خواجہ غلام فرید کا پیغام۔ ”ماندی ناں تھی“

   خواجہ غلام فرید کا پیغام۔ ”ماندی ناں تھی“
   خواجہ غلام فرید کا پیغام۔ ”ماندی ناں تھی“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 

 روہی کی چلچلاتی دھوپ، جسموں کو جھلستی شدید گرم لو، تاحد نگاہ ویرانی ہی ویرانی، کئی قسم کے دل و دماغ میں پنپنے والے وسوسے، طرح طرح کی پریشانیاں، فطرت کی جولانیاں،جرائم پیشہ ذہنوں کی کارستانیاں، نمانے اور نمانیاں اور پھر کیا کیا نہیں۔ دردِ دل، درد جگر اور ظلم وقہر جب اکٹھے ہوں گے تو انسانیت کے پاس چیخنے چلانے اور آہ و بکا  کے سوا کوئی آپشن نہیں رہ جاتا۔ ایسی صورتحال پر ہی تو اوپر والا بھی مضطرب ہوتا ہے اور پھر فرید کو بھی کمر کس لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ پھر تو آواز اٹھائی جاتی ہے، ہمت بندھائی جاتی ہے، طلوعِ سحر کی اُمید دلائی جاتی ہے۔ تابناک مستقبل کے خواب دکھائے جاتے ہیں،اتھرو پونچھے جاتے ہیں،چپ توڑدی جاتی ہے اور نوائے شوق سے ہر کس و ناقص کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ زبان کی مٹھاس اور شیرینی سے کانوں میں رس گھولا جاتا ہے، بات کرنے سے پہلے بات کو تولا جاتا ہے اور پھر بہت کچھ بولا جاتا ہے،اپنے ہی ہم جنسوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ منزل کو گھسیٹ کر پاؤں کے نیچے رکھ لیا جاتا ہے اور پھر دریا کنارے ایک کوٹ مٹھن کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ یہیں سے پیار اور محبت کا پیغام اور وہ بھی سرائیکی جیسی میٹھی زبان میں پہلے پوری روہی کو اور پھر پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے پھر تو فرید فرید ہوجاتی ہے۔ یوں جس سفر کا آغاز بابا فرید مسعودؒ  نے کیا تھا اس کی تکمیل خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن نے کر دی (دل درد کونوں ماندی ناں تھی درد جگر ایویں ہوندین۔۔۔ ویسن گزر اصلوں ناں ڈر   اوکھے پہر ایویں ہوندن)

سلسلہ چشتیہ نے علمی، فکری اور روحانی لحاظ سے برصغیر پاک و ہند میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کے پیش نظر دنیاوی اقتدار اور حکومت ہر گز نہ تھی تاہم انہوں نے اپنا ایک جاندار کردار ادا کر کے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی ہے اور یوں قائم کی ہوئی سلطنتیں آج تک قائم و دائم ہیں اور معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مذکورہ سلسلہ کی ایک کڑی حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ؒ سے شروع ہوتی ہوئی حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی اور حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی  تک پہنچتی ہے اور پھر دوسری طرف حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ  سے شروع ہوتی ہے اور یہ سلسلہ حضرت خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھنؒ  تک آتا ہے۔ اس ساری کہانی میں بڑے بڑے صوفیاء نظر آتے ہیں جو اپنے اپنے دور کے لق ودق صحراؤں میں آ کر آباد ہوئے اور جہاں جہاں گئے وہاں وہاں انہوں نے ایک نئی دنیا آباد کر دی۔ متلاشیان علم کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا گیا۔ قبائلی جنگوں کے درمیان آ کر کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی سالوں پرانی دشمنیوں کو پگ وٹائی میں بدل دیا گیا۔ لنگر کے فیض سے بھوکوں اور پیاسوں کی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھوک اور پیاس ختم کر دی گئی۔ بے آباد من کی دنیا میں معرفت کی بین بجا کر ہل چل مچادی اور یوں خانقاہ در خانقاہ قائم ہونے کے سلسلے چل نکلے۔ آنکھ اُٹھائی تو سیاہ بخت لوگوں کی تقدیریں بدل کر رکھ دی گئیں۔علم وادب کی ان درگاہوں سے شگوفے پھوٹے اور جاگیرداریوں اور بدمعاشیوں کے بت تڑ تڑ ٹوٹنے شروع ہو گئے، بدنی اور روحانی مریضوں کا تسلی بخش علاج کیا گیا۔ منبر ومحراب سے مثبت اور قوی پیغام لوگوں تک پہنچا کر خلقت خدا کو ایک جگہ بیٹھنے پر تیار کیا گیا۔ مواخات مدینہ کی فلسفہ پیر بھائی کی صورت میں تجدید کی گئی۔شعر وسخن کی اس حد تک حوصلہ افزائی کی گئی کہ اجاڑو صوفی شاعر بن گئے۔ گنگنانے والے اپنے اپنے دور کے معروف قوال،بلکہ فنکار بن گئے۔چراغ سے چراغ جلتا گیا اور حضرت انسان تہذیب و تمدن کے خدوخال سنوارنے کے قابل ہوگیا۔ (اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی۔ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا)

