شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 24
اس رات بھی شیروں کی نہ آواز سنائی دی اور نہ ہی گارا ہوادونوں بھینسے صحیح سالم موجود رہے ۔آٹھویں روز میں نے ان کے باندھے جانے کی جگہوں میں تبدیلی کر دی ۔ایک بھینسا پہاڑوں کے درمیان کی اس وادی میں بندھوایا ،جہاں ایک ناکے قریب تنا ور درختوں کی شاخیں کناروں پر جھکی ہوئی تھیں اور وہاں روز روشن میں بھی نیم تاریکی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی،دوسرامڑھی جانے والے راستے پر جھولا بن سے تین میل بڑھ کر عین پگڈنڈی پر باندھا۔عا م طور سے کانٹے دار جھاڑیوں اور خشک پتیوں پر چلنے سے بچتا ہے اور گاڑی کے بنے ہوئے راستوں اور پگڈنڈیوں پر چلنا پسند کرتا ہے۔
میں نے بھینسے کے بارے میں یہ احتیاط پھر بھی رکھی تھی کہ وہ پگڈنڈی سے کوئی دس بارہ قدم ہٹ کر ایک سر سبز جگہ پر باندھا جائے ،جہاں بھینسے باندھے گئے تھے ۔ان دونوں مقامات کے نزدیک ایسے تناور اور گھنے درختوں کا خیال رکھا گیا،جن پر گارا ہو جانے کی صورت مین مچان باندھی جا سکے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لیکن یہ سب انتظامات بے کار ثابت ہوئے ۔جھولابن میں قیام کو بارہ روز گزر جانے کے بعد بھی شیروں کا کوئی پتہ نہ تھا ۔اس تمام عرصے میں ان تینوں نے نہ تو کوئی مویشی مارا نہ کوئی انسانی جان ہی تلف کی۔کرایہ سے پنچگوڑہ تک کے لوگ جھولابن آئے اور سم نے یہی بتایا کہ انھوں نے بالکل خلاف معمول دس پندرہ روز سے نہ شیروں کی آواز سنی نہ کسی واردات کی اطلاع پائی ۔
دونوں نئے مقامات پر بھینسے باندھے ہوئے دو روز گزر گئے اور کوئی واردات نہیں ہوئی ۔تیسرے روز صبح میں مایوس اور افسردہ وادی کے بھینسے کو صحیح سالم دیکھنے جارہاتھا۔رام سروپ اور دلاور حسب معمول میرے ساتھ تھے اور ہمارا قدم احتیاط و ہوشیاری کے ساتھ اٹھ رہاتھا۔اچانک ایک جگہ رام سروپ نے ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔وہ بغور زمین کا جائزہ لے رہا تھا۔اور پھر بھی مجھے بھی جھک کر دیکھنے کا اشارہ کیا،لیکن میں آدم خور کے جنگل میں ایک لمحہ لاپرواہ ہونے کا نتیجہ دیکھ چکا ہوں ۔
پالم پور میں آدم خور کے شکار کے دوران مجھے پیاس لگی تو میں رائفل دوسرے آدمی کو دے کر پانی پینے لگااور اس اثنا میں زخمی شیر نے مجھ سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر چلتے ہوئے آدمی پر حملہ کیا اور جب تک میں پانی کی کپی پھینک کر رائفل سنبھالوں تب تک وہ اس آدمی کو ہلاک کر کے جھاڑی میں گھس چکا تھا۔
میں نے ا شارے سے پوچھاِ ‘‘کیا ہے؟ ‘‘
اس نے بتایا’’ تاز ہ ماگھ ۔۔۔تین شیروں کے‘‘
مجھے اس خبر سے بڑی مسرت ہوئی۔بارہ تیرہ روز بعد آخر کچھ نہ کچھ نشان توملا۔میں نے رام سروپ سے دریافت کیاکہ شیر کس طرف گئے ہیں ؟
’’مڑھی کی طرف ۔۔‘‘اس نے جواب دیا۔
’’تینو ں ساتھ ہیں ؟‘‘
’’جی ہاں ۔۔! ‘‘
’’تم آگے آجاؤ اور ماگھ دیکھتے چلو۔۔‘‘
میں نے رائفل کے گھوڑے چڑھا لیے اور دلاور کوتاکید کی کہ میری تین سو پچھتر میگیم لے کر پشت کا خیال رکھے۔دراصل یہ سب احتیاطیں پیش بندی کے طور پرتھیں ،ورنہ مجھے قومی امید تھی کہ اس روز گارا ضرور ہوا ہوگا اور اگر ان تینوں نے سارا بھینسا ہڑپ نہیں کیا ہے تو مچان پر بیٹھا جا سکے گا۔
اگرچہ مجھے اس میں بھی شُبہ ہی تھا ۔ایک شیر نصف کے قریب بھینسابیک وقت کھا جاتا ہے۔یہ تین شیر تھے ‘ لہذا وقت واحد میں تینوں کا ایک بھینسا کھا جانا بعیدار قیاس نہ تھا۔
ہم پگڈنڈی پر ہوتے ہوئے بھینسے سے کوئی میل بھر رہ گئے ہوں گے کہ چا ر بیل گاڑیوں کا ایک قافلہ جھولا بن کی طرف آتا نظر آیا۔گاڑیاں قریب آگئیں تو معلوم ہوا کہ وہی تینوں انگریز ہیں ‘جنھیں میں کرایہ چھوڑ کر آیا تھا۔۔مجھے دیکھ کر اُن کے چہروں پر ایسے تاثرات پیدا ہوئے‘جیسے میں خلاف اُمید مل گیاہوں۔
’’ہم لوگ تو سمجھتے تھے ۔۔ کہ ۔۔‘‘ ایک کہتے کہتے رُک گیا ۔
’’کہ مجھے شیر کھاگئے۔۔‘‘
میں مسکراکر بولا۔’’ہاں ! ۔۔واقعی!۔۔‘‘دوسرامتعجب ہو کر بولا۔’’نہیں ۔۔میرے دوست۔۔!‘‘میں نے جواب دیا’’تمھاری اُمید کے خلاف ایک آدم خور کو میں ٹھکانے لگا چُکا ہوں ۔۔‘‘
اُن کے تعجب کی انتہا نہیں تھی ۔۔ذرا دیر تینوں پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھتے رہے ۔
’’تعجب کی بات ہے نہ ۔۔؟‘‘میں پھر بولا ۔’’کیا یہاں سے ایک میل دُور بھینسا تُم نے بندھوایا تھا۔۔؟‘‘
’’ہاں ۔۔!‘میں نے جواب دیا۔’’اُسے شیروں نے ما دیا ۔۔!‘‘
’’ما ر دیا ۔۔!‘‘آخر گار ہوا۔تیرہ روز کی خاموشی اور صبر کے بعد آخر شیر وں کا پتہ لگ گیا۔۔میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔
’’ہم لوگ رات کو اُس پر بیٹھ چُکے ہیں ۔‘‘دُوسرابولا۔’’کیا مطلب ۔۔۔؟‘‘
’’رات ہم لوگو ں نے مرے ہُوئے بھینسے کے قریب درختوں پر بیٹھ کر شیروں کا انتظار کیا ۔۔‘‘
’’ہُوں ۔۔پھر ۔۔؟‘‘غیظ و غظب کی وجہ سے میرے تن بدن میں آگ لگ رہی تھی۔
’’شیرنہیں آئے۔۔ہم لوگ اس وقت نا اُمیدہو کر جھولابن جا رہے تھے۔میری ساری خوشی اور جوش خاک میں مل گیا۔دل چاہا کہ ان گاؤ دی انگریزوں کو گولی سے اُڑادُوں ۔۔اُن کی یہ حرکت کس قدر مذہوم تھی۔دُوسرے کے گارے پر بیٹھ کر شکار کھیلنا کہاں کی شرافت ہے۔غالبااُن کے مجھ سے ملنے پر تعجب کی یہی وجہ ہوگی۔
گزشتہ سہ پہر تین بجے میرے آدمیوں نے چارے پانی سے بھینسے کو فارغ کر کے باندھا دیا تھا اور واپس گاؤں آگئے تھے ۔اُن کی واپسی کے فوراًا بعد گارا ہُوا ہوگا۔کیونکہ پانچ بجے تینوں انگریز وہاں پہنچے تو شیر نصف سے زیادہ کھلگا ہڑپ کر کے ہٹ گئے تھے ۔غالبا اُن کی گاڑیوں کی آواز اور شور سے ہٹے ہوں گے۔اور اُن کو درختوں پر چڑھتے دیکھ کر دوبارہ گا ر ے پر واپس نہیں آئے۔
مجھے زیادہ افسوس اس بات کاتھا کہ کھلگا گیا اور شکار کا نادر موقع بھی جاتا رہا۔
دُوسرے روز اُن تینوں کے اصرار کے باوجود میں کراریہ واپس ہو گیا اور دوپہر کے بعد وہاں پہنچتے ہی جیپ نکا ل کر سیدھا بھوپال چل دیا۔۔اس طرح ان آدم خور وں کو ہلاک کر نے کی پہلی کوشش ناکام ہوگئی۔(جاری ہے )