پیپلزپارٹی کا اضطراب کیوں؟
پیپلزپارٹی ہر چار چھ دن بعد حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دیتی ہے۔ اب تو یہ دھمکی اتنی بار دی جا چکی ہے کہ لطیفہ ہی لگتی ہے۔ ایک عام آدمی کو بھی پتہ ہے اس وقت پیپلزپارٹی کے لئے صبر کے سوا کوئی آپشن نہیں یہ سیٹ اپ ہے تو آصف علی زرداری کی صدارت بھی ہے اور سندھ کی حکومت بھی۔ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزارتِ اعلیٰ بھی ہے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی گورنری بھی۔ کچھ آگے چلیں تو سینیٹ کے چیئرمین کا عہدہ بھی انعام میں ملا ہوا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی آئے روز تلملا رہی ہے کہ فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ کون سے فیصلے، اس کی وضاحت نہیں کی جاتی۔ ایک طرف حکمتِ عملی یہ ہے حکومتی سیٹ اپ کا حصہ نہ بنیں تاکہ حکومتی ناکامیوں یا مستقبل قریب میں اس کے خاتمے پر یہ ڈھول بجایا جائے دیکھا ہم تو ساتھ نہیں تھے، ناکامیوں کا ملبہ ہم پر نہ ڈالا جائے۔ اس وقت عمران خان کا ہوا اتنا بڑا ہے، اس کی موجودگی میں یہ رسک لیا ہی نہیں جا سکتا کہ موجودہ سیٹ اپ کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ سیٹ اپ ڈیزائن کرنے والوں نے بھی سب کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔ کوئی اپنی جگہ سے ہل کر تو دیکھے سب کچھ زمین بوس ہو جائے۔پیپلزپارٹی کی حالت اس عبداللہ جیسی ہے جو بیگانی شادی میں دیوانہ وار ناچ رہا تھا۔ جب 8فروری کے بعد معجزاتی طور پر فارم 45سے 47کے فارمولے سے حکومتیں تشکیل پائیں تو اس وقت سب کو یہی فکر تھی کسی طرح یہ نظام چل جائے۔ پیپلزپارٹی بھی ان میں شامل تھی اور سارا کچھ اس کے سامنے ہو رہا تھا۔ چونکہ اس وقت بے یقینی بہت زیادہ تھی اس لئے جسے جو ملا اس نے صبر شکر کرکے اسے قبول کرلیا، خود پیپلزپارٹی کا فیصلہ تھا کہ وزارتیں نہیں لیں گے البتہ گورنریاں اور صدارت و چیئرمین سینیٹ کے مناصب پر نظر تھی، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) سب کچھ پیپلزپارٹی پر وارے۔ لے دے کے وزارتِ عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ پنجاب ہی تو مسلم لیگ (ن)کے پاس ہے۔ اس پر بھی پیپلزپارٹی کی نظر ہے اور حصہ مانگ رہی ہے۔ پنجاب کے گورنر تو بار بار کہہ رہے ہیں مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس دوران مسلم لیگ (ن) کو کتنا نقصان پہنچا ہے اور کتنی بڑی سیاسی قربانی دے کر اس نے اس سیٹ اپ کو قبول کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو معلوم ہے وہ صرف بڑھک مارنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ ممکن ہی نہیں وہ موجودہ حکومت کی حمایت چھوڑ دے۔اس وقت دو جماعتیں ایسی ہیں،جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر چل رہی ہیں ایک متحدہ قومی موومنٹ اور دوسری پیپلزپارٹی۔ متحدہ کے بارے میں تو سب کو معلوم تھا وہ نادیدہ اشاروں پر چلتی ہے، مگر اس بار پیپلزپارٹی نے بھی یہ کردار اپنا لیا ہے۔ ایسے میں بار بار حکومت سے نکلنے کی دھمکی دینا ساکھ بچانے کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے۔ عقل حیران ہے کہ صدر آصف علی زرداری آئے روز وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کرتے ہیں مگر ان سے یہ نہیں کہتے پیپلزپارٹی کو فیصلوں پر اعتماد میں لیا جائے۔ یہ کام بلاول بھٹو زرداری یا پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو ہی کرنا پڑتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے بات زیادہ سنجیدہ نہیں۔