خواجہ غلام فرید 25 نومبر 1845ء قصبہ چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام خدا بخش المعروف محبوب الٰہیؒ تھا۔ چار سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہوا اور چھ سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ نسبی طور پر فاروقی تھے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق  ؓ کی اولاد سے تھے۔ ان کے بزرگوں میں ایک کا نام خواجہ کوربن تھا، جس نسبت سے ان کا خاندان کوریجہ کہلایا۔ آپ کے جد امجد حضرت خواجہ محمد عاقل کو خواجہ نور محمد مہارویؒ نے خلافت عطافرمائی تھی۔ خواجہ غلام فرید اپنے وقت کے نامور عالم فاضل اور مبلغ تھے۔ ہفت زبان شاعر تھے۔ ان کی زیادہ تر شاعری سرائیکی زبان میں ہے اور خصوصا ان کی کافی پوری دنیا میں ان کی پہچان بن گئی۔ موسیقی پر بھی ان کو عبور حاصل تھا۔ عام وخاص سب ان کے گرویدہ تھے۔ نواب صادق آف بہاولپور ان کے مرید بھی تھے اور ان کے مصاحب خاص بھی تھے۔ خواجہ صاحب اپنا آفاقی اصلاحی پیغام دینے میں کسی بڑے چھوٹے میں فرق نہ کرتے تھے۔ایک دفعہ انہوں نے نواب مذکور کو  زیر، زبر اور پیش کی حکمت سمجھا کر زبردست پیغام دیا تھا اور یہ پیغام آنے والے سب حکمرانوں کی عاقبت سنوارنے کے لئے کافی ہے۔ (زیر تھی زبر ناں تھی متاں پیش پوی) ان کی کافی میں وہ درد ہے جو دردِ دِل کی نعمت سے انسان کو مستفید کر دیتا ہے (دردِ دِل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں) وہ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بزرگ تھے ان کی بیعت ان کے بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں کے ساتھ تھی۔ ان کی شاعری میں توحید وجودی اور ہمہ اوست کا گہرا رنگ ہے۔ ان کے ہاں بھی ہر طرف تو ہی تو کے جلوے نظر آتے ہیں۔ وہ جب کائنات کو آنکھیں کھول کر دیکھتے چلے آتے ہیں تو ایک دن ان کو اپنے اندر بیٹھا یار نظر آجاتا ہے پھر تو بے خودی کی کیفیت اور کیف و سرور۔ استغراق اور وجد اور یوں وجد میں کہی گئی کافی۔ایسی کافی سن کر عرش اور فرش بھی وجد میں آ جاتے ہیں اور فطرت سبحان اللہ سبحان اللہ کی آوازوں سے گونج اٹھتی ہے۔ (خلقت کوں جیندھی گول ہے۔اوہ ہر دم فرید دے کول ہے) ایسے تو نہ خواجہ غلام فرید کی آواز معاشی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی انقلاب کا باعث بنی۔ اسی آواز کو سننے کے لئے لوگ جوق در جوق ہر سال 5 تا 8 ربیع الثانی کو کوٹ مٹھن ضلع راجن پور آتے ہیں اور اپنی علمی و روحانی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل مزار اور وہ بھی درد رکھنے والا غلام فرید۔ واقفان حال تو بہت کچھ کہتے ہیں اور مجھ جیسے کور ذہن اور کور نظر باتیں کرتے رہ جاتے ہیں۔

صوفی باصفا آفاق کی بات کرتا ہے تاکہ مخلوق آفاق کے خالق تک جا پہنچے (وہ مصور کیسا ہو گا جس کی یہ تصویر ہے)۔ لہٰذا اب ہم سب پر لازم ہے کہ ہم صوفیائے کرام کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں، رسومات اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن ان خیالات کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کے سانچوں کو ڈھالنے کی ضرورت ہے ”ماندی ناں تھی“ کے لفظ سنا کر آج کی نوجوان نسل کا مورال اپ کیا جا سکتا ہے اور غربت اور بیروزگاری کے ستائے ہوئے لوگوں کو دعوت فکرو ہنر دے کر ان کو ان کے تابناک مستقبل کی نوید سنائی جا سکتی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 خوبصورت وادیوں کا مسکن۔ سرزمین چکوال  

aslam lodhi

 

سرزمین چکوال صوبہ پنجاب کا تاریخی شہر اور ضلعی مقام ہے۔ یکم جولائی 1985ء کو اسے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1985ء سے پہلے اس علاقے کا کچھ حصہ ضلع جہلم اور کچھ رقبہ ضلع اٹک کاحصہ تھا۔ بعد ازاں تلہ گنگ کو تحصیل کا درجہ دے کر چکوال کے ساتھ ملا دیا گیا، اس کے شمال میں ضلع اٹک، جنوب میں ضلع خوشاب، مشرق میں جہلم اور راولپنڈی، جبکہ مغرب میں ضلع میانوالی واقع ہے۔ سطح کے اعتبار سے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے (1) پہاڑی حصہ (2) نا ہموار حصہ اور (3) وادی سون کا حصہ۔ پہاڑی حصہ سلسلہ کوہستان نمک کی جنوبی وسطی اور شمالی شاخوں کے درمیان واقع ہے، یہ دلجبہ اور نیلی پہاڑ سے لے کر سکیسر کی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے، اندرونی طور پر اس علاقے کو جھنگڑ کہون اور ونہار کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔تاریخی اعتبار سے یہ ضلع بڑا تاریخی اور خوشحال ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق کوہستان نمک یا وادی سوان کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب کہلاتی ہے،اس کا زمانہ تقریبا چار لاکھ سال قبل مسیح بتایاجاتاہے۔ اس کے بعد پتھر کا زمانہ آتا ہے۔ ضلع چکوال کے مضافات میں موجودہ موضع ڈھلال میں ایک ایسی بستی کا سراغ بھی ملا ہے، جس کے باشندے ایسے پتھر کے اوزار استعمال کرتے تھے، جن کی عمر تقریبا سات ہزار سال قبل مسیح بنتی ہے۔ جدید تحقیق کی روشنی میں تو یہ حقیقت بھی منکشف ہو چکی ہے کہ نظر یہ علاقہ واریت کے مطابق اولین انسان کا ظہور بھی اسی علاقے میں ہوا تھا اور پھر اس کے بعد اس کی نسل ایشیا اور مشرقی یورپ تک پھیل گئی۔ محکمہ آثار قدیمہ حکومت پنجاب کے سروے کے مطابق اس ضلع میں پچاس سے زیادہ ایسے مقامات موجود ہیں، جن کی آثاریاتی قدر وقیمت بہت زیادہ ہے۔ ان میں متعدد آثار زمانہ قبل از تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس علاقے میں ایک جگہ کوٹ میرا تھر چک کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں سے ایک ایسا سکہ ملا ہے،جو مہاراجہ کنشک کے بیٹے اور جانشین مہاراجہ ہوشکا (185/162) کا ہے۔ یہاں پر ایک عجیب و غریب قسم کی عمارت بھی موجود ہے، جس کا نام ہجرہ ہے۔ چکوال سے18 کلومیٹر دور بن امیر خاتون نامی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس کے اردگرد سالٹ رینج کی خوبصورت سمندری چٹانوں اور پہاڑوں نے اس چھوٹے سے گاؤں کو سحر انگیز بنا دیا ہے۔ اب یہ گاؤں پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے، کیونکہ یہیں سے چند سال قبل برآمد ہونے والے فاسلز کی دو کروڑ بیس لاکھ سال پرانے ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس ضلع کی حدود میں شمر قد قلعہ بھی واقع ہے۔ در حقیقت چکوال آثار قدیمہ کی جنت ہے۔ ڈاکٹر وانی کے مطابق چکوال میں دریافت ہونے والے فاسلز کی اتنی بڑی تعداد آج تک دنیا میں کہیں بھی دریافت نہیں ہوسکی ہے۔تاریخی طور پر ضلع چکوال کا علاقہ کئی تہذیبوں کا وارث رہا ہے۔ جنگ مہا بھارت کے ہیرو پانڈووں نے اپنے بارہ سالہ بن باس کا کچھ حصہ دوبیتیہ ونا جھیل (موجودہ کٹاس) کے قرب و جوار میں گزارا۔ کٹاس میں ”ست گھرا‘ انہوں نے ہی تعمیر کیا تھا۔ مہا بھارت کا سن تصنیف ایک ہزار قبل مسیح سے600  سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ پھر یہ علاقہ ایرانی شہنشاہوں کے زیرنگیں آیا۔ اس ضلع میں موضع نیلہ کے قریب شیریں فرہاد کی قبریں اس دور کی یادگار ہیں۔ اس عہد میں یہاں سے فوجی بھرتی کر کے ایران اور یونان کی جنگوں میں لڑائے جاتے  رہے۔326ق م میں جب سکندراعظم والئی ٹیکسلا سے صلح کے بعد پہاڑی راستوں کو تیزی سے عبور کرتا ہوا آگے کی طرف بڑھا تو وہ چواسیدن شاہ کے قرب و جوار سے گزرا۔ اُس کو یہاں کے سدا بہار گلاب کے پھول بہت پسند آئے۔ غزنوی، غوری، خلجی، تغلق، مغل سب حملہ آور اسی علاقے سے گزر کر آگے بڑھتے رہے۔ شیر شاہ سوری سے پہلے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے دوروں سے جتنی قو میں اور حملہ آور ایران اور وسطی ایشیا سے آگے بڑھ کر وادی گنگا جمنا کی تسخیر کی نیت رکھتے،ان کا گزر مارگلہ سے براستہ ڈھوک پٹھان (ضلع چکوال کے ایک سرحدی گاؤں جو دریائے سواں کے کنارے آباد ہے) اسی ضلع کے سلسلہ کو ہستان نمک کے زیر سایہ ہی ہوتا۔ ان کا اولین ہدف بھیرہ کا خوشحال شہر اور نندنہ کا مضبوط قلعہ ہوتاتھا۔ ان قوموں اور حملہ آوروں میں دراوڑوں، آریوں، سکندر اعظم، باختری یونانی، سفید ہندی، مغلوں، غز نویوں، غوریوں اور امیر تیمور کا نام بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کا چینی سیاح ہیون سانگ ایک جگہ لکھتا ہے کہ ضلع چکوال کے علاقہ چواسیدن شاہ کے قریب سنگھا پورہ کا شہر واقع تھا۔ سنگھا پورہ کی بادشاہت وسیع و عریض علاقے تک قائم تھی۔ یہ ریاست ٹیکسلا کی ہم عصر تھی۔اس کا احاطہ تقریباً 350 مربع میل تھا۔ دریائے سواں ان دونوں ریاستوں کے درمیان حد فاصل کا کام کرتا تھا۔ یہاں ایک بدھ مت یونیورسٹی بھی تھی۔ بدھ مت کے آثار بھی ضلع چکوال کے بعض مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ اس دور کا ایک کنواں میراتھر چک میں تھا۔ ملوٹ کا قلعہ اور شوگنگا کے مندر بھی اس ضلع کی قدامت کا پتہ دیتے ہیں۔ ابوریحان البیرونی نے وادی چکوال کی جنوبی گھاٹیوں کے قلعوں ملوٹ، کنشک اور نندنہ میں انتہائی اطمینان اور سکون سے اپنی ذہانت اور فطانت سے زمین کا قطر معلوم کیا۔ آخر وہ وقت بھی آیا جب ظہیر الدین بابر نے اپنے دوسرے سفر میں دلجہ کی پر فضا جگہ کو قیام گاہ کا شرف بخشا۔ لوگوں کی استدعا پر1527ء میں گھوڑی گالا کے مقام پر پہاڑ کو کاٹنے کا حکم دیا۔ سات ہزار مزدوروں نے وادی چکوال کے وسطی حصہ سے ڈھن کے پانی کو پہاڑ کاٹ کر نکال باہر کیا۔ بابر نے کلر کہار کے مقام پر تخت بابری بنوایا اور باغ لگوایا۔ بادشاہ اکبر کے زمانے میں ضلع چکوال سندھ ساگر کا حصہ تھا۔ اس عرصے میں یہاں گکھڑقابض تھے۔ اور نگ زیب کی وفات (1707ء) کے بعد اس کے بیٹوں کی خانہ جنگی میں کامیاب ہونے والے شہزادہ اعظم ملقب بہ بہادر شاہ (1707-1712ء) نے سیدو خان گکھڑ کو بطور سزا اس علاقے سے بے دخل کر کے اقوام مائر اور کسر کے سرداروں کو یہ علاقہ دے دیا۔ مائر منہاس راجپوت قوم ہے۔ یہ سب سے پہلے چکوال میں چک بازید کے مقام پر جھیل کے کنارے آباد ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ پھیلتے گئے۔ موجودہ چکوال انہوں نے ہی آباد کیا تھا۔ مغلوں کے زوال کے دور میں سکھوں نے اس علاقے میں کارروائیاں کیں۔ احمد شاہ درانی نویں حملہ کے بعد جب واپس افغانستان لوٹ گیا تو سردار چڑت سنگھ نے دھنی چکوال کہون اور جھنگڑ کے علاقے اپنی دسترس میں لے لیے۔ 1801ء میں مہا راجہ رنجیت سنگھ خود دھنی میں آیا اور علاقے کو بغیر کسی مزاحمت کے زیرنگین کر لیا۔ 1810ء میں سلطان فتح محمد جنجوعہ والئی کسک کوہستان نمک) کی شکست کے بعد یہ علاقہ مکمل طور پر سکھوں کی عملداری میں آگیا۔ سکھوں کی انگریزوں کے ساتھ دوسری لڑائی (1849ء) کے وقت یہ تمام علاقہ چھتر سنگھ کے ماتحت تھا۔ انگریزوں کے قبضے کے بعد جنرل نکلسن کے تحت اس علاقے میں پہلا سرسری بندو بست اراضی کیا گیا ہے انگریزوں نے چکوال کو ضلع جہلم کی ایک تحصیل بنا کر اسی میں شامل کردیا۔ 1985ء میں اسے الگ ضلع کی حیثیت دی گئی اور اس میں ضلع اٹک کی تحصیل تلہ گنگ اور تحصیل پنڈ دادن خان کا تھانہ چواسیدن شاہ کے علاقے بھی شامل کئے گئے۔ بعد ازاں چواسیدن شاہ کو بھی تحصیل کا درجہ حاصل ہوا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 قصہ نصف صدی کا۔۔۔۔۔ 

