اقبالؒ اور مادہ و شعور کا نظریہ
علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات محض شعر و ادب تک محدود نہیں تھے، بلکہ وہ دیگر علوم و فنون کو بھی اپنی مضبوط گرفت میں لئے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سائنسی موضوعات کے اہم پہلوو¿ں کے بارے میں بھی اپنی نظم و نثر میں تذکرہ کیا ہے۔ مادہ (Matter) اور شعور کی بحث، سائنس کے اہم موضوعات میں شمار ہوتی ہے، کیونکہ اس کا اس کائنات، انسانی زندگی اور فلسفہ و نفسیات سے گہرا تعلق ہے۔ علامہ اقبالؒ کو کائنات اور حیاتِ انسانی کے مختلف گوشوں سے چونکہ بہت دلچسپی تھی، اس لئے انہوں نے اس کے بارے میں اپنی مشہور تصنیف، یعنی تشکیلِ جدید الہیات اسلامیہ میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"....Physics, finding it necessary to Criticise its own foundations, has eventually found reason to break its own idol.(The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.32)
مادی دنیا کے علم کو حاصل کرنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں۔ بعض اہلِ دانش مادی ذریعہءعلم کو باقی ذرائع پر ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مادہ (Matter) ہی ہماری تمام باطنی کیفیات اور خارجی اثرات کا لازمی اور بنیادی سبب ہے۔ مادہ پرست حکماءخدا کی طرح مادے کو بھی ازلی اور ابدی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مادہ مختلف شکلیں تو اختیار کر سکتا ہے، مگر یہ فنا نہیں ہوتا۔ وہ اسے ہی سرچشمہءحیات تصور کرتے ہیں۔ سائنسدان اپنے نظریات کی خارجی مشاہدات، حِسی تجربات اور محسوسات پر بنیاد رکھتے ہیں، اس لئے وہ حواسِ خمسہ ہی کو اولین ذریعہءعلم سمجھتے ہیں۔ وہ شعور اور روح کو بھی مادیت ہی کے تابع قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس حکماءکا دوسرا گروہ مادے پر شعور، نفس اور روح کو فوقیت دیتے ہوئے مادی تغیرات اور خارجی اشیاءکے علم کو نفس اور شور کے تحت خیال کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ فلاسفہ اور مفکرین کے اس مکتبِ فکر کے حامی ہیں جو مادے پر شعور کی برتری کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ اپنے اس مسلک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جہانِ رنگ و بُ و گلدستہءما
(کُلیاتِ اقبالؒ فارسی544)
وہ اس جہانِ رنگ و بُ و کو شوخیءافکار کا نتیجہ اور صنم خانہ ءپندار قرار دیتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے مرشدِ روحانی مولانا رومؒ نے اس عقیدے کا یوں اظہار کیا تھا: بادہ از ماست شد نے ماازو (شراب کے اندر مستی ہماری وجہ سے ہے نہ کہ ہم شراب کے سبب مست ہوئے ہیں) علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا پہلے قول میں طبعی علوم کے ایک اہم، قدیم اور بنیادی نظریے، یعنی تصورِ مادہ کی تردید کو بیان کیا ہے۔ طبیعات(Physics) اپنے تجربات اور مشاہدات کے لئے عالمِ محسوسات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رکھتی ہے۔ اس کے سائنسی نظریات مادی دنیا کے عمیق مطالعے و مشاہدے پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ مادی اشیاءکی نوعیت اور حقیقت کے بارے میں دو باتوں.... مادہ اور اس کے خواص.... کو مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اشیاءکی پہچان ہم ان کی صفات کی بناءپر کرتے ہیں، مثلاً رنگ اور آواز اگرچہ خارجی وجود کی حامل ہیں، مگر ان کی حقیقت ان کی صفات میں پنہاں ہے۔ کسی چیز کا مخصوص رنگ ہمارے احساس پر مبنی ہوتا ہے، جیسے کسی نیلی چیز کو دیکھ کر ہمارے احساس کے اندر وہ خاصہ رنگ پیدا ہوتا ہے، جس کے سبب ہم اسے نیلگوں قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح آواز کا وجود بھی ہمارے احساس پر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ذہن نے اس شے کو اپنے رنگ میں پیش کیا ہے۔ انگلستان کے ایک مشہور فلسفی جان لاک(JOHN LOCKE, 1632-1704)) نے علم کو حِسی تجربات پر مبنی تصور کرتے ہوئے کہا تھا:
"....There is nothing in the mind except what was first in the Senses.
