خود را فضیحت؟
ملکی حالات ایسے ہو چکے کہ کسی طور پر آرام و استحکام نہیں، کسی معاملے میں کوئی مثبت عمل نظر آتا ہے تو ساتھ ہی کسی نئے تنازعہ کی خبر مل جاتی ہے، وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے گول میز کانفرنس کا اعلان کیا اور کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا جائے گا تاکہ سب کی سن کر ان کے تحفظات کے حوالے سے وضاحت کی جائے،ان کے مطابق یہ آپریشن ملکی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ سرحد پار سے مسلسل دہشت گرد آ رہے اور ان کے سہولت کار ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں،ملک کی ترقی اور معاشی بہتری کے لئے لازم ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کیا جائے، اِس حوالے سے یہ خدشہ موجود تھا کہ تحریک انصاف شمولیت سے انکار کر دے گی، خلافِ توقع تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی طرف سے ہاں کر دی گئی اور ایک بڑی مثبت بات بھی کی گئی کہ حکومت کی بات سننی چاہئے،اپنی طرف سے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے افغانستان حکومت کا کردار اہم ہے کہ طالبان حکومت کے تعاون کے بغیر کامیابی ممکن نہیں کہ یہاں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی ہوئی تو وہ بھاگ کر افغانستان چلے جائیں گے (چلیں اس طرح خان نے یہ تو مانا کہ یہاں ٹی ٹی پی والے ہیں) ۔عمران خان نے جو کہا اس سے تو حکومت بھی متفق ہے اور وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لئے افغان حکومت سے تعاون کی اپیل کرتی رہی ہے،اور وفود بھی گئے تھے،اب اس آپریشن کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ملک کے اندر دہشت گردی مسلسل جاری اور دہشت گرد اپنے حملوں میں سرکاری املاک کو تباہ اور اہلکاروں پر حملے کرتے چلے جا رہے ہیں،اس دہشت گردی کی وجہ سے ملک میں متوقع سرمایہ کاری کو خدشات ہیں اور امن و امان کی حالت بھی متاثر ہوتی ہے۔
اس حوالے سے کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ اور اعلان ایک اچھی پیشرفت ہے کہ بار بار مطالبہ کیا گیا تھا کہ امن و امان بحال کیا جائے جو تجارتی اور صنعتی ترقی کے لئے لازم ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کانفرنس معترض حضرات کے تحفظات دور کرنے کا ذریعہ ثابت ہو اور اس مسئلے پر قومی اتفاقِ رائے طے پا جائے تاہم ایک طرف عمران خان کی طرف سے ”ہاں“ کا خیر مقدم کیا گیا اسے عوام کی بہبود کا عمل قرار دیا گیا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی جب ترنول جلسے کی اجازت منسوخ کی گئی تو تحریک انصاف کی طرف سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا، نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے،اس میں موقف ہے کہ عدالت کی ہدایت پر جلسے کی اجازت دی گئی اور پھر عین وقت پر دوبارہ منسوخ کر دی گئی،میرے خیال میں اگرچہ انتظامیہ کی اپنی ”مجبوریاں“ ہوں گی تاہم جلسہ ہونے دیا جاتا تو بہتر تھا،اس سلسلے میں کے پی کی حکومت اور تحریک انصاف کے رویے پر بھی غور لازم ہے کہ وزیراعلیٰ امین گنڈا پور نے مانسہرہ کے جلسہ میں دھمکی آمیز اور سخت تقریر کی،جبکہ اسلام آباد کے جلسے میں شرکت کے لئے قافلے روانہ کرنے کا اعلان کیا اور تیاری کے لئے ہدایت کی اور یوں بہتر ماحول بننے کی توقع عبث ثابت ہو گئی۔ بہرحال تاحال کانفرنس میں شرکت کی ہدایت موجود ہے جس کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی اور وزیراعظم نے کہا ہے کہ باہمی اور جماعتوں سے مشاورت کے بعد تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔اب بھی یہی آس ہے کہ چلو کسی بہانے سہی یہ سب سیاسی لوگ ایک جگہ جمع تو ہوں گے اور ایسا ہوا تو کوئی بہتری بھی ہو سکے گی،اس لئے ماحول کو ایسا رکھنا بھی ضروری ہے کہ تحریک انصاف اس فیصلے کو بدل نہ سکے۔توقع یہی ہے کہ تحریک انصاف نے ترنول جلسے کے حوالے سے توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے اور جلسہ ہر حالت میں منعقد کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود اب جلسہ منسوخ کر دیا ہے۔یہ بھی بہتر اقدام ہے کہ اس طرح تصادم سے بچا جا سکے گا،اگرچہ انتظامیہ جلسہ ہونے دیتی تو بارش نے اسے جمنے کا موقع نہیں دینا تھا ماسوا کے پی کے قافلوں کی آمد کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے،کہ ایک بار پہلے بھی ایسا ہو چکا کہ کے پی والوں سے تصادم ہوا، جب وزیراعلیٰ پرویز خٹک تھے۔
عرض کیا کہ لکھنے والے کے لئے بدلتے حالات مشکل پیدا کرتے ہیں،ارادہ کیا تھا کہ عمران خان کی طرف سے بھوک ہڑتال کی دھمکی اور پنجاب کی وزیر اطلاعات کی طرف اپوزیشن کو پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر احتجاج کے حوالے سے مطعون کرنے کی کوشش کا ذکر کروں گا،لیکن درمیان میں ترنول آ گیا۔
عمران خان کی یہ دھمکی کہ وہ بھوک ہڑتال کرنے پر مشاورت کر رہے ہیں،اِس حوالے سے تھی کہ انہوں نے جماعتی اختلافات کے سلسلے میں جماعت کے دو فریقوں کو موقف سن کر فیصلہ کرنے کے لئے بتایا تھا، جب یہ مدعوئین جیل پہنچے تو ملاقات نہ کرنے دی گئی، جس پر یہ احتجاج ہوا، میرے خیال میں یہ مناسب رویہ نہیں کہ ماضی میں دور دور تک ایسی مثال نہیں ملتی کہ جیل میں مقید سزا یافتہ لیڈر جیل ہی میں سیاسی اجتماع کا انعقاد کریں،یہاں تو قید تنہائی کی مثالیں موجود ہیں، جبکہ کپتان کو تو آرام دہ جگہ میسر اور ورزش کا بھی انتظام ہے،جبکہ ملاقاتیں بھی تواتر سے ہوتی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ حالیہ صدر آصف علی زرداری اور دوسرے جن رہنماؤں کی مدد اور سہولتوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان کو ضروری قواعد کے تحت ملنے والی سہولتوں کے علاوہ مزید رعایت نہیں دی جاتی تھی۔آصف علی زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے14سال جیل میں گزارے،معترض حضرات ان کی سہولتوں کا ذکر کرتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ میں نے رپورٹر کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو کو کوٹ لکھپت سنٹرل جیل میں ملاقات کے لئے آتے دیکھا،ان کی گاڑی کو جیل پھاٹک اور حدود سے باہر روک لیا جاتا تھا وہ آصفہ کو گود میں اُٹھائے دوسرے دونوں بچوں کو انگلی سے لگائے پیدل آتی جاتی تھیں۔البتہ یہ ضرور ہے کہ ہفتے میں ایک بار ان سے ملاقات ہوتی تو بعض پارٹی رہنما اور دانشور بھی مل لیتے،لیکن سیاسی میٹنگ نہیں ہوتی تھی۔مجھے وفاقی وزیر اور ایم این اے چودھری احمد مختار(مرحوم) نے یہ بتایا تھا کہ کراچی جیل میں ان کا وقت آصف علی زرداری کی وجہ سے بہتر گذرا کہ زرداری صاحب کی کتابوں سے مستفید ہوتے رہے۔آصف علی زرداری جیل میں مقید دنیا میں چھپنے والی ہر وہ کتاب منگوا لیتے جو ان کی دلچسپی کا باعث ہوتی اور ان کا کمرہ لائبریری کی شکل اختیار کئے ہوتا،چنانچہ زرداری صاحب کی طرح چودھری احمد مختار نے بھی کتابوں سے دِل بہلایا، یہاں تو کپتان کو کتابوں اور ٹی وی کی سہولت کے علاوہ ورزش کی مشین، کولر اور بڑی جگہ بھی میسر ہے جبکہ ان کی ملاقاتوں کا دائرہ دوسرے سیاست دانوں کی نسبت زیادہ وسیع ہے،اس کے باوجود وہ شکایت کرتے اور بھوک ہڑتال کی دھمکی دے رہے ہیں۔
جہاں تک عظمیٰ بخاری کی بات کا تعلق ہے تو اتنا یاد دلاؤں گا کہ یہ سیڑھیاں خود مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے ایسے مظاہرے دیکھتی رہی ہیں اب اگر تحریک انصاف بھی ایسا کرتی ہے تو پریشانی کیوں؟