دیت اور قصاص کے حوالے سے جو عملی مشکلات پیش آتی ہیں اُن کا حل نکالنے کیلئے قانون سازی ضروری ہے جو ابھی تک نہیں کی گئی،کچھ ہوا بھی تو نامکمل ہے

دیت اور قصاص کے حوالے سے جو عملی مشکلات پیش آتی ہیں اُن کا حل نکالنے کیلئے ...
دیت اور قصاص کے حوالے سے جو عملی مشکلات پیش آتی ہیں اُن کا حل نکالنے کیلئے قانون سازی ضروری ہے جو ابھی تک نہیں کی گئی،کچھ ہوا بھی تو نامکمل ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:45
ایک قتل کے مقدمہ کو قابل راضی نامہ بنایا گیا اور اس میں قصاص اور دیت کے قانون کو نافذ کرنے کی صورت بنائی گئی۔ اگر تو قتل کیا گیا ہے تو اس کی سزا قصاص رکھی گئی کہ قتل کے بدلہ میں قتل کر لیں یا مقتول کے ورثاء معاوضہ لے کر صلح کر سکتے ہیں۔ یہ قانون نافذ کر دیا گیا۔ اگر کسی کو زخمی کیا جائے تو اس میں بھی زخمی ہونے والا اپنے ملزم کو اسی قسم کے آلہ سے ویسا ہی زخم لگانے کا حق رکھتا ہے یا وہ زخمی کو معاوضہ ادا کرے کہ مجروح مطمئن ہو جائے اور معاف کر دے۔ اس سلسلہ میں جو عملی مشکلات پیش آتی ہیں اُن کا حل نکالنے کے لئے قانون سازی ضروری ہے جو کہ ابھی تک نہیں کی گئی جہاں کچھ ہوا بھی ہے وہ ابھی نامکمل ہے۔ایک ملزم نے کسی کے سر پر کلہاڑی سے وار کر کے زخمی کر دیا۔ نچلی عدالت نے فیصلہ دیا کہ مضروب ایسی ہی ضرب ملزم کے سر پر لگائے۔ جب ہائی کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا تو میں نے سرجن کو بلایا کہ وہ بالکل اتنی ضرب لگا سکتا ہے جو زیادہ ہو نہ کم تو اس نے معذوری ظاہر کی۔
سرگودھا سے میرے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا کہ ایک نوجوان لڑکے سے قتل سرزد ہو گیا ہے۔ سیشن جج کی عدالت نے ملزم کی عمر اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسے چند سال قید کی سزا سنائی اور ساتھ ہی مقتول کے ورثاء کو بھاری رقم بطور دیت ادا کرنے کا حکم دیا۔ ملزم کو جو سزا دی گئی تھی وہ تو اُس نے گزار لی۔ اب وہ دیت کی رقم ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیل میں تھا۔ یہ مقدمہ سرگودھا سے فوجداری کے مشہور ماہر وکیل سید احسان قادر شاہ نے پیش کیا کہ ملزم ایک غریب آدمی ہے۔ اس کا خاندان بھی بہت غریب ہے اس کا سارا خاندان کسی بڑے زمیندار کے احاطہ میں رہتا ہے۔ اس کے لئے کام کرتے ہیں۔ خواتین گھروں میں لوگوں کا کام کرتی ہیں اور ان کے ہاں کسی بالغ فرد کی اتنی آمدنی نہیں کہ وہ دیت کی رقم ادا کر سکیں۔ اس پر میں نے چند مزید سینئر وکلاء کو عدالت کی معاونت کے لئے بلایا۔ تمام وکلاء کی رائے اور نقطۂ نظر یہی تھا کہ عرب میں دیت کی ادائیگی انفرادی نہیں بلکہ قبیلہ کی ذمہ داری تھا۔ اب چونکہ ملک کے ان حصوں میں قبائلی نظام نہیں ہے اس لئے یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ ایسے افراد کی دیت ادا کرے۔ اس سلسلہ میں میں نے بیت المال کے ناظم سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اُن کے پاس ایسی ادائیگیوں کے لئے کوئی مد نہیں ہے۔ کلکٹر ضلع سرگودھا سے پوچھا کہ کوئی سرکاری اراضی جسے بیچ کر ملزم کی دیت ادا کی جائے تو انہوں نے بھی معذرت کر لی۔ میں نے پتہ کیا کہ کوئی شخص اس کی ضمانت دے تاکہ اُس ملزم کو رہا کیا جائے تاکہ وہ اپنا رزق بھی کمائے اور دیت کی بھی ادائیگی کرتا رہے مگر کوئی شخص ملزم کی ضمانت دینے کو بھی تیار نہ تھا۔ میرے پاس ایک راستہ تھا کہ ملزم کو رہا کر دوں اور اسے حکم دوں کہ جیل سے باہر آ کر وہ کوئی کام کرے اور اس گھرانہ کو جس طرح بھی دیت کی رقم دے سکتا ہے ادا کرے۔
اسی طرح کا ایک اور مقدمہ ملتان بنچ کے سامنے پیش ہوا۔ ایک نوجوان لڑکے کا جیل سے خط آیا جس میں اُس نے لکھا کہ وہ سائیکل پر کہیں جا رہا تھاکہ بازار میں اچانک ایک بزرگ شخص اُس کے سامنے آ گیا۔ وہ بریکیں نہ لگا سکا اور وہ بزرگ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ سیشن کورٹ سے اُسے چند سال قید اور 3 لاکھ روپے دیت کی رقم مقتول خاندان کو ادا کر نے کی سزا ہوئی۔ اب یہ ملزم اپنی قید کی سزا تو پوری کر چکا ہے، دیت کی رقم ادا کرنے کے لئے کوئی ذریعہ نہیں اور وہ محض دیت کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے کئی سال سے جیل میں ہے۔ یہ واقعی بڑی اہم بات تھی اُس نے جو درخواست بھجوائی تھی۔ میں نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو کہا کہ ملزم کے والد کو بلا بھیجا جائے جس پر تھانے دار اس کے والد کو لے کر پیش ہوا۔ اس نے بتایا کہ وہ پاکپتن شریف دربار حضرت بابا فرید شکر گنجؒ پر سرمہ پیس کر بیچتا ہے اور اس سے ان کے خاندان کی روٹی چلتی ہے لہٰذا وہ تو دیت کی رقم ادا نہیں کر سکتے نہ ہی اس نوجوان کے لئے کوئی ضمانت دینے کے لئے تیار ہے۔ صورتحال ایسی تھی کہ جن لوگوں سے بھی مشورہ کیا جا سکتا تھا مشاورت کے بعد اس لڑکے کو بھی رہا کر دیا اور کہا کہ وہ محنت مزدوری کر کے دیت کی رقم ادا کرے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -