پرندوں کا تحفظ

پرندوں کا تحفظ
پرندوں کا تحفظ
کیپشن: File Photo

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر:  ریاض حسین ہوشیارپوری
 7اکتوبرعالمی یوم  ہیبی ٹیٹ کا دن آرہا ہے، یہ دن ہر سال اکتوبر کے پہلے ہفتہ کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ایک یادہانی اور سرگرمی کا دن ہے۔ اس دن ہمیں خود اور اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اقدار کو مستحکم کرنے کا دن ہے۔ کسی کے گھروں پر قبضہ کرنے کی بجائے لوگوں سے تعاون کرنے کا دن تاکہ ایک عام آدمی بھی اپنے بچوں کے ساتھ  اپنی کے نیچے رہ کرزندگی  پرسکون گزار سکے اسی طرح اللہ تعالی کی دوسری مخلوق کا خیال رکھنا بھی اشرف المخلوق کا فرض ہے کہ خیال رکھے۔ 
   ایک پرندہ شکاری کے ہاتھ لگ گیا، شکاری نے اس کو اپنے گھر میں ایک پنجرے میں قید کر دیا۔ جب اداس ماں اپنے بچوں کے پاس واپس پہنچی تو بچوں نے اپنے باپ کا پوچھا تو وہ خاموش ہو گئی۔
دوستو! جس طرح اللہ کریم نے ہمیں پیدا فرمایا اسی طرح رب کریم نے انسان کے ماحول کو خوبصورت بنانے اور اس کی زندگی کو سُکھ دینے کے لیے دیگر مخلوقات کع بھی پیدا فرمایا۔ لیکن آج ہم پرندوں کے بارے میں بات کریں گے۔ پرندے ہمارے ماحول کو خوشگوار بنانے اور آلودگی کو کم کرنے میں ایک اہم کردار کرتے ہیں۔ لیکن ہم ان کا تحفظ کرنے میں یا تو سوجھ بوجھ نہیں رکھتے یا پھر ہم خود سنجیدہ نہیں۔
پیارے بچو! جس طرح ہم سب اپنی زندگی کو ہنستا مسکراتا گزارنا چاہتے ہیں، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے اپنے والدین کا سایہ ہمیشہ اپنے سر پر دیکھنا چاہتے ہیں، اسی طرح یہ پرندے بھی اپنی نسل کواور بڑھتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، پرندے جس قدر زیادہ ہوں گے قدرتی ماحول اتنا ہی خوبصورت، چہکتا اور آلودگی سے پاک ہوگا۔ انسانی زندگی اتنا ہی سکون محسوس کرے گی۔ 
ہم موسم بہار کی بہاریں دیکھ رہے ہیں ہر طرف سر سبزو شاداب گھاس، نباتات، درختوں پر پھل اور پھول نظر آرہے ہیں، ہوا میں ہر سو خوشبوئیں پھیلی ہوئی ہیں۔ صبح کا منظر بہت دیدنی ہوتا ہے۔ صبح یا شام کو کسی کُھلے پارک میں سیر کے لیے جائیں تو کتنا سہانا موسم ہوتا ہے، دل کرتا ہے وہیں قیام کیا جائے۔ 
اسی طرح پرندوں کی افزائش نسل کا موسم بھی ہے، آپ نے دیکھا ہو گا پرندے اپنے منہ میں خشک گھاس کے تنکے یا درختوں کی خشک ٹہنیوں کو اٹھا کر کسی درخت، پرانی عمارت، کچے مکانوں یا پھر گھروں کے گیٹ کے اردگرد گھونسلا بنانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ پرندے گھونسلا بنا کر کیا کریں گے، ان میں انڈے دیں گے، ان انڈوں سے کچھ دنوں کے بعد اللہ کریم بچے پیدا کردے گے، پھر یہ بڑے پرندے اپنے ننھے منھے بچوں کے ماں باپ بن جائیں گے، یہ چھوٹے چھوٹے، پیارے پیارے سے بچے بھی ا پنے والدین کا ساتھ بھی ہماری طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان بچوں کے والدین (پرندے) ان کی پرورش کے لیے دور دراز کھیت کھلیانوں یا گھروں سے دانہ (خوراک) وغیرہ تلاش کرکے لاتے ہیں، پرندے گھنٹوں اپنے بچوں کی خوراک کے لیے میلوں سفر کرتے ہیں، پھر آپ نے کئی مرتبہ دیکھا ہو گا جیسے ان بچوں کی ماں یا باپ ان کے نزدیک چونچ میں کچھ لے کر پہنچتا ہے تو وہ شور مچاکر اپنے والدین کا استقبال کرتے ہیں، ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں،اور پیار سے ان کو بلاتے ہیں اور کھانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ننھے منھے بچوں کے والدین ان کو باری باری اپنی چو نچ سے کھانا کھلاتے ہیں، جب کھانا ختم ہو جاتا ہے، انسان کے چھوٹے بچے کی طرح پھر مانگتے ہیں کہ۔ یہ ان کی پیاس اور بھوک کو مٹانے کے لیے پھر سے پُھر کرکے اڑجاتے ہیں اور ان کے کھانے کی تلاش شروع کر دیتے ہیں، جہاں جہاں سے ان کو کچھ ملتا اکٹھا کرکے پھر سے اپنے گھونسلے میں بچوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ 
اب ہوتا کیا ہے! جب یہ پرندے گھونسلا بنا کر انڈے دیتے ہیں تو کچھ شرارتی بچے ان انڈوں کو توڑ دیتے ہیں اور یہ ماں باپ بننے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یا پھر جب یہ پیارے پرندے ماں باپ بن جاتے ہیں، اپنے ننھے بچوں کے لیے خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کچھ لوگ ان بچوں کی پرواہ کیے بغیر ان کا شکار کر لیتے ہیں یا پھر ان کو پکڑ کر گھر لے آتے ہیں یا پھر مارکیٹ میں چند سکوں کے بدلے فروخت کر دیتے ہیں۔ تو ثابت ہوا، انسان ہی ان کا دشمن ہے جو ہمارے لیے ایک صاف ستھرا اورخوبصورت ماحول بناتے ہیں۔ ان کے بچے گھونسلے میں بیٹھے اپنے ماں باپ کا انتظار کر رہتے ہوتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم آج کا شرارتی یا لالچی بچہ میرے ماں باپ کا شکار کر چکا ہے،
پیارے بچو! بظاہر تو شکاری نے اپنی خوراک یا چند سکوں کے بدلے ان کو فروخت کردیا لیکن اس نے ان ننھے اور پیارے سے بچوں کو جیتے جی مار دیا اور یتیم کر دیا، جو بچے اپنے والدین کا انتظار کر رہے تھے، اگر ہمارے والدین صبح کام پرجائیں اور واپس گھر نہ آئیں تو ذرا سوچو ہم پر کیا گزرتی ہے۔ اسی طرح یہ چنے منھے بچے اپنے ماں باپ کو آوازیں دیتے ہوئے بھوک سے نڈھال ہو کر مرجاتے ہیں۔ 
 ہمیں چاہیے کہ ایسے موسم میں پرندوں کا نہ تو شکارکریں اور نہ ہی ان کے انڈوں کو ضائع کریں۔ بلکہ اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے ہمیں تو ان کی زندگیوں کا تحفظ کرنا چاہیے، ان کے رہنے کے لیے گھروں یا باہر درختوں کے ساتھ گھونسلا نما گھر بنا کر نصب کر دینے چاہیں، گھر کی چھتوں پر ان کے لیے پانی اور خوراک کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ بچوں کی خوراک کے لیے انہیں دور کا سفر نہ کرنا پڑے اور نہ ہی کوئی شکاری ان کا شکار کرے، 
آج سے میرے ساتھ وعدہ کرو کہ نہ تو ان کے انڈوں اور بچوں کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے اور جو ساتھی شرارتی بچے ہوتے ہیں ان کو بھی ایسے غلط اور الٹی سیدھی حرکتوں سے باز رہنے کا کہیں گے، آپ نے دیکھا ہو گا کہ اب یہ پرندے عام بستیوں میں نظر نہیں آرہے (تیس چالیس برس پہلے پرندوں غول در غول آسمان پراُڑتے اور کھیلتے نظر آتے تھے)، کیوں! ہم ان کا خیال رکھنے کی بجائے ان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، جس سے ان کی افزائش نسل میں کمی واقع ہو رہی ہے، بہت سے پرندے تو ایسے بھی ہیں جن کی نسل اب ناپید ہونے کوہے۔
 بچو! ایک دن ننھے مھنے فاختاوں کے ماں باپ کھیتوں میں خوراک کی تلاش کے لیے گئے، ان کو چند دانے نظر آئے تو وہ آکر بیٹھ گئے دانہ دنکا کھانے لگے اوراپنے بچوں کے لیے بھی اکٹھا کرنے لگے، جیسے ہی وہ آکر بیٹھے شکاری نے جال سے ان کو پکڑنے کی کوشش کی، ان میں ایک تو بچ نکلا اور دوسرا شکاری کے ہاتھ لگ، شکاری نے اس کو اپنے گھر میں ایک پنجرے میں قید کر دیا۔ جب اداس ماں اپنے بچوں کے پاس واپس پہنچی تو بچوں نے اپنے باپ کا پوچھا تو وہ خاموش ہو گئی، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، پھر اس نے روتے ہوئے بتایا انسان توہمارا دوست تھا لیکن وہ دشمن بن گیا، اگلے دن فاختہ ماں پھرخوراک کے لیے نکلی، جیسے ہی وہ ایک گھر کے اوپر سے جارہی تو اسے اپنا ساتھی نظر آگیا، اس نے ادِھر اُدھر دیکھا تو پنجرے کے قریب جاکر کے بیٹھ گئی، اس نے اپنے بچوں کا بتایا کہ وہ بہت اداس ہیں، وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، قیدی فاختہ نے کہا آپ جہاں سے جلدی چلے جاؤ یہ بڑا لالچی شکاری ہے، تمہیں بھی پکڑ لے گا، میں کسی نہ کسی طرح واپس آجا ؤں گا، پیارے بچو! جب شکاری نے دوپہر کا کھانے ڈالنے کے لیے پنجرے کھولا تو فاختہ موقع پا کر پُھر سے اُڑ گیا اور اپنے بچوں کے پاس پہنچ گیا۔ بچوں کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ 
آپ نے دیکھاہوگا کہ بہت پرندے دوسرے ممالک سے مہمان  بن کرپاکستان آتے ہیں لیکن ہم ان کا شکارکرنا شروع کردیتے ہیں، بجائے ان کی میزبانی کی جائے الٹا ظالم بن جاتے ہیں۔
مجھے امید ہے آج سے آپ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے پرندوں کی جان کو خطرہ ہو۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پرندوں کے تحفظ کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ہیبی ٹیٹ کا عالمی دن ایک خاص دن ہے جو ہم اپنے شہروں کے بارے میں سوچنے کے لیے مناتے ہیں اور رہنے کے لیے ایک اچھی جگہ پر ہر کسی کے حق کو۔ یہ ہر سال اکتوبر کے پہلے پیر کو ہوتا ہے، اور اقوام متحدہ نے یہ دن ہم سب کو اپنے قصبوں، شہروں اور گھروں کی دیکھ بھال کرنے کی یاد دلانے کے لیے مقرر کیا ہے۔ ہم اس دن کو اس بات کا جائزہ لینے کے لیے مناتے ہیں کہ کس طرح شہر اور قصبے بڑھتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر ایک کے پاس گھر بلانے کے لیے ایک محفوظ، آرام دہ جگہ ہو۔

یہ اس بات پر غور کرنے کا بھی دن ہے کہ ہمارے گھر اور شہر ہمارے آس پاس کی دنیا کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔ ہمیں ہر ایک کے روشن اور خوش آئند مستقبل کو یقینی بنانے میں مدد کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، چاہے وہ کہیں بھی رہتے ہوں۔ ہر سال، عالمی یوم ہیبی ٹیٹ، زندگی کے حالات کے بارے میں مختلف مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف تھیم رکھتا ہے، جیسے کہ شہروں کو کیسے بہتر بنایا جائے یا ہر ایک کے پاس گھر ہو۔ یہ ہر ایک کے لیے، ہر جگہ، اپنی برادریوں کو بہتر، محفوظ، اور سب کے لیے خوش آئند بنانے میں مدد کرنے کے لیے ایک کال ہے۔ یہ زندگیوں کی تعمیر، ہر ایک کے لیے گھر کی اہمیت کو سمجھنے، اور اپنے سیارے کے ساتھ ہم آہنگی سے زندگی گزارنے کے طریقوں کو دیکھنے کے بارے میں ہے۔    

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔


  
 
 

مزید :

بلاگ -