الیکشن کمیشن کا ضابط اخلاق

الیکشن کمیشن کا ضابط اخلاق
الیکشن کمیشن کا ضابط اخلاق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان الیکشن کمیشن نے آئندہ قومی اور صوبائی انتخابات کے لئے ترمیم شدہ نیا ضابطہ اخلاق جاری کر دیا،جس کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ہونے والے دو قومی وصوبائی اسمبلی کے انتخابی اخراجات کی مد علی الترتیب پچاس لاکھ اور تیس سے کم کر کے پندرہ لاکھ اور دس لاکھ روپے مقرر کر دی ہے ،جس کی خلاف ورزی کرنے والے متعلقہ امیدوار کو تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ہر امیدوار برائے قومی وصوبائی اسمبلی اپنا خصوصی بنک اکاﺅنٹ کھلوانے کا پابند ہو گا،جس کی تاریخ 29-06-2012مقرر کی گئی تھی۔متعلقہ امیدوار نہ صرف ریٹرننگ آفیسر کو ہفتہ وار اخراجات کی تفصیلات بتائے گا،بلکہ ووٹر کی ووٹ کی پرچی دینے ،ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے ،اور وال چاکنگ کی بھی پابندی ہو گی۔ پوسٹر ز ، بینرز اور ہورڈنگز کے سائز کی خاص حد مقرر کر دی گئی ہے۔ لاﺅڈ سپیکر کا استعمال صرف اور صرف انتخابی جلسے میں کیا جا سکے گا، تا ہم الیکشن کمیشن نے اپنے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کروانے کے لئے کسی ٹھوس اور جامع مانیٹرنگ سسٹم پر روشنی نہیں ڈالی ، تاہم آنے والے قومی انتخابات کے لئے الیکشن کمشنر کی تقرری ہنوز سوالیہ نشان ہے؟
سلگتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق پارلیمانی جمہوری اصولوں سے انحراف کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک میں 98 فیصد لوگ غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سے پچاس فیصد لوگ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ ملک کی آبادی اور معاشی حالت زارمیںعام آدمی پندرہ لاکھ اور دس لاکھ کے انتخابی اخراجات پورے کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی میں شائد ہی کوئی رکن پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی ایسا ہو، جس کا بیٹا یا بیٹی گورنمنٹ سکول ، کالج یا یو نیورسٹی میں پڑھتا ہو۔ الیکشن کمیشن کے انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت عام آدمی پر انتخابی عمل میں حصہ لینے کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں۔ہمارے قومی ادارے ”سٹیٹس کو“ کے غلام بن چکے ہیں یا جان بوجھ کر اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ گو کہ الیکشن کمیشن نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے جرنیلی دور حکومت کے انتخابی اخراجات میں نمایاں کمی کی ہے، لیکن پھر بھی غریب و متوسط اور استحصال زدہ غالب اکثریتی طبقات کی انتخابی عمل میں حصہ لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو عام آدمی کے لئے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے.... اور پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کو عوام کی حقیقی نمائندگی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں پیسے کی سیاست کا دور دورہ ہے۔ مال دار لوگ پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لئے لاکھوں روپے پارٹی فنڈ میں جمع کرواتے ہیں.... اور انتخابی عمل میں بے تحاشہ اور بے دریغ پیسے کا استعمال کرتے ہیں، جس میں پارٹی ورکر ز کے اخراجات ، انتخابی دفتروں میں کھانے پینے، غریب و استحصال زدہ طبقات کو نقد رقوم ، ٹرانسپورٹ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تشہیری اخراجات، بینرز کی بھر مار اور آزاد امید واروں کو اپنے حق میں بٹھانے سمیت دیگر کئی اخراجات شامل ہوتے ہیں۔ قومی اور صوبا ئی اسمبلیاں سرمایہ کاری کی انڈسٹرٹریاں بن چکی ہیں۔جب امیدوار انتخابات جیت کر رکن اسمبلی بنتا ہے تو وہ اپنی سرمایہ کاری کو دوگنا وصول کرتا ہے ۔اس عمل میں عوامی مسائل حل کرنے کا عمل ذاتی مفادات کی نذر ہو جاتا ہے۔ مَیں یہاں تمام تر اختلافات کے باوجود ایم کیو ایم کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ ان کے امیدوارں میں سے اکثر کا تعلق غریب و متوسط طبقے سے ہوتا ہے اور انتخابی اخراجات کی تمام تر ذمہ داری ایم کیو ایم خود اٹھاتی ہے....اور مناسب اخراجات میں انتخابی عمل پورا کرتی ہے۔
قومی اداروں کی طرف سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر عمل مہذب معاشرے کیا کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں ہر ادارتی نظام کے اندر افراد کا بنایا ہوا ذاتی نظام موجود ہوتا ہے ۔جب ایک نظام کے اندر کوئی دوسرا نظام چل رہا ہو تو اصل نظام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے تحت اگر کوئی امیدوار کاغذوں کا پیٹ بھر بھی دیتا ہے تو اپنے حق میں پارٹی عہدیداران ،کارکنان ، ووٹرز اور سپورٹرز کے نام سے کروڑوں روپے انتخابی عمل میں جھونک دے گا،جس کا حساب کتا ب کرنا نا ممکن ہے،کیونکہ انتخابی عمل میں پارٹی عہدیداران ، کارکنان ، ووٹرز اور سپورٹرز کی طرف امیدوار کی حمایت میں پوسٹرز ، بینرز ودیگر اخراجات کا کوئی ضابطہ اخلاق الیکشن کمیشن کے پاس موجود نہیں ۔ہر نظام کے اندر چور راستے تلاش کر نے والوں سے بذریعہ پارلیمنٹ عوامی مسائل کے حل کی کوئی امید رکھنا خام خیالی تصور کیا جا سکتا ہے۔ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن کی آزاد اور خود مختار حیثیت ہمیشہ مشکوک و متنازعہ رہی ہے،تاہم ملک کے قومی اداروں کی آزادی اور خود مختاری کا راز جمہوریت کے تسلسل میں پوشیدہ ہے۔ جمہوریت کا تسلسل بذات خود ایک استاد ہے ،جو عوام کو شعور اور آگہی کا سبق سکھاتا ہے۔ہر پاکستانی کی طرح میری بھی یہ خواہش ہے کہ قومی ادارے آزاد اور خود مختار ہوں۔  ٭

 

مزید :

کالم -