پاکیزہ جھوٹ

پاکیزہ جھوٹ
پاکیزہ جھوٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک محترم جج کا بیان مورخہ 30 جولائی 2015ء قومی میڈیا کے مختلف اخبارات میں شائع ہوا تو حیرت ہوئی۔اُن کا بیان مندرجہ ذیل تھا۔
’’اِس مقدمہ کے بنچ سے علیحدہ ہونے کی بجائے استعفیٰ دے دوں گا‘جس پر صرف پانچ منٹ لگتے ہیں اور یہاں سے سیدھا گھر چلا جاؤں گا اپنے چیمبر میں بھی نہیں جاؤں گا۔‘‘(روز نامہ جنگ 30 جولائی 2015ء )کسی جج کے ایک مقدمہ سے علیحدگی کے فیصلے کو قانونی فقہہ میں (Judicial Recusal) کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے۔مَیں نے ضروری سمجھاکہ جوڈیشل علیحدگی کے اصولوں پر ایک مضمون اخبارات کو دیا جائے تا کہ اس اہم مسلئے پر علمی اور فقہی بحث ہو جائے لہٰذا میرا یہ مضمون مقدمہ کے واقعات اور کارروائی سے ہٹ کر صرف علمی اور اکیڈیمک ہوگا مزید یہ کہ میں اس کالم کو چند حوالہ جات کے علاوہ بے شمار عدالتی نظائر وغیرہ سے بوجھل نہ کروں میرا یہ کالم عام فہم ہوگا ۔


بیان پڑھتے ہی جو سوال میرے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ کیا اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کا مقدمے سے علیحدہ ہونا جب سائل ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرے ایسا ’’گناہ کبیرہ‘‘ہے کہ اس کے تصور ہی سے محترم جج اتنا سخت اور انتہائی رد عمل ظاہر کریں کہ وہ علیحدہ ہونے کی بجائے استعفیٰ دے کر اپنے چیمبر جانے کی بجائے سیدھے گھر روانہ ہو جائیں۔


اس سوال کا جواب دستورِ پاکستان میں تلاش کرتے ہیں ،
آرٹیکل 209 واضح کرتا ہے کہ اگر کسی جج کی ’’اہلیت یا طرز عمل کی تحقیق کرنی ہو تو اس امر کا فیصلہ ایک اعلیٰ ترین ادارہ سپریم جو ڈیشل کونسل کرے گی،جو علاوہ دیگر جج صاحبان کے سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج صاحبان پر مشتمل ہوگی۔‘‘


’’لیکن اگر متعلقہ جج جن کے خلاف تحقیقات کی جانی ہیں خود سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر ہوں تو اُن کی جگہ اُن کے بعد سینئر جج کو دی جائے گی‘‘ آرٹیکل [209(3)] گویا آئین تحقیقات کی ابتدا پر ہی متعلقہ جج صاحب کو کونسل سے علیحدہ کر دیتا ہے،کیونکہ بطور جج ان کا ’’طرزِ عمل‘‘ زیر بحث آسکتا ہے۔اسی طرح تو ہین عدالت کے قانون میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اگر کسی جج صاحب کی توہین کی گئی ہے اور اس پر کسی دیگر جج نے نوٹس لیا ہو تو نہ وہ جج اور نہ وہ جن کی توہین کی گئی ہے اس مقدمے کی سماعت کریں گے،بلکہ فوراً وہ مقدمہ چیف جسٹس کو بھیج دیا جائے گا تا کہ وہ مقدمہ کسی اور بنچ کے سپرد کرویں (دفعہ (3)11 توہین عدالت آرڈنینس)یہی صورت حال کمپنی کے قوانین میں پائی جاتی ہے۔جج کے مقدمہ سے علیحدگی (Recusal) کی وجہ تین نہایت خوبصورت اور بنیادی اصولوں پر استوار ہے۔


-1 کوئی بھی فرد اپنے معاملہ میں خود انصاف نہیں کر سکتا اور (No man can be Judge in his own cause)
-2 انصاف کا کیا جانا کافی نہیں بلکہ انصاف ہوتاہوا دکھائی بھی دیا جانا کہیں زیادہ اہم ہے۔
-3 کسی ایک جج کا تعصب پورے بنچ کے فیصلے کو کا لعدم کر دیتا ہے۔


اِس کے برعکس عدم اعتماد کے الزام کے باوجود جج صاحب کے علیحدہ ہونے کا فقہہ جو71 ویں اور81 ویں صدی تک مانا جاتا تھا وہ اس یقین پر قائم کیا گیا کہ ’’ جو معزز شخصیت اعلیٰ عدالت کے عہدہ پر فائز ہو جاتی ہے وہ ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس سوچ کو ایک نہایت قابل اور محترم (Privy Council) پروی کو نسل کے جج نے ان الفاظ میں رد کیا ’’اس مفروضہ اور روائت (MYTH) نے بے حد نقصان پہنچایا ہے کہ صرف عدالتی چوغہ (Robe) زیب تن کر لینے اور حلف اٹھا کر اپنے منصب کی کرسی پر براجمان ہو جانے کی بنا پر کوئی شخص ہر قسم کے تعصبات اور انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہوجاتا ہے، بلکہ ایک غیر جذباتی مشین(ربوٹ) بن جاتا ہے۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بشر تھے اور جج بننے کے باوجود بشریت سے محروم نہیں ہوتے ’’تعصب اور انسانی کمزوریاں خاموشی سے نقب لگا کر فیصلہ پرمتاثر ہوجاتی ہیں۔‘‘


جج فرینک اور دیگر دانشوار اس رد کردہ روایت کو غلط اور خود اعتمادی قرار دیتے ہیں، بلکہ اسے ایک پاکیزہ جھوٹ کہتے ہیں۔
مَیں نے نوٹ کیا کہ اس قسم کی خود اعتمادی کا اظہار محترم جج صاحب نے یہ کہہ کر کیا ’’میں جانِب دار نہیں ہوں‘‘۔(روزنامہ جہان پاکستان مورخہ 30 جولائی 2015 ایکسپریس)


ہمارے مُلک کی عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ وہ جج صاحبان جنہوں نے خود اپنے منصب سے علیحٰدگی اختیار کی انہوں نے عزت کمائی میرے سامنے کا یہ واقعہ ہے جب میں عدالت میں اپنے ایک مقدمے کی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ نعیم بخاری ایڈووکیٹ کا مقدمہ بولا گیا اور انہوں نے ابتدا میں یہ درخواست کی کہ درخواست میں درج شدہ شبہات کی وجہ ان کے موکل کو بنچ کے تین ججوں میں سے دو پر اعتماد نہیں رہا مجھے عدالت میں دیکھ کر جسٹس ناصر الملک نے دریافت کیا کہ ایسے معاملے میں میری کیا رائے ہے؟


مَیں نے کہا کہ علیحٰدگی کا فیصلہ تو عدالت کو کرنا ہو گا، لیکن اصول یہ ہے کہ اگر جج صاحب کو علیحٰدگی کی وجوہات ایسی معلوم دیں کہ درخواست دہندہ کے ذہن میں شکوک پیدا ہوں گے کہ اسے انصاف نہ مِل سکے گا، تو پھر انصاف کرنا کافی نہ ہو گا،کیونکہ سائل کو انصاف ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے گا۔میری ان گزارشات کے بعد جسٹس ناصرالملک نے فرمایا ہم پانچ منٹ کے وقفہ کے بعد واپس آکر فیصلہ سُنائیں گے۔


پانچ منٹ کا انتظار طویل ہوتا جارہا تھا جب جج صاحبان واپس تشریف لائے تو جسٹس ناصرالملک نے نعیم بخاری کو مخاطب ہوکر کہا آپ کی درخواست میں لکھی ہوئی وجوہات ہمیں معقول دکھائی نہیں دیں، لیکن انصاف کی خاطر بنچ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم دو جج صاحبان مقدمے کی سماعت نہیں کریں گے اور مقدمہ چیف جسٹس کو نئے بنچ کی تشکیل کے لئے بھیج دیں گے۔


جسٹس ناصرالملک اور ان کے ساتھی جج نے مقدمہ سے علیحٰدہ ہوکر نہ تو استغٰفی دیا اور نہ ہی اپنے گھر روانہ ہوئے،بلکہ جسٹس ناصرالملک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوکر اب اپنی اننگ پوری کر رہے ہیں ۔ لہذا جج کے کسی مقدمے سے علیحدگی کی وجہ سے نہ تو عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے اور نہ محترم جج صاحب کی عزت میں کمی آتی ہے ۔ البتہ اگر بعد میں تعصب کی بنا پر فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے تو ان جج صاحبان کا جن کے خلاف تعصب کا اظہار نہیں کیا گیا تھا اُن کا فیصلہ بھی رد کردیا جاتا تھا ۔


اِسی بنا پر پروفیسر Grant Hammond نے اپنی مشہور کتاب Judicial Recusal میں کہا ہے۔ ’’عقلمند ی کا تقاضہ ہے کہ محفوظ جانب جھکا جائے نہ کہ بعد میں علیحدہ نہ ہوکر افسوس کرنا پڑے‘‘۔


ایک اور پروفیسر صاحب نے اسی کو یوں بیان کیا ’’اگرشک ہوجائے تو اٹھ جاؤ‘‘
دو اور ممالک کی مختصر مثالیں دینی ضروری سمجھتا ہوں۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اس پاکیزہ جھوٹ کو قانون کے ذریعے رکاوٹ ڈالی اور 1976 میں ایک قانون نافذ کیا گیا کہ وہ جج کسی مقدمے کی سماعت نہیں کرے گا، جس میں سائل کوئی معقول وجہ دے کہ اُسے جج صاحب سے انصاف ملنے کی توقع نہیں ہے قانون USCA28 دفعہ 455 کے الفاظ یوں ہیں۔


''Judge of the US shall Disqualify in any proceeding in which his impartiality might Reasonably be Questioned''
برطانیہ میں مشہور ترین مقدمہ جرنیل پنوچے Pinochetکا ہے، جس میں یہ پریوی کونسل نے اپنے ہی فیصلے کو نظر ثانی کرتے ہوئے اس وجہ سے کالعدم قرار دیا کہ اُن کے ایک جج صاحب کے طرزِ عمل سے یہ شک پیدا ہوا کہ وہ غیر جانب دارنہ رہ سکیں گے۔(1999)1 ALL ER 177
لکھنے کو ابھی بہت کچھ موجود ہے، لیکن کالم مزید کی گنجائش نہیں دیتا۔البتہ چونکہ مَیں نے یہ مضمون محترم جج صاحب کے بیان کو پڑھنے کے فوراً بعد قلم برداشتہ لکھ دیا تھا اس لئے مَیں نے اپنے ایک دانشور اور ریٹائرڈ جج جو خود ایک مقدمہ سے ایک بار علیحدہ ہوچکے تھے ان کو تصحیح کے لئے دیا تو مسودہ پڑھ کر انہوں نے کہا بیشک شائع کروا دو لیکن یاد رکھو ’’مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر‘‘ مَیں نے عرض کی کہ محترم میرا عدلیہ میں 63 سال کا تجربہ اس مصرع میں تحریف کی اجازت دیتا ہے کیونکہ میں نے کئی بار یوں بھی پایا ہے ’’مرد دانا پر کلام نرم و نازک بااثر‘‘۔

مزید :

کالم -