یعنی ہمارے افکار ہمارے احساسات کی پیداوار کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس طرح اس نے مادے پر شعور کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے مادہ پرستی کے بت کو پاش پاش کر دیا تھا۔ علامہ اقبالؒ کا بھی یہی نظریہ ہے۔
مادہ پرستوں کی نگاہ میں ہمارا ذہن ہماری پیدائش کے وقت اُس سلیٹ کی مانند ہوتا ہے، جس پر ابھی کچھ لکھا نہ گیا ہو۔ جوں جوں ہم اردگرد کی چیزوں کو دیکھتے، سنتے، چھوتے، چکھتے اور سونگھتے ہیں، توں توں ہمارے دماغ پر اُن کے خواص کے محسوسات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ محسوسات اور تصورات بعدازاں حافظے اور خیالات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ چونکہ صرف مادی اشیاءہی ہمارے احساسات اور تصورات کا سبب بنتی ہیں، اس لئے مادہ ہی ہماری معلومات کا اولین اور لازمی سرچشمہ ہے۔ مادہ پرست شعور اور عقل کوبھی مادے کی کرشمہ سازی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس نقطہءنظر سے عالمِ محسوسات سے ماورا اشیاءاور حقائق، مثلاً روح، حیات بعد الممات، وحی و الہام اور خدا، ان کی رائے میں کوئی اہم اور مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ روح کو مختلف عناصر کی خاص ترکیب اور مادے کی ترقی یافتہ صورت سمجھتے ہیں۔
طبیعات نے اشیائے کائنات کی دوگونہ تقسیم.... مادے اور اس کی صفات کے احساس کو تسلیم کیا تھا۔ مادے کے وجود کو اس کی خاص صفت کے احساس سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر غور کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ احساس پر ہی کسی شے کے وجود کا انحصار ہے، مثلاً اندھے کے لئے کسی تصویر کا وجود بے معنی ہوتا ہے۔ گویا وہ اس کے وجود کو محسوس ہی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ایک برا شخص عمدہ گیت سے بھی لطف نہیں اٹھا سکتا۔ اس کی نظر میں گیت کا وجود ہی نہیں۔ جان لاک نے مادے کو شعور پر فوقیت دی تھی۔ آئر لینڈ کے ممتاز فلسفی جارج برکلے.... george Berkley1685-1753 ....نے بھی مادے کے وجود کو احساس کا مرہون منت قرار دیتے ہوئے کہا تھا: "to be is to be perceived" ....یعنی کوئی چیز اس وقت موجود ہوتی ہے، جب اس کا احساس کیا جائے۔ اس طرح اس نے ثابت کر دیا کہ مادے کا وجود ایک خیالی شکل اور احساس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس نے مادے کی بجائے شعور اور احساس کے وجود کی حقیقت اور اہمیت پر زور دیا اور مادہ پرستی کے قدیم تصور کے بت کو پاش پاش کر دیا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اس لئے اپنے مندرجہ بالا پہلے قول میں انہی امور کی طرف اشارہ کیا ہے۔ برکلے کے بعد پروفیسر وہائٹ ہیڈ (1861-1947) نے بھی افادیت کو رد کر کے برکلے کی تائید کی تھی۔ مادے پر شعور کی فوقیت سے متعلق برصغیر پاک و ہند کے اس عظیم المرتبت فلسفی یعنی علامہ اقبالؒ نے متعدد شعر کہے ہیں۔ یہاں چند اشعار ان کے تصورِ فوقیتِ شعور کے بارے میں پیش کئے جاتے ہیں:
می تراشد فکرِ ما ہر دم خداوندے دِگر
دست ازیک بند تا اُفتادہ دربندے دگر
(پیامِ مشرق)
ہمارا فکر ہر لمحہ دوسرے خداوند تراشتا ہے۔ اس لئے وہ ایک بندھن سے چھوٹ کر دوسرے بند میں گرفتار ہو جاتا ہے۔
عالمِ مادی کی مختلف چیزوںکی ہمارا فکر پرستش شروع کر دیتا ہے۔ جب وہ شے اپنی اہمیت کھو دیتی ہے تو پھر ہمارا فکر کسی اور بت کی پوجا کرنے لگتا ہے۔ آخری مرحلے میں وہ ان تمام مادی بتوں کو خود ہی توڑ پھوڑ دیتا ہے وہ ایک اور جگہ کہتے ہیں:
ایں جہاں چیست؟ صنم خانہءپندارِ ماست
(یہ دنیا کیا ہے؟ یہ تو ہمارے افکار کا بُت خانہ ہے)
