زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا ویژن 2030ئ: ایک جائزہ
قومی زندگی میں اداروں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، جس طرح ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے، اسی طرح افراد مل کر ادارہ بناتے اور چلاتے ہیں اور پھر اداروں کی مجموعی کارکردگی قومی ترقی کا تعین کرتی ہے۔زرعی یونیورسٹی فیصل آباد زرعی علوم کا برصغیر میں سب سے قدیم اور موثر ادارہ ہے۔1906ءمیں پنجاب زرعی کالج و تحقیقاتی ادارہ کے نام سے قائم ہونے والی یہ دانش گاہ، اپنے قیام سے لے کر دور حاضر تک ایک تابندہ و درخشندہ ماضی کی امین ہے۔1961ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو یہ اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی مرکز و محور قرار پائی ۔سرحد پار پنجاب زرعی کالج لدھیانہ بھارت میں زرعی علوم کی درسگاہ کی بنیاد رکھی گئی اور بڑے تفاخر سے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کو اپنی مادر علمی کا درجہ اور احترام دیتے ہیں۔زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پاکستان کی سب سے بڑی اقامتی یونیورسٹی ہے اور سب سے زیادہ پی ایچ ڈی اساتذہ اس یونیورسٹی میں ہیں۔تازہ اعدادوشمار کے مطابق یونیورسٹی میں 84 پروفیسر 142 ایسوسی ایٹ پروفیسر 213 اسسٹنٹ پروفیسر 223 لیکچرار 25 ریسرچ آفیسر ہیں۔تقریباً 64 فیصد اساتذہ پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ متعدد اساتذہ کو قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ یونیورسٹی نے 2013-14ءتک 1200 پی ایچ ڈی 1829ایم فل 27283ایم ایس سی آنرز ایم بی اے اور 26008بی ایس سی آنرز ڈی وی ایم کو ڈگریاں عطا کی ہیں۔
تحقیقی میدان میں یونیورسٹی میں 636ریسرچ پراجیکٹ اور پی ایچ ڈی کے لئے مالی معاونت کے لئے 2002.5ملین روپے ملکی و غیر ملکی اداروں سے حاصل کئے ہیں۔اس کے علاوہ باہمی اشتراک کار کے لئے یونیورسٹی نے 90انٹرنیشنل 27قومی اور 41پرائیویٹ اداروں سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔کسان دوست تحقیق کے نتائج پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو بین الاقوامی سطح پر مانی جانے والی چند قابل فخر و انبساط کامیابیوں میں کنو اور سنگترے کی نئی ورائٹیاں آلو کی قسم Pars70 ،گندم کی ورائٹیاں 2426، Sarc-1، 9476، 9272،SARCکپاس P.B38 Lss،چنے کی قسم Aug-209، مونگ 56-2، مسور Aul 18-10،مکئی Um-1، براسیکا Maf-11سورج مکھی G72، G68، G8،G2اور مرغیوں کی نسل لائلپور سلور بلیک اور یونی گولڈ قابل ذکر ہیں۔
مادر علمی کی ملک میں موجود الحاق شدہ ادارے جو خود مختار یونیورسٹیاں کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ان میں یونیورسٹی آف ویٹرنری اور اینمل سائنسز لاہور اور بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی شامل ہیں۔یونیورسٹی کا کالج ڈیرہ غازی خان بھی عنقریب غازی یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرے گا۔زرعی کالج بورے والا، ٹوبہ ٹیک سنگھ کمیونٹی کالج جھنگ روڈ فیصل آباد، دیپالپور کالج اس یونیورسٹی کے زیر انتظام و انصرام چل رہے ہیں۔
ویژن 2030ءانتہائی ولولہ انگیز، روشن دماغوں کی سوچ و فکر کا نتیجہ اور مستقبل کی ضروریات سے ہم آہنگ دستاویز ہے۔پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان (ستارہ امتیاز) اور ان کی ٹیم صدق دل کے ساتھ اس ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہے۔یونیورسٹی کی فیکلیٹوں کے ڈین ڈائریکٹرز، چیئرمین اور دیگر اساتذہ اور انتظامی سٹاف ایک ولولہ تازہ کے ساتھ نئی بستیاں آباد کرنے کے لئے میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ ویژن 2030ءکا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔ملک کو خوراک میں خود کفیل، خوشحال اور خود دار قوم بنانے کے لئے زرعی یونیورسٹی۔ بنیادی اور عملی علم اور تحقیق کی وسیع پیمانے پر ترویج۔
علم و کمال سے متصف افراد کو میدان عمل میں اتارنا اور ملکی ترقی کا حصہ بنانا۔
دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ زرعی علوم و فنون کو رائج کرنا۔
زرعی اصلاحات کو ترتیب دینا اور ان کے عملی نفاذ میں حکومت کو سفارشات کرنا۔
کسانوں کاشتکاروں اور عوام الناس تک زرعی تحقیق کے نتائج پہنچانا اور انہیں ان سفارشات پرعمل کرنے کی ترغیب دینا۔
مربوط اور مسلسل زرعی نظام اور فراہمی خوراک اور اس کے استعمال کو یقینی بنانے کے لئے کوششیں کرنا۔
زرعی و پیشہ وارانہ تعلیم کے فروغ کے لئے کلیدی نکات
یونیورسٹی نے بتدریج زرعی و پیشہ وارانہ میدان میں بہت سے نئے کورسز اور ڈگریاں شروع کی ہیں، جس میں ایم بی اے ،ایم ایس سی ،بی ایڈ وغیرہ اہم پروگرام ہیں۔
کلیدی نکات کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭....مختلف مضامین عملی شعبہ جات اور ملازمتوں کے لئے بہترین عملی صلاحیتوں سے مزین کرنا، تاکہ ہنرمند افراد کماحقہ اپنی خدمات سرانجام دینے میں اہل ہوں۔ ملک میں موجود مسائل کے حل جدید ٹیکنالوجی کی روشنی میں تجویز کرنا اور ان کی کامیابیوں کو بین الاقوامی سائنسدانوں سے اشتراک کرنا۔
٭....افراد میں اس طرح کی مہارت تامہ پیدا کرنا کہ وہ مسائل کو عقلمندی سے سمجھنا اور ان کے حل پر آزادانہ شخصی رائے قائم کرنا اور روبہ عمل لانا نئی ایجادات کو تنقید و تنفیض کے لئے پیش کرنا۔
٭....اچھے سائنسدان کی خوبیوں سے مزین کرنا مثلاً اپنے کام سے لگاﺅ، دیانتداری اور پیشہ ورانہ لیاقت اور قائدانہ صلاحیتوں کو روبہ عمل لا کر لوگوں کے لئے نمونہ عمل بننا۔
٭....زبان و بیان اور قلم و قرطاس کی صلاحیتوں کو پیدا کرنا ،اجاگر کرنا اور اعتماد پیدا کرنے کے لئے یونیورسٹی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔موجودہ دور کی انفرمیشن ٹیکنالوجی سے روشناس کرکے مہارت کے اعلیٰ مقام پر متمکن ہونے میں ممدو معاون ہونا ،یونیورسٹی اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ افراد کو ملکی ضروریات کے مطابق ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے تیار کرنا اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا فریضہ اور نصب العین ہوتا ہے۔یونیورسٹی اپنے ماٹو ”رِزقاً حسناً“ میں اپنی کومٹمنٹ یعنی حاصل سعی کا اظہار کرتی ہے۔اچھا پاک اور فراواں رزق اللہ کی زمین سے حاصل کرکے مخلوق خدا کے لئے فراہم کرنا اور اس فراہمی کو بلا تعطل یقینی بنانا اپنا مقصد گردانتی ہے اور خوشحالی کی اس منزل کے حصول کے لئے پورے عزم، حوصلے، عقل و شعور، مادی و غیر مادی صلاحیتوں، آلات صنعت و حرفت (ٹیکنالوجی) کو استعمال میں لا کر میدان عمل میں موجود ہے۔
وژن 2013ءدراصل خاکہ ہے اس منزل کا ،جس کا خواب بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ نے دیکھا کہ تعلیم سب کے لئے، ہنر سب کی پہنچ میں، خوشحالی ہر کسی کا مقدر، شخصی وقار اور عزت نفس کے ساتھ زندگی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے یکساں مواقع اور دیانت دار قیادت و سیادت۔ یہ ہے وہ مشن جس کے لئے زرعی یونیورسٹی کے جناب وائس چانسلر کی قیادت میں دن رات کوشاں ہیں۔پچھلے چھ برس سے اس سلسلہ میں بہت سے سنگ میل عبور کرنے کا سہرا بھی موجودہ قیادت کے سر جاتا ہے۔زرعی یونیورسٹی دنیا کی بہترین جامعات میں 98نمبر پر ہے اور یہ اعزاز پاکستان میں صرف اس جامعہ کو حاصل ہے۔2012ءمیں اسلامک ڈویلپمنٹ بنک نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تمغہ اور کیش پرائز دیا۔یونیورسٹی کو اس کے سرسبز کیمپس کی وجہ سے یو آئی گرین میٹرک ورلڈ کی طرف سے 35ویں نمبر پر رکھا گیا۔2013-14ءمیں پاکستان کونسل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے زرعی یونیورسٹی کو پہلے نمبر پر قرار دیا۔
جامعہ کے ویژن 2030ءکے سلسلہ میں جناب چانسلر/ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف نے اپنے گراں قدر تعریفی خیالات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے یونیورسٹی کے مشن کو سراہا ہے اور اپنی ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے الگ الگ تحریری پیغامات میں کیا ہے جو ویژن 2030ءدستاویز میں شائع کیا گیا۔بلاشبہ یہ دستاویز جس عرق ریزی ،محنت اور بالغ نظری سے ترتیب دی گئی ہے۔راقم پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان (ستارئہ امتیاز) ان کی جملہ ٹیم اور خاص طور پر ڈاکٹر سلطان حبیب اللہ خان کو مبارکباد پیش کرتا ہے:
جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا