پنجاب کا گاؤں جہاں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر 50 سال سے پابندی ہے
تلہ گنگ (ڈیلی پاکستان آن لائن )صوبہ پنجاب کے ضلع تلہ کنگ کے ایک گاوں کی رہائشی نعیم کوثر نے بتایا کہ وہ آٹھ فروری کے انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں خاندان کے مردوں کی جانب سے اس کی اجازت نہیں ۔اردو انڈیپنڈنٹ نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے بتایا کہ ڈھرنال نامی اس گاوں کی تمام خواتین کی طرح 60 سالہ سابق ہیڈ مسٹریس نعیم کوثر اور ان کی سات بیٹیاں جن میں سے چھ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں کو بھی ان کے گھر کے مردوں نے ووٹ ڈالنے سے منع کر رکھا ہے،اپنے گھر کے صحن میں چادر سے چہرہ ڈھانپ کر بیٹھی ہوئی نعیم کوثر نے بتایاکہ عورت اپنے شوہر، باپ، بیٹے یا بھائی کی طرف سے مجبور ہوتی ہے، وہ اکیلی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی،نعیم کوثر بیوہ ہیں، انہوں نے کہاکہ ان مردوں میں خواتین کو ان کے حقوق دینے کی ہمت نہیں ہے،
اگرچہ پاکستان میں ووٹ ڈالنا تمام بالغوں کا آئینی حق ہے لیکن پاکستان کے کچھ دیہی علاقوں میں اب بھی پدرشاہی نظام کی حکمرانی ہے، جہاں کے مرد برادریوں میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، کئی ہزار کی آبادی والے گاوں ڈھرنال میں مرد اس پابندی کی بے شمار وجوہات بیان کرتے ہیں، جنہیں 50 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔
گاوں کی کونسل کے ایک رکن ملک محمد نے بتایاکہ کئی برس قبل کونسل کے ایک چیئرمین نے حکم دیا تھا کہ اگر مرد ووٹ ڈالنے کے لئے باہر جاتے ہیں اور خواتین بھی جاتی ہیں تو گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں کون سنبھالے گا؟‘صرف ایک ووٹ کے لئے (کام کاج میں) اس رکاوٹ کو غیر ضروری سمجھا گیا،ایک دکاندار محمد اسلم کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد خواتین کو سیاست کے بارے میںمقامی کشیدگی سے بچانا ہے، جس میں کافی عرصہ قبل ایک دفعہ ایک پولنگ سٹیشن پر بحث ہو گئی تھی، جس کے بارے میں گاوں کے بہت کم لوگ جانتے ہیں جبکہ دیگر افراد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایسا صرف روایت کی وجہ سے ہے،الیکشن کمیشن نے زور دے کر کہا ہے کہ اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی حلقے میں، جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا، الیکشن کے عمل کو کالعدم قرار دے سکتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ شہروں سے باہر اور قبائلی نظام والے علاقوں میں اس پر عمل درآمد کم ہوتا ہے اور لاکھوں خواتین کا ووٹ اب بھی شمار نہیں ہوتا،ڈھرنال کے بزرگ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کوٹہ پورا کرنے کے لئے ساتھ والے گاوں پر انحصار کرتے ہیں،حکومتی کوٹے کے مطابق ہر حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کا 10 فیصد حصہ خواتین کا ہونا چاہئے،جن خواتین کو ووٹ دینے کی اجازت دی جاتی ہے ان پر اکثر مرد رشتے داروں کی پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے دباو ڈالا جاتا ہے،خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقے کوہستان میں جہاں تقریباً آٹھ لاکھ افراد آباد ہیں، علما نے پچھلے ماہ خواتین کے انتخابی مہم میں حصہ لینے کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا،قانون کی ماہر اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی فاطمہ زارا بٹ کہتی ہیں کہ اسلام میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے لیکن پاکستان میں اکثر اسے غلط سمجھا جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کل انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے لئے صرف 355 خواتین حصہ لے رہی ہیں جبکہ مردوں کی تعداد 6094 ہے، قومی اسمبلی کی 342 نشستوں میں سے 60 خواتین اور 10 مذہبی اقلیتوں کے لئے مخصوص ہیں لیکن سیاسی جماعتیں شاذ و نادر ہی خواتین کو اس کوٹے سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے کی اجازت دیتی ہیں،جو خواتین الیکشن لڑتی ہیں وہ اکثر صرف مرد رشتے داروں کی پشت پناہی سے ایسا کرتی ہیں، جو پہلے سے ہی مقامی سیاست میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں،زارا بٹ نے مزید کہاکہ میں نے کبھی کسی آزاد خاتون امیدوار کو اکیلے الیکشن لڑتے نہیں دیکھا،ہیلتھ ورکر 40 سالہ روبینہ کوثر کا کہنا ہے کہ ڈھرنال میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو کمیونٹی کی جانب سے ردعمل سامنے آئے گا، بالخصوص طلاق ملنے کا خطرہ ہوگا،انہوں نے اے ایف پی کو بتایاکہ یہ مرد اپنی خواتین میں خوف پیدا کرتے ہیں اور بہت سے اپنی بیویوں کو دھمکی دیتے ہیں،روبینہ جنہیں ان کے شوہر کی حمایت حاصل ہے، ان چند خواتین میں سے ایک ہیں، جو یہ خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہیں،2018 کے انتخابات میں روبینہ نے خواتین کو مقامی پولنگ سٹیشن تک لے جانے کے لئے ایک منی بس کا انتظام کیا تھا،صرف چند خواتین ہی ان کے ساتھ گئی تھیں لیکن انہوں نے پھر بھی اسے کامیابی قرار دیا اور آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں بھی وہ ایسا ہی کریں گی،روبینہ کا کہنا تھاکہ میرے ساتھ بدسلوکی کی گئی لیکن مجھے اس کی پروا نہیں، میں ہر کسی کے ووٹ کے حق کے لئے لڑتی رہوں گی۔