مادہ پرستوں کی رائے میں مادہ (Matter) زمان و مکان میں ایک ایسی چیز کا نام ہے جو اپنی ذات میں مستقل وجود کی مالک ہو۔ وہ اسے بھی خدا کی طرح ازلی اور ابدی تصور کرتے تھے۔ انگلستان کے معروف ریاضی دان اور ماہر طبیعات نیوٹن(1642-1727ءNeuton) کو جدید فزکس کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔ اس نے قانونِ کشش ثقل کی رُ و سے سیاروں اور سورج کی گردش کی وضاحت کی تھی۔ اس کے نظریے کے مطابق کائنات کی تمام اشیاءاور واقعات کسی نہ کسی شکل میں حرکت کے حامل ہیں۔ جہاں تک اس کے نظریہءمادہ کا تعلق ہے، وہ مکان (Space) کو ایک وسیع خلاءتصور کرتا تھا، جس میں چیزیں واقع ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے مادہ زمان و مکان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی مختلف چیزوں کا مجموعہ تھا۔ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ جدید طبیعات نے مادے کے اس قدیم نظریے کو غلط قرار دے کر ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے جس کی رُ و سے مادہ آپس میں ملے ہوئے واقعات کا نظام اور حوادث کا مجموعہ ہے۔ واقعات و حوادث کا یہ مجموعہ مسلسل تخلیقی رو کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں واقعات کا یہ نظام زمان و مکان کے مختلف نظریات کی تشکیل کے لئے اساس کا کام دیتا ہے۔ مادیت کے حامیوں کی نگاہ میں زمان و مکان مادے کی بناءپر معرض وجود میں آتے ہیں، مگر علامہ اقبالؒ زمان و مکان اور مادے کو خدائے تعالیٰ کی تخلیقی قوت کی فکری تعبیریں سمجھتے ہوئے کہتے ہیں:
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناّری
نہ ہے زماں نہ مکان لا الہ الا اللہ
وہ پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے اس تصور سے کلیتاً اتفاق کرتے ہیں کہ فطرت متحرک خلاءمیں جامد مادہ نہیں، بلکہ یہ واقعات کا ایک ایسا نظام ہے جو تخلیقی رو کا حاصل ہے اور جسے عقل جداگانہ غیر متحرک اشیاءمیں قطع کرتی ہے اور جس کے باہمی روابط سے زمان و مکان کے نظریات جنم لیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ اپنے سات خطبات (لیکچرز) کے مجموعہ تشکیلِ جدید البنیات اسلامیہ میں رقم طراز ہیں:
"....Space and time are interpretation which thought puts upon the creative activity of the Ultimate Ego. (The Reconstruction of Religious thought in Islam, p64
گویا ہمارے یہ مفکرِ اسلام زمان و مکان کو انائے مطلق (خدا تعالیٰ) کی تخلیقی سرگرمی کے بارے میں فکر کی پیش کردہ تعبیرات کا درجہ دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے تو ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ مادی کائنات ہمارے افکار و احساسات کا عکس ہے۔ جیسا ہمارا نظریہ ہوگا، ویسا ہی ہم کائنات کو خیال کریں گے۔ قنوطیت پسند آدمی اسے دکھوں اور مایوسیوں کی جگہ خیال کر کے اس کے مطابق اپنا رویہ اختیار کرے گا، مگر ایک رجائیت پسند انسان کی رائے میں یہ جہاں امید اور خوشی کی جلوہ گاہ ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق چیزوں کی قدر و بے قدری کا پیمانہ قائم ہوتا ہے۔ زرپرست آدمی کی نظر میں سونے کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے، لیکن ایک مردِ بے نیاز کے خیال میں اس کی کوئی قدر و منزلت نہیں۔ اسی حقیقت کے پیش نظر ہی علامہ اقبالؒ نے یہ کہا تھا:
بہ زر خود را منج اے بندئہ زر
کہ زر از گوشہءچشمِ تو زر شد
(اے زر کے غلام تو اپنے آپ کو سونے کے حساب سے مت تول کیونکہ زر تو تیری آنکھ کے گوشے کی وجہ سے زر ہے) خلاصہءکلام یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ کی رائے میں شعور کو مادے پر برتری حاصل ہے۔ ٭