چوتھی بار وزیر اعظم بنے بغیر

عمران خان اس لئے ابھی تک مقبول ہیں کہ ان کے سامنے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر نواز شریف کی بجائے شہباز شریف متمکن ہیں جو پورے پاکستان میں سیاسی طور پر اتنے ہی مقبول ہیں جتنے بلاول بھٹو پنجاب میں ہیں۔ اگر عمران خان کے سامنے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر نواز شریف ہوتے تو اب تک عمران خان کی مقبولیت کا غبارہ پھٹ چکا ہوتا کیونکہ پھر مقابلہ دو بدو ہونا تھا۔ خالی پی ٹی آئی کا ہی نہیں، نون لیگ کا سوشل میڈیا بھی متحرک ہونا تھا اور ریاست کی طاقت کے بل بوتے پر نواز شریف نے عمران خان کو ناکوں چنے چبوادینے تھے۔
عمران خان اس لئے بھی ابھی تک مقبول ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بعض ایک گروپ پوری آزادی کے ساتھ سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اندرون ملک مقیم پی ٹی آئی کے حامیوں کا خون گرمائے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے انہیں یکسر فراموش نہیں کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان تنہا ہو گئے ہیں، اب ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ہے نہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں ہیں، حتیٰ کہ خود ان کی پارٹی کی اکثریت بھی ان سے مخلص نہیں ہے اور جس طرح میر مرتضیٰ بھٹوکے گرد ایجنسیوں کے لوگ جمع تھے، اسی طرح ان کے گرد بھی ایسے ہی لوگوں کا جمگٹھا ہے جو بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں۔ اگر عوام میں ان کے لئے ہمدردی پائی جاتی ہے تو ایسی خطرناک نہیں ہے کہ اس سے کسی کو کوئی خوف لاحق ہو۔ اس کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عمران خان عوام میں جانے پہچانے چہرے کے طور پر موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان پر کالم لکھے جا رہے ہیں، ٹی وی پروگرام ہو رہے ہیں اور وی لاگز بزنس کر رہے ہیں۔ اب ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص بغیر پاپولیریٹی کے عوام اور میڈیا پلیٹ فارمز میں زیر بحث ہو۔ اس لئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عمران خا ن کی قبولیت ہو نہ ہو، مقبولیت ضرور ہے۔ ایک بے طرح کے انکار کو ان سے منسوب کرکے کئی ایک یار لوگ اپنا چورن بیچ رہے ہیں اور لوگ بلاول بھٹو کی بجائے عمران خان کو ہی ڈسکس کئے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ نواز شریف کا مقابلہ کر سکیں، پنجاب میں اگر کوئی ان کے ہم پلہ نظر آتا ہے تو عوام کی نظر عمران خان پر ہی جا ٹھہرتی ہے اور 2024ء کے انتخابات بھی اس بات کی چغلی کھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم اس بات کا فیصلہ مشکل ہے کہ آیا جواب میں عمران خان کی نظر عوام پر ہے یا فوج پر ہے جسے وہ بار بار باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس وقت ملک میں ان کے سوا کوئی نواز شریف کی مقبولیت کو چیلنج کرنے کا دم خم نہیں رکھتا ہے۔
دوسری جانب نواز شریف بھی فوج کے ساتھ بگاڑنے کے موڈ میں نہیں،بلکہ اس کے برعکس انہوں نے مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر عدلیہ اور میڈیا میں اپنے مخالف عناصر کو تہہ و تیغ کردیا ہے۔ کئی ایک جج صاحبان مستعفی ہو چکے اور کئی ایک کو کھڈے لائن لگادیا گیا ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر میڈیا میں بھی دیکھنے میں آیا ہے جہاں کئی ایک نامی گرامی پہلوان آف ایئر کردیئے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی کسی کا بھی دھیان نواز شریف کی طرف نہیں گیا ہے کہ اس سب کے پیچھے ان کی خواہش کارفرما ہوسکتی ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ نواز شریف اونٹ ایسا کینہ رکھتے ہیں اور حساب کتاب برابر کئے بغیر نہیں رہتے مگر اس مرتبہ انہوں نے حساب چکانے کا دلچسپ طریقہ نکالا ہے ان کے مخالفین ایک ایک کر کے ہتھیار پھینک گئے ہیں اور کسی کو بھی موقع نہیں ملا کہ وہ نواز شریف پر انتقام کا الزام دھر سکے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے حلقے اس بات کو اپنی جیت سے تعبیر کرتے ہیں کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم نہیں بن سکے، ان کے حواریوں کے لئے اس ایک بات میں تسکین کا بہت سا سامان موجود ہے۔ ممکن ہے کہ انتخابات کے فوری بعد نواز شریف اس لئے وزیرا عظم نہ بنے ہوں کہ ان پر جنرل فیض حمید اور پی ٹی آئی کے پالیسی سازوں کا دباؤ ہو۔ جس طرح سے عدلیہ اور میڈیا کے بڑے بڑے جغادری حالیہ چند مہینوں میں ایکسپوز ہوئے ہیں، اس کو دیکھ کر اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں ایک ایسا جال تیار تھا جس کو کاٹنا پوری نون لیگ کے بس میں نہ ہو تا۔ لیکن اب جب کہ عدلیہ اور میڈیا سے نون لیگ مخالف عناصر کو ایک ایک کر کے بے دخل کردیا گیا ہے، کسی ایک نے بھی اسے شہباز شریف کے انتقام سے تعبیر نہیں کیا کیونکہ شہباز شریف انتقام پر یقین ہی نہیں رکھتے مگر مخالفین کو اس لئے کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا کہ نواز شریف نے اس دوران پوری طرح چپ سادھے رکھی ہے اور سانپ بھی ماردیا ہے جبکہ لاٹھی بھی نہیں ٹوٹنے دی، اب اگر وہ کل کو عملی سیاست میں متحرک ہوتے ہیں تو تب تک عمران خان کو جن بیساکھیوں کا سہارا حاصل تھا، وہ ٹوٹ چکی ہوں گی۔ یوں نواز شریف نے چوتھی بار وزیر اعظم نہ بننے کے باوجود ایک بہت بڑے سیاسی ہدف کو حاصل کیا ہے کہ اپنے مخالفین کو چن چن کر مارا ہے اور کسی کو شک بھی نہیں ہونے دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کب چپ کا روزہ کھولتے ہیں!