sead shuiab ul deen ahmed

 

زندگی میں اگر کبھی انسان پر کچھ ایسا وقت آیا ہو اور کچھ ایسے واقعات گزرے ہوں، جنہیں وہ اپنی یادداشت میں ”تازہ“ نہیں کرنا چاہتا (یعنی یاد نہیں کرنا چاہتا) لیکن بدقسمتی سے وہی واقعات اگر پھر دوبارہ سامنے آ جائیں تو پھر انسان یہ سوچتا ہے کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا، کیوں ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے۔ آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، جو نظر آ رہا ہے،جو چھپایا جارہا ہے اور پھر ”دکھلایا“ جا رہا ہے، جو کچھ بتایا اور ”کہلوایا“ جا رہا ہے اسے سن کر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ تو تقریبا نصف صدی پرانا وہی قصہ ہے۔ آج پھر 1977ء کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں اور میں آپ کے ساتھ انہیں ”شیئر“ کر رہا ہوں۔ وہ وقت کہ جب میری عمر صرف 18سال تھی، وہ وقت کہ جب نہ سوچنے کی عمر تھی اور نہ سمجھنے کی۔ آج کل کے بچے یعنی یہ“گوگل نسل“ میری یہ بات نہیں سمجھے گی، کیونکہ میں اُس دور کی بات کر رہا ہوں جب ٹی وی سکرین پر صرف سرکاری ٹی وی، یعنی پی ٹی وی کے پروگرام اور خبرنامہ ہی چلا کرتا تھا اور پاکستانی عوام کو“خبر“ کے لئے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا خبرنامہ صبح چھ بجے سننا پڑتا تھا،لہٰذا اُس وقت کے 18 سال والوں کا آج کے 18سال والوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا،چنانچہ 47 سال پرانی یہ یادیں، جن کے بارے سوچا تھا کہ کبھی زندگی میں یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا، مگر وہ وقت پھر آگیا اور وہ یادیں پھر تازہ ہو رہی ہیں۔ بیحد ڈر لگ رہا ہے خوف آ رہا ہے کہ خدا  نخواستہ انجام پھر وہی نہ ہو کہ پھر کوئی 5 جولائی آ جائے کوئی جرنیل کرسی اقتدار سنبھال لے اور گیارہ سال کی طویل ”نحوست زدہ رات“ پھر اس ملک پر چھا جائے۔ شاید نئی نسل کو میرے اس ابتدائیہ کی سمجھ نہ آئی ہو کہ میں کن حالات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں، لیکن میرے جیسے“ سٹھیائے“یعنی وہ لوگ جو زندگی کی60،65،70بہاریں دیکھ چکے ہیں سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ ”نو ستاروں“ (قومی اتحاد) کی اس“مہم جوئی“کی طرف ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے الیکشن جیتنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ آج بھی پاکستان کی تازہ مہم جوئی 8 فروری کے ”فارم 45۔47“ انتخابات کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں میرے ذاتی خیال میں جو غلط بھی ہو سکتا ہے صرف تین پارٹیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے ”فالوور“ پیدا کئے۔ پہلا نام یقینا مسلم لیگ کا ہے لیکن وہ قائداعظمؒ اور لیاقت علی خان کی ”رخصتی“ کے بعد بری طرح تقسیم ہوئی اور مارشل لاؤں کی نظر ہوئی، لہٰذا پاکستان کی پہلی حقیقی ”عوامی  پارٹی“ جس کے فالوور سامنے آئے وہ پیپلز پارٹی تھی،ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت، جس کے ورکر جیالے کہلائے۔ بھٹو کے جیالے جو بھٹو کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ وار سکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے یہ جیالا ازم دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ”دم توڑ“ گیا۔ پیپلز پارٹی بھٹو ازم سے زرداری ازم کی طرف جانے لگی اور آہستہ آہستہ اب صرف سندھ تک محدود نظر آتی ہے، جبکہ دوسری عوامی پارٹی، جس کے فالوور سیاسی میدان میں نکلے وہ مسلم لیگ (نواز) تھی، لیکن یہاں پھر آپ مجھے غلط کہہ سکتے ہیں یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ جو ورکرز یا جو بھی تھے،جو جیالوں کے مقابلے میں متوالے کہلائے۔ تن۔ من۔ دھن  وارنے والے نہیں تھے۔ یہ دھن کمانے والے لوگ تھے انہوں نے کبھی اپنے لیڈر پر تن وارا نہ من وارا نہ دھن۔ (جس کی واضح مثال 12اکتوبر1999ء) ہے جب متوالے قائد کو بھول بھال غائب ہوگئے۔ البتہ تیسری عوامی پارٹی جو ان سب میں کم عمر ہے اور جس کی عمر صرف 27 سال ہے۔ وہ تحریک انصاف ہے۔ انصاف کے نام پر بننے والی جماعت جس کے بانی اور قائد ”قیدی نمبر 804 یعنی عمران خان ہیں“۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ اس ملک کے عوام کو انصاف دلانے کے لئے میدان میں آئے ہیں۔ آج یہ موازنہ کرنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ قیدی نمبر 804 کے کھلاڑی، یعنی کپتان کے کھلاڑی آج میدان میں ہیں، بلکہ آج سے کیا تقریبا دو سال سے میدان میں ہیں۔ ان کھلاڑیوں نے صرف گذشتہ دو دن میں وہ کر دیا یا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس نے مجھے ”نو ستاروں یعنی ہل والوں“ کی تحریک نظام مصطفی ؐ یاد تازہ کرا دی۔ معذرت چاہتا  ہوں، تحریک نظام مصطفی ؐ سے کسی تحریک کا مقابلہ  نہیں ہو سکتا، کیونکہ تحریک نظام مصطفی ؐ کا مقصد (جو مجھ جیسے نوجوانوں کو بتایا گیا تھا) وہ ملک میں ایک ایسا نظام نافذ کرنا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 14 سو سال پہلے مکہ اور مدینہ میں مسلمانوں کو یعنی ہم جیسے کلمہ گو مسلمانوں کو دیا تھا۔عمران خان کی آج کی تحریک ملک میں آئین قانون انصاف کے لئے ہے۔ آئین ”بچانے“ کے لئے ہے اور اس تحریک نے دو دن میں جوکر دکھایا ہے ایسا لگتا ہے کہ ”کھلاڑی“ کچھ کر کے دکھائیں گے۔

1977ء میں اسی لاہور میں روزانہ نیلا گنبد اور مسلم مسجد (لوہاری گیٹ) سے جلوس نکلا کرتے تھے۔ اس وقت کے ”آئی جی“ کے حکم پر آنسو گیس چلا کرتی تھی۔ مال روڈ پر ایسی فائرنگ بھی دیکھی، جس کے زخمی لاہور ہائیکورٹ کے اندر سے اُٹھا کر وکلاء نے ہسپتال پہنچائے۔اسی مال روڈ پر 9 اپریل 1977ء کو جلوس کے شرکا پر گولیاں چلتے  دیکھی گئیں، مسلم مسجد پر آنسو گیس کی بارش، اور پولیس کی جوتوں سمیت چڑھائی بھی دیکھی۔ میکلوڈ روڈ پر رتن سینما کی چھت سے جلوس پر فائرنگ اوراسی فائرنگ کے دوران نوجوانوں کے سینما کو آگ لگانے کے منظر ابھی یقینا لوگ بھولے نہیں ہوں گے۔ اسی سینما سے بمشکل 300 گز دور لاہور ہوٹل چوک میں پیلی بلڈنگ کی تیسری منزل سے جلوس پر مبینہ  فائرنگ اور اور پوری بلڈنگ کو آگ لگانے کا منظر بھی ابھی بہت سی یاد داشتوں میں محفوظ ہوگا۔ یہ سب بتانے کا مقصد ڈرانا نہیں ہے،  ہم کیوں اسے بھول گئے ہیں؟ خدارا اختلافات کو ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ کی طرف مت لے کر جائیں۔ 5 جولائی اور 12 اکتوبر کی سیاہ تاریخوں سے بچیں۔ 425 دن سے جیل میں بیٹھے قیدی سے بات کریں۔ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ تو جیل میں ہے۔ اس کی بات ماننا یا نہ ماننا آپ کا اختیار ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 ڈپٹی کمشنر                        (1)

mohsin gawaria

 

انگریز حکومت کے دور میں متحدہ ہندوستان میں ہر وہ گر آزمایا گیا،جس کی بدولت برصغیر میں حکومتی رٹ قائم کی جا سکے،یورپ میں نافذالعمل بلدیاتی نظام سے ہٹ کر گوروں نے اس خطے میں کلکٹریٹ کا محکمہ قائم کیا،جس کا بنیادی مقصد لگان،مالیانہ اور آبیانہ اکٹھا کرنااور کاشتکاروں کی اجناس برطانوی ضرورت کے مطابق کسان سے خریدنا تھا، تب پولیس کا محکمہ عدالت کے ماتحت ہوتا لوگ اپنی شکایات لیکر عدالت جاتے اور عدالتی حکم پر ملزم کو عدالتی عملہ عدالت میں پیش کرتا، کلکٹریٹ کے دفتر کو برطانوی حکومت کے استحکام اور عوام سے بہتر رابطہ کے لئے1853ء میں کمشنری نظام میں تبدیل کر دیا گیا،کلکٹریٹ کے نظام میں مقامی لوگوں کی شرکت ماتحت عملہ کے طور پر تھی مگر کمشنری نظام میں مقامی لوگوں کو بھی مقابلے کے امتحان کے بعدشرکت اور عہدے دینے کی ابتدا ہوئی،تا ہم کمشنر کا عہدہ تب بھی انگریزکے لئے مخصوص تھا،اس وقت برطانوی حکومت کے سامنے سرکار کا تسلط بربنائے انصاف اور ترقی تھاتا ہم کمشنر کا دفتر انتہائی طاقتورہوتا تھا جہاں ضابطہ فوجداری کے تحت جرائم کی روک تھا م جیسے دفعہ 144کا نفاذ، لاؤڈ سپیکر کے استعمال،اجتماعات کی اجازت، ڈومیسائل،اسلحہ کے لائسنس، ٹریفک چالان، تجاوزات کا خاتمہ، گراں فروشی،ذخیرہ اندوزی،امن و امان،ترقیاتی منصوبوں اور مقامی سطح پر انصاف کی فراہمی کے معاملات کمشنر کے دفتر کی ذمہ داری تھے،کمشنر ڈویژن کا اور اس کے ماتحت ڈپٹی کمشنر ضلع کا سربراہ ہوتا تھا۔

آزادی کے بعد مملکت خداداد میں بھی اس نظام کو اپنایا گیا اور یہ کامیابی سے چلتا رہا تاہم  ڈپٹی کمشنر کے ادارہ کو آئین کی شق نمبر 175(3) کی رو سے عدلیہ کے انتظامیہ سے جدا کئے جانے کے حوالے سے1993ء سے متنازعہ اور کمزور بنانے کی کوشش کی گئی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں اگست 2001ء میں اس نظام کا خاتمہ کر دیا گیا، اس کی جگہ ضلعی حکومتوں کا ایک نیا نظام سامنے لایا گیا،اس کے پس پردہ ڈی ایم جی والوں میں پایا جانے والا ایک تاثر یہ بھی بہت عام تھا کہ نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے چیئرمین بہاولنگر کے کسی ڈپٹی کمشنر سے بہت ناراض تھے، وہ انہیں سستے داموں فروخت کی ہوئی زمین نئے مالکان سے واپس دلانے میں ناکام رہے تھے، سو وہ اس دفتر کو برباد کرنے پرآمادہ تھے، اس فیصلے نے پاکستان کی سب سے بڑی اور ایگزیکٹو سروس ڈی ایم جی کا ٹائی ٹینک ڈبو دیا۔

