چناب فارمولے کے تحت تقسیمِ کشمیر کی تجویز؟
آزاد کشمیر کے سینئر ترین سیاست دان اور سابق صدر سردار سکندر حیات خاں نے کہا ہے کہ چناب فارمولے کے تحت تقسیمِ کشمیر،تنازع کشمیر کا بہترین قابلِ قبول حل ہے، حکومتِ پاکستان کشمیر کی حریت قیادت کو مدعو کر کے انٹرا کشمیری ڈائیلاگ کے ذریعے مسئلے کا حتمی تعین کرے۔ وزیراعظم نواز شریف کے جنرل اسمبلی میں خطاب سے کشمیر کاز کو تقویت ملی ہے۔ نریندر مودی کی روایتی ہٹ دھرمی کے بعد ہمیں مصنوعی لکیروں کی بات نہیں کرنی چاہئے، ہم تجارت کے مخالف نہیں، مگر یہ کشمیر کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئے۔ جنرل راحیل شریف کا موقف انتہائی ٹھوس، جاندار اور مضبوط ہے، جو کشمیری اور پاکستانی قوم کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ ان حالات میں حکومتِ پاکستان کو کمزوری دکھانے کی بجائے عالمی سطح پر موثر اور جارحانہ سفارت کاری کے ساتھ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو بزرگ سیاست دان نوابزادہ نصر اللہ خان کی طرز پر موثر اور فعال بنانا اور اس کے لئے کل وقتی اور کشمیر کاز سے کمیٹڈ چیئرمین کا تقرر ہونا چاہئے۔کشمیری قیادت کی شمولیت کے بغیر مسئلہ کشمیر پر مذاکرات با مقصد اور نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے۔
سردار سکندر حیات خان اگرچہ اِن دِنوں کشمیر کی سیاست میں زیادہ متحرک نہیں ہیں اور اُن کے بعد آنے والے سیاست دان کشمیر کی عملی سیاست میں اُن سے آگے نکل گئے ہیں تاہم وہ کشمیر کی سیاست کے گہرے پانیوں کے شناور رہے ہیں اور اس مسئلہ کی باریکیوں کو خوب سمجھتے ہیں، اس لئے اُن کی باتوں کو توجہ سے سن کر ان پر غور وفکر کرنا چاہئے۔ البتہ انہوں نے چناب فارمولے کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرنے کی جو تجویز دی ہے ہمارے خیال میں اس پر خود کشمیری سیاست دانوں میں اتفاق رائے کا حصول خاصا مشکل کام ہو گا، حریت قیادت کی رائے تو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب ہی مائل ہے اور جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے عہدِ حکومت میں کشمیر کو مختلف زونز میں تقسیم کرنے کی تجویز دی تھی اور اس معاملے میں بیک چینل ڈپلومیسی شروع کی تھی تو سار ی حریت قیادت نے اُس سے اتفاق نہیں کیا تھا اور یہ تجویز رد کر دی تھی۔ جہاں تک چناب فارمولے کا تعلق ہے یہ فارمولا بھی کوئی پہلی دفعہ سامنے نہیں آ رہا، ماضی میں متعدد بار اِس کا ذکر ہو چکا اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بات بھی ہوتی رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں مسئلہ کشمیر سے دلچسپی رکھنے والے حلقے اِس فارمولے کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، البتہ اب کچھ عرصے سے اس معاملے پر خاموشی طاری تھی، اب اگر سردار سکندر حیات خاں نے دوبارہ اس بحث کو زندہ کیا ہے تو عین ممکن ہے اس فارمولے کے مختلف پہلو ازسر نو زیر بحث آئیں۔
ویسے دیکھا جائے تو یہ فارمولا کشمیر پر پاکستان کے قومی موقف سے قطعی کوئی مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ پاکستان کا تو دعویٰ ہے کہ ’’کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے‘‘ اور یہ پاکستان کی شاہ رگ ہے، لیکن چناب فارمولا تو کشمیر کی تقسیم کا دوسرا نام ہے۔ اس کے تحت صرف اتنا ہو گا کہ کشمیر کی موجودہ تقسیم میں تھوڑا بہت ردوبدل کر کے دریائے چناب کو مستقل سرحد بنا دیا جائے گا۔ اس طرح کی تقسیم تو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے اور پاکستان اگر یہ فارمولا مانتا ہے تو صاف اور سیدھا مطلب تو یہی ہو گا کہ وہ اپنے قومی موقف سے دستبردار ہو گیا۔سردار سکندر حیات خان نے جنرل راحیل شریف کے کشمیر کے بارے میں جس موقف کو ’’ٹھوس، جاندار اور مضبوط‘‘ قرار دیا ہے وہ بھی تو وہی قومی موقف ہے جس پر پاکستان متفق ہے۔اگر سردار صاحب مسئلہ کشمیر کا حل چناب فارمولے میں دیکھتے ہیں تو اُن سے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ ایسی صورت میں جنرل راحیل شریف کا موقف کیا ہو گا؟ چناب فارمولا تو اُن کے موقف میں کسی جگہ فِٹ نہیں بیٹھتا۔ اگرچہ ماضی میں اور اب بھی اس فارمولے کے حق میں کشمیر اور پاکستان کے کچھ سیاست دان بات کرتے رہے ہیں، اور اب نئے سرے سے بحث چھڑے گی تو اس کی مخالفت اور حمایت میں بھی رائے آئے گی، لیکن حریت کانفرنس کے رہنما اور کشمیری قیادت کے نزدیک بھی کیا یہ فارمولا قابلِ قبول ہو گا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا حکومتِ پاکستان حریت رہنماؤں کو اس معاملے پر بات کرنے کے لئے پاکستان بُلائے گی اور اگر ایساکرے گی، تو کیا بھارت ان رہنماؤں کو پاکستان آنے دے گا؟ ویسے ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ اس فارمولے کی وجہ سے دونوں مُلکوں کو فیس سیونگ مل سکتی ہے، لیکن یہ تو کوئی حل نہ ہوا۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کہہ دیا جائے مقبوضہ کشمیر بھارت کے پاس رہے گا اور آزاد کشمیر پاکستان کے پاس جو عملی طورپر اب بھی ہے، عملاً تو چناب فارمولا یہی ہے۔
ایسے محسوس ہوتا ہے سردار سکندر حیات عمر کے اس حصے میں کشمیر کے کسی ایسے حل سے مایوس ہو چکے ہیں، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہو، اس وقت تو بھارتی قیادت آزاد کشمیر پر دعوے کر رہی ہے اور اس پر حملے کے منصوبے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا وہ چناب فارمولے پر بات کرنے کے لئے بھی تیار ہو گی۔ یہ تجویز اگرچہ پرانی ہے تاہم اگر انٹرا کشمیری ڈائیلاگ اس فارمولے کے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح غور کر کے کسی نتیجے پر پہنچ جائے، تو پھر بات آگے بڑھ سکتی ہے، لیکن لگتا ہے فی الحال سردار سکندر حیات کی تجویز کو شاید زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا جائے ویسے حریت رہنماؤں کو بلانے سے پہلے آزاد کشمیر کے رہنماؤں کی ایک کانفرنس منعقد کر کے یہ معلوم کر لینا چاہئے کہ کون سے رہنما چناب فارمولے کے حق میں ہیں اور کون مخالف، اس کے بعد ہی تجویز حریت رہنماؤں کو پیش کی جائے تو مناسب ہو گا۔