے خبر ہے لیکن کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ آج جو نقل کر کے پاس ہو جائیں گے، کل عملی زندگی میں وہ کیا گل کھلائیں گے ؟
دراصل کوئی بھی قوم ترقی و خوشحالی کی حقیقی منزل اُس وقت تک نہیں پا سکتی جب تک اس میں امانت و دیانت اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط نہ پائے جاتے ہوں ۔ ایسے افراد جو زندگی کو بے اصولی اور من مرضی سے گزارنے کو اہمیت دیتے ہیں ، وہ ناکام رہتے ہیں، ترقی و خوشحالی و اطمینان و سکون کی منزل نہیں پاتے ۔ معاشرے میں قدرومنزلت اور عزت و وقار سے محروم رہتے ہیں ۔ امتحانات میں نقل وہ برائی ہے جو تعلیم و تدریس کے مقدس نظام کوداغ دار کرتی ہے۔
ایک طالب علم اپنے اعلیٰ مستقبل کی خاطر حصول تعلیم کے لیے دن رات محنت کرتا ہے ۔ امتحانات کے قریب تمام مضامین اور تعلیمی و تدریسی معاملات کا جائزہ لے کر امتحان کی تیاری کرتا ہے اور امتحانات کے دنوں میں پوری ذمہ داری اور امانت و دیانت کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے پوری تندہی سے امتحانات دیتا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے لیکن ہزاروں ایسے طالب علم بھی ہیں جو محنت کے بجائے نقل کر کے یا پرچی چلا کے کامیاب ہوئے ۔
نقل کے رجحان سے لائق اور باصلاحیت طلبا کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ اس طرح نالائق طلباء زیادہ نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔ ذہین طلباء پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے، ان میں مایوسی ،غم اور غصے کے جذبات جنم لیتے ہیں اور وہ بھی محنت سے جی چرانے لگتے ہیں۔ نقل وہ روگ ہے جونوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود، ارادوں کو کمزور، عزائم کو پست اورخودی کو تباہ وبرباد ، قومی ترقی کی راہ میں حائل اور نسلِ نو کے مستقبل کوداؤ پر لگا رہا ہے۔ نقل نے تعلیمی نظام اور ڈھانچے کوناکام اور ناکارہ بنا دیاہے۔۔۔ اب نوجوانوں کے پاس سند تو ہے لیکن وہ کسی کام کے اہل نہیں، شعور، آگہی سے نابلد، ملازمت کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔۔۔
دُنیا جس برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے،ایسےمیں ہمیں تعلیم یافتہ،باشعور اور قابل، نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔طلباء میں نقل کےرجحان کاایک سبب والدین کی طرف سےبہترین گریڈزاور نمایاں کامیابی کا دباؤ بھی ہے۔ والدین کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ سارا سال ان کی پڑھائی کو کتنا وقت،اہمیت اور توجہ دیتے رہے ہیں لیکن امتحانات قریب آتے ہی والدین بچوں کے اعصاب پر سوار ہوجاتے ہیں اور ان سے بہترین نتائج کی امیدیں لگا لیتے ہیں لیکن اس عظیم مقصد کی تکمیل صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب طلباء اپنی تعلیم پر توجہ دیں اوردوران تعلیم ایک، ذمہ دار شہری کے جملہ اوصاف اپنے اندر پیدا کریں۔
آج کے نوجوانوں کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر وہ زیادہ نمبر حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو سال کے اوّل دن سے محنت اور پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھیں، اگر روزانہ آدھا گھنٹہ بھی ایک مضمون کو دیں تو امتحان کےدنوں میں نہ رات بھر جاگ کر پڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی نقل کرنے کی۔
محنت و مشقت کو اپنا شعار بنائیں، یاد رکھیں قابلیت اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ ڈگریاں محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہوں تو ملک وقوم کی عمارت بلند اورمضبوط ترہوگی۔ نقل کی بہ دولت ملنے والی سندعملی زندگی میں کسی کام نہیں آئے گی۔۔۔طالب علم اس قوم کے معمار ہیں، اس لیے انہیں صحیح تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا والدین اور اساتذہ کا قومی اور اخلاقی فرض ہے۔
ضروری ہے کہ نوجوان علم و عمل کے پیکر ہوں، ان کی کامیابیاں محنت و لگن، جستجو اور جدوجہد سے عبارت ہوں، ان کی ڈگریاں ان کی اپنی محنت اور کاوش کا ثمر ہوگی ،تو ملک و قوم کی عمارت بلند اور مضبوط تر ہو گی۔ امتحان میں نقل کر کے ڈگری یافتہ کہلانے کی حیثیت محض کاغذی پُرزوں سے زیادہ نہیں ہوتی،ان سے ملنے والی کامیابی بھی دیرپا نہیں ہوتی۔ ہم ببول بو کر گلاب کی آرزو نہیں کر سکتے۔بیج کو دفن ہونا پڑتا ہے۔۔
(زینب وحید ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور کیمرج کی طالبہ ہیں۔ وہ صف اول کی مقررہ،مصنفہ اورمتعددشہرت یافتہ اداروں کی سفیربھی ہیں ۔ زینب وحید مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کی یوتھ سمٹ میں شامل کیا گیا ہے۔زینب وحید سے رابطے کے لئے ان کے فیس بک اور ٹویٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
twitter.com/UswaeZainab3
facebook.com/uswaezainab.official)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