دوسری جانب اس دور میں پولیس افسروں کی ایک موثر تعداد وزارت داخلہ میں تعینات تھی،وہ افسر پولیس کو ایک بااختیار اور جواب دہی سے بالاتر ادارہ دیکھنا چاہتے تھے،یوں ایک کمزور سے پبلک سیفٹی کمیشن اور آئی جی کو بیک وقت پبلک سروس کمیشن، کمانڈر آف دی فورس اور بجٹ کے معاملے میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی سے آزاد ادارہ دیکھنے کی خواہش نے یہ دن دکھائے۔اس طرح افضل شگری، آفتاب راٹھور اور شعیب سڈل نے مل کر نئے پولیس آرڈر کو تشکیل دیا،پولیس میں موجودہ بگاڑ کا ایک سبب یہ پولیس آرڈر بھی ہے جس میں اختیارات کو ایک ہی ادارے اور پوسٹ یعنی آئی جی کے دفتر میں جمع کردیا گیا،پولیس انگریزی اصطلاح کے حساب سے Top Heavy ہو گئی،اس سے قبل  پولیس کا کام ایس پی لیول پر ختم ہوجاتا تھا  اس کے بعد تمام کام ہوم ڈیپارٹمنٹ کا ہوتا تھا جو پالیسی ساز دفتر تھا،ڈی ایم جی اور پولیس سروس کی اس دیرینہ باہمی چپقلش سے ہٹ کر دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ ضلعی سطح پر ایک مقامی سیاسی ہیوی ویٹس کی مرضی کے تابع نظام کا خاتمہ ضروری ہے اسی طرح ملک میں ایک عرصے سے سیاست کے میدان میں غالب دو بڑی سیاسی پارٹیوں  کو ضلع ناظم کا ادارہ صوبائی سیاست میں قدم نہیں جمانے دے گا اور اس کے بعد ہر طرف آپ ہی آپ ہوں گے۔

ڈپٹی کمشنر کا عہدہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہی زیر بحث رہا ہے،انگریز سرکار کے کچھ کام ایسے بھی ہیں جن کی تعریف نہ کرنا ناانصافی ہو گی،انگریز سرکار نے ہندوستان میں مضبوط ادارے بنائے اور اگر ادارے مضبوط ہوں تو ملک کی گاڑی نان سٹاپ چلتی ہے،ماضی کا ڈی سی بہت مضبوط ہوتا تھا،جس کی وجہ سے حکومتی رٹ بھی بہت مضبوط تھی اور آج کا ڈی سی ایک کمزور ادارہ بنا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے حکومتی رٹ بھی کمزور ہو چکی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ڈپٹی کمشنر ضلع کا صرف حکمران ہی نہیں ہوتا تھا،وہ عام شہری کا ترجمان اور سرکار کا نمائندہ بھی ہوتا تھا،ڈپٹی کمشنر آفس سے ماضی میں عوام کو وہ سب کچھ میسر آتا جو اس کی تمنا ہوتی، مگر مشرف دور میں ڈی سی او کا دفتر متعارف کرا کے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ ختم کر دیا گیا، ڈی سی او کو اکثر دوست ڈی سی زیرو بھی کہتے تھے۔ یہ نظام زیادہ دیر تک نہ پنپ سکا،مگر ایک ستم یہ کیا گیا کہ بے لگام اور کرپٹ محکمہ پولیس کو ڈپٹی کمشنر کی کمان سے نکال کر مادر پدر آزاد کر دیا گیا،مجسٹریسی نظام جو مقامی سطح پر عوام کو انصاف دینے اور انتظامی امور سنبھالنے کا ذمہ دار تھا ختم کر دیا گیا،اگر چہ ضلعی نظام جو مشرف دور میں نافذ کیا گیا اس میں بہت سی خوبیاں تھیں، مگر وہ کمشنری نظام کا نعم البدل ثابت نہیں ہو سکا تھا۔

انگریز ایک گورے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے میلوں میل پھیلے ضلع کے سرداروں، علماء، امراء کو قابو میں رکھتا تھا، اس زمانے کے ڈی سی اور ایس پی گھروں کے رقبے اور طرز تعمیر دیکھ لیں، پاکستان کے قیام کے بعد بھی اسی نوع کے با اختیار، با بصیرت اور مدبر ڈپٹی کمشنر نظر آتے ہیں،جن میں قدرت اللہ شہاب جیسے بہت تھے، مرکزی حکومت، منتخب یا فوجی حکمران ان کے ذریعے ہی ضلع چلاتے تھے، ان ڈپٹی کمشنروں کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے، ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوتا تھا،کسی واقعے، احتجاج، جلسے جلوس کے بارے میں اس کا پریس نوٹ، ہینڈ آؤٹ حرفِ آخر ہوتا تھا، قدرت اللہ شہاب کی ڈپٹی کمشنر کی ڈائری تو ہمارے ادب اور تاریخ کا ایک اہم باب ہے،ڈپٹی کمشنر اپنے طور پر شہریوں کی مشاورتی کونسلیں بناتے تھے، ان سے رابطے میں رہتے تھے۔ ان دنوں ہر ضلع کا سالانہ میلہ اسپاں و مویشیاں، کھیلوں کے مقابلے اس ضلع کی توانائی ثقافت و ادب کا مظہر ہوتے