فرامین رسول ؐ یاد رکھیں اور عمل کریں! 

  فرامین رسول ؐ یاد رکھیں اور عمل کریں! 
  فرامین رسول ؐ یاد رکھیں اور عمل کریں! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


  ساڑھے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہمارے پیارے نبیؐ نے جو کچھ فرمایا وہ جوں کا توں پورا ہو رہا ہے۔ اللہ کے آخری نبی خاتم النبین صلی اللہ و علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ وقت آئے گا جب ریت کے میدانوں میں آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں تعمیر ہوں گی۔ فرمان نبویؐ یہ بھی ہے کہ جب قیامت قریب ہو گی تو انسانوں کے اعمال خراب ہو جائیں گے۔ اولاد والدین کا احترام نہیں کرے گی۔ اور طاقت ور کمزور کا استحصال کریں گے جب مسلمانوں کا کردار خراب ہوگا تو وہ مصائب میں بھی مبتلا ہوں گے۔ آپؐ سے موسوم احادیث میں جو کچھ بتایا گیا وہ بعینہ پورا ہو رہا ہے۔ واعظ اور علماء ہمیشہ قیامت کے حوالے سے فرامین کا ذکر کرتے رہے اور کرتے ہیں میرے بزرگ علامہ ابوالحسنات بھی بڑے دھیمے اور نرم لہجے چودھویں صدی اور قیامت کے حوالے سے احادیث کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک بار ان کی شفقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھا، حضرت یہ جن احادیث اور فرامین رسولؐ کا آپ ذکر کرتے ہیں۔ بلا شبہ یہ وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور مزید بھی ہوتی رہیں گی۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں کوئی فرق آئے۔ تو حضرت علامہ ابوالحسنات نے فرمایا جی! یہ درست ہے تاہم اگر حضورؐ سے منسوب ان احادیث کو ہدایت، وارننگ اور خبر کی صورت میں لیا جائے  تو پھر مسلمانوں کو ان تمام باتوں اور اعمال سے گریز کرنا ہوگا جن کی نشان دہی کی گئی اس طرح وہ وقت جس کی آمد کے بارے میں کہا گیا۔ دور ہو سکتا ہے اور اگر ہماری آئندہ نسلیں بھی احتیاط کریں اور اپنے اعمال کو فرامین رسالت کے دائرہ کار میں رکھیں تو اللہ کی رحمت سے ضرور مستفید ہوں گے۔


دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم مسلمان بحیثیت  مجموعی اپنے دین اور پیروی رسولؐ سے دور ہوتے چلے گئے اور بدستور چلے جا رہے ہیں۔ آپؐ نے بہت پر زور طور سے فرمایا کہ جھوٹ نہ بولو! آج ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں تو یقیناً شرمندہ ہوں گے۔ ہم تو ایسے جھوٹ بھی بولتے ہیں جو بالکل بے فائدہ اور بے سود ہوتے ہیں چہ جائیکہ ہم کسی فائدہ کے لئے ایسا کریں۔ اس کی مثال آج کے موبائل فون ہیں کوئی کال کرتا ہے اور ہم سے یہ پوچھتا ہے کہ کہاں ہو تو ہم بے ساختہ جھوٹ بول کر کسی دوسری جگہ ہونے کو بتا دیتے ہیں۔ ہماری معاشرتی زندگی سیاست اور میل ملاپ، لین دین سب میں جھوٹ ہی اولین حیثیت کا حامل ہے۔ آج سوشل میڈیا کے نام سے جو طوفان برپا ہے اس پر جھوٹ توکجا بہتان طرازی اور کردار کشی ہوتی ہے۔
لکھنا تو آج بھی سیاست پر چاہئے کہ ہمارے یہ سیاسی راہنما ہمیں خون خرابے کی طرف لے جانا چاہ رہے ہیں۔ آج قوم کو بہت بری طرح تقسیم کر دیا گیا ہے۔ کوئی کسی کی  بات سننے کو تیار نہیں ہے میرا دل زخمی اور درد سے بھرا ہوا ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں جو ان دنوں حرمت رسولؐ کے حوالے سے تقسیم ہیں۔ ایک واقع مسجد نبویؐ کے احاطہ میں ہوا ویڈیوز سے بالکل واضح ہے ہم یہاں تاویلیں کرتے پھر رہے ہیں کہ یہ حصہ مسجد نبوی کا نہیں اور پھر ایسے بدبخت بھی ہیں جو ماضی کی مثالیں خانہ کعبہ اور مکہ سے ڈھونڈھ کر لا رہے ہیں اور توبہ کی بجائے ڈھیٹ ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ماضی میں بہت کچھ ہو چکا۔ اے اللہ کے بندو اگر ماضی میں کسی نے غلط کام کیا۔ گناہ کا مرتکب ہوا تو کیا یہ پھر سے گستاخی کا جواز بن سکتا ہے۔ اسلامو فوبیا اور حرمت رسولؐ کے دعویدار جب ایسی مثالیں دیں تو یقیناً دکھ ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم سب دانستہ اور نا دانستہ ہونے والی غلطیوں کا ادراک کریں توبہ کریں اور اللہ سے عفو و درگزر کی دعا کریں نہ کہ بضد ہوں کہ مسجد نبویؐ کے احاطہ میں جو کچھ ہوا وہ درست  ہوا کہ پہلے ان کی جماعت مکہ میں ایسا کر چکی، معاف کیجئے یہ کوئی دلیل نہیں۔ یہ تو عذر گناہ بدتر از گناہ والی بات ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آج اس ذکر سے بہت سے حضرات غصہ میں بہت کچھ کہیں گے مجھے کوئی خوف نہیں۔ جس کا جو چاہتا ہے، جو مرضی کہے۔ حق کی بات یہ ہے کہ مدنیہ شریف، مسجد نبویؐ میں جو کچھ ہوا وہ صریحاً گستاخی ہے اور اس پر شرمندہ ہو کر توبہ ہی کرنا ہو گی۔ اس پر کوئی دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں اسے اپنی سیاست کا حصہ نہ بنائیں حرمت رسولؐ کے حوالے سے سوچیں اور غور کریں کہ جہاں اونچی آواز میں بولنا ممنوع ہے وہاں نعرے لگائے جائیں اور دھکے دیئے جائیں۔ میں ان سب حضرات کی توجہ بھی دلاتا ہوں کہ جو لبرل ازم کے پردے میں دہریت کی حد تک چلے گئے اور اپنے خبث باطن کا اظہار اسی طرح کرتے ہیں جیسے عبداللہ بن صباح کیا کرتا تھا اور یہ وہی تو ہے جس نے سب سے پہلے ”خود کش“ تیار کئے تھے۔
یہ تو ایک عام حوالہ تھا اور ہے تاہم مجھے تحریک انصاف کے سنجیدہ فکر حضرات (محمود الرشید، اسلم اقبال، اعجاز چودھری) سے یہ سوال پوچھنا ہے کہ ان سب کی قیادت میں چاند رات کو لبرٹی چوک میں جو مظاہرہ ہوا اور نعرہ بازی ہوئی خود ان حضرات نے بھی بلند نعرے لگائے تو کیا یہ چاند رات کا تقدس تھا؟ اور کیا یہ 31 دسمبر کی  رات کی روایت یہاں نہیں دہرائی گئی۔؟
میں ہمیشہ سے مصالحت کا قائل ہوں اور میرا یقین ہے کہ سیاست میں سچ اور سچ ہی ہونا چاہئے جمہوریت نام ہے دوسرے کی بات سننے اور اختلاف رائے کا احترام کرنے کا یہ نہیں کہ جو آپ کہیں وہ سچ اور دوسرے  جھوٹے۔ آج ہم قرآن کی تعلیمات سے روگردانی کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم فرقان حمید میں واضح طور پر فرمایا ”انصاف قائم کرو۔ کم نہ تولو“ (سورۃ رحمان) کیا ہم اس پر عمل کرتے ہیں ۔ کیا انصاف یہ ہے کہ جو ہمارے حق میں ہے وہ درست اور جو دوسرے کے لئے ہے وہ غلط کیا ہم تجارت میں وہ سب کرتے ہیں جو ہمارے پیارے رسولؐ اور ان کے صحابہؓ نے کیا اور دیانت کی مثالیں قائم کیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ جب اللہ کا حکم ہوا  تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ پر کھڑے ہو کر اہل مکہ سے فرمایا ”کیا تم مجھے جانتے ہو، اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے دشمن آ رہا ہے تو تم مان لو گے“ سب نے جواب دیا، آپ صادق اور امین ہیں۔ جو کہیں گے سچ ہوگا۔ اور جب آپؐ نے دعوت اسلام دی تو انہی لوگوں کا رویہ مختلف ہو گیا۔ ہم کو ان جیسا تو نہیں ہونا چاہئے۔
میری درخواست ہے کہ نفرت سے گریز کریں مسلمان کی حیثیت سے اپنے اعمال اور فرامین نبویؐ پر عمل پیرا ہوں، قیامت کو آواز نہ دیں ہمارے اعمال کے باعث قیامت قریب آتی جائے گی تو مسلمانوں پر آفات بھی نازل ہوں گی۔ اس لئے سیاست میں تحمل اور رواداری اور احترام باہم کو فروغ دیں خود عمل کر کے دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔ اللہ ہمارا محافظ ہو!

مزید :

رائے -کالم -