پیپلزپارٹی کے ایک سینئر رہنما سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا آخر پارٹی چاہتی کیا ہے۔ انہوں نے کہا پیپلزپارٹی کا ہمیشہ سے پنجاب دکھ رہا ہے۔ وہ سندھ سے نکل کر پنجاب میں قدم جمانا چاہتی ہے۔ جب مسلم لیگ (ن) پنجاب میں کمزور ہوئی اور تحریک انصاف کی طرف ووٹ بینک گیا تو پیپلزپارٹی نے سوچا موقع اچھا ہے کوئی ایسا راستہ ڈھونڈا جائے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو ماضی بعید والی مقبولیت مل جائے۔ پھر جب تحریک انصاف پنجاب میں بری طرح زیر عتاب آئی تو پیپلزپارٹی کا خیال تھا پنجاب میں اختیارات لے کر عوام کے کام کرائے جائیں اور اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھایا جائے، لیکن مسلم لیگ (ن) نے کون سی کچی گولیاں کھیلی ہوئی ہیں، اس موقع پر کہ جب پنجاب میں اس کی حکومت ہے اپنے اختیارات پیپلزپارٹی کو دے کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی حماقت وہ کیسے کر سکتی ہے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں ملتان ڈویژن کے لئے گیلانی خاندان نے اختیارات مانگے، افسروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ پیپلزپارٹی کو دینے کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نہیں مانیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ افسروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ خالصتاً میرٹ کی بنیادپر کی جا رہی ہے۔ گیلانی خاندان اس پر خاصا جذبز ہوا لیکن بات آگے نہیں بڑھی۔ گورنر پنجاب کے ذریعے کچھ کام کرانے کی کوشش کی گئی مگر پنجاب حکومت کی مضبوط گرفت کے باعث ایسا بھی نہیں ہو سکا۔ گویا پیپلزپارٹی پنجاب میں بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیا جاتا، یہ صرف ایک کہانی ہے، اصل واقعہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی اور عہدیدار پنجاب میں اپوزیشن کے ارکان کی طرح نظر انداز کئے جا رہے ہیں۔ ان کی انتظامیہ سنتی ہے اور نہ لوگوں کے کام ان کی وساطت سے ہو رہے ہیں۔
ایسے میں پیپلزپارٹی دھمکی دینے والا کام بھی نہ کرے تو پھر کیا کرے۔ وزیراعظم شہبازشریف ایسی ہر دھمکی کے بعد بلاول بھٹو زرداری کو ملاقات کے لئے بلا لیتے ہیں مگر مسئلہ وفاقی حکومت کا تو ہے ہی نہیں۔ سارا مسئلہ پنجاب میں اختیارات کی شراکت کا ہے، جہاں وزیراعلیٰ مریم نواز کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، جنہوں نے اس سارے سیٹ اپ کی تقسیم کی ہے، ان کی مرضی و منشاء بھی یہی لگتی ہے کہ سب اپنے اپنے دائرے میں موجود رہیں، پیپلزپارٹی وقت کے ساتھ ساتھ محسوس کررہی ہے کہ اس نے فائدہ نہیں سیاسی نقصان کیا ہے، خاص طور پر پنجاب میں عملداری کا جو خواب تھا وہ چکنا چور ہو رہا ہے۔ پیپلزپارٹی اگر حکومت میں شامل بھی ہو جائے تو اسے دوچار وزارتیں مل جائیں گی پنجاب پر حکومتی اختیار تو پھر بھی اسے نہیں ملے گا۔ خود مسلم لیگ (ن) کے لئے بھی یہ بات اہم ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی مقبولیت کو از سرِ نو زندہ کرے۔ اس لئے مریم نواز بھرپور اقدامات و اختیارات کے تحت کام کررہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اس اہم موقع پر جو فیصلے کئے اب ان کے اثرات و نتائج سے پریشان ہو رہی ہے۔ اسے یوں لگ رہا ہے جیسے اسے سندھ تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ سندھ کی جماعت بن گئی ہے اور باقی جگہوں پر اس کی نمائندگی بہت کم ہے۔پنجاب اس کی دسترس میں آسانی سے نہیں آئے گا کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