نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

علامہ اقبال کا شمار دورِ جدید کے عظیم ترین مسلم مفکرین میں ہوتاہے۔وہ مسلمانوں کی فکری تاریخ میں مجتہدانہ ذہن رکھنے والے آخری مقبول لیڈر تھے۔ انھوں نے اپنے زمانے کی مروّ جہ فکر سے ہٹ کر مسلمانوں کی رہنمائی کی اور ان کی خوش قسمتی تھی کہ چند مستثنیٰ تنقیدوں کو چھوڑ کر ،ان کی یہ فکر عمومی طور پر قبول کرلی گئی۔
ان کی فکر کا ایک پہلوتصوف کے اس رخ پر زبردست تنقید تھی جو رہبانیت اور ترک دنیا کی تعلیم دیتا تھا۔اسرار خودی اور رموز بے خودی جیسی کتابوں کا یہ اہم موضوع تھا۔ اردو شاعری اور ان کے مکاتیب میں بھی جابجا ان کی یہ تنقید نظر آتی ہے۔مثلاًوہ زبور عجم میں کہتے ہیں:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری
اقبال تو گزرگئے مگر بدقسمتی سے ان کا یہ مصرعہ کہ ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کررسم شبیری‘‘ بعض لوگوں نے اچک لیا اور جب بھی دین کی صحیح دعوت ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے، وہ اس ’’خانقاہی طرزفکر‘‘ کی پھبتی کس کر اقبا ل کا یہ مصرعہ نقل کردیتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس طرح کے لوگ اقبال سے تو کیا واقف ہوتے ، وہ اس مصرعے کے بعد دوسرے مصرعے اور اگلے شعر سے بھی واقف نہیں ہوتے ،مگر پورے اعتماد سے ایک مصرعہ پڑھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے قرآن و حدیث کی واضح ترین ہدایات کا رد کردیا۔حالانکہ جو اشعار ہم نے پیچھے نقل کیے ہیں وہی اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ اقبال کی اصل تنقید بے عملی ،جمود اور رہبانیت پر تھی۔
رہی ’’رسم شبیری‘‘ تو حقیقت یہ ہے کہ اس کا حقیقی مطلب مراد لیا جائے یعنی حضرت حسینؓ کی طرح جہاد اور اس میں اپنی ذات اور خانوادے کی جان قربان کردینا تو یہ کام تو خودحضرت اقبال نے بھی نہیں کیا حالانکہ ان کی ساری زندگی برٹش راج میں انگریزوں کی غلامی اور ہندوستان پر ان کے قبضے کے دور میں گزری ہے۔انھوں نے مغرب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور انگریز سرکار سے ’’سر‘‘ کا خطاب پایا۔ انھوں نے جو کچھ جدوجہد کی وہ انتہائی پرامن سیاسی اور فکری جدوجہد تھی۔
یہ تو ممکن نہیں کہ اقبال جیسا بڑا آدمی منافقت کا مظاہرہ کرے۔ اس لیے ایک ہی امکان ہے کہ اقبال کی بات کو ٹھیک نہیں سمجھا گیا۔اصل بات یہ ہے کہ’’رسم شبیری‘‘ کو اقبال نے بطور ایک استعار ے کے استعمال کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان معاشرے کے خیر وشر سے لاتعلق ہوکرنہ بیٹھ جائے اور ترک دنیا کے رویے کو چھوڑ کر زندگی کے عملی میدان میں اترے اور اجتماعی بہبودکے لیے جدوجہد کرے۔ یہ کام اقبال نے ساری زندگی کیا ہے اور یہی ان کی مراد بھی تھی۔یہی بات ہے جو ان اشعار کو پورا پڑ ھنے سے بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔یہی درحقیقت ہمارے دین کی تعلیم بھی ہے۔ہمارے دین نے ہمارے لیے جو مقصد منتخب کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے نفس کا تزکیہ کیا جائے،(الشمس9:91)۔ اہل ایمان پر صرف ان کے اعمال کی ذمہ داری ہے،(المائدہ :105:5)۔
دوسروں کے حوالے سے مسلمانوں کو جو ذمہ داری دی گئی ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو حق کی تلقین اور اس پر ثابت قدمی کی تاکید کریں(العصر)۔ اسی ذمہ داری کو دوسرے مقامات پر امر بالمعروف و نہی عن المنکرکہا گیا ہے۔
قرآن مجید کی سورہ العصراس پر شاہد ہے کہ جس شخص نے ایمان، عمل صالح اور تواصوا بالحق والصبر کا یہ کام کرلیا وہ آخرت کے خسارے سے نجات پاجائے گا۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ جو لوگ قرآن کا فیصلہ قبول نہیں کرتے ان کے حصے میں آخرت کی ندامت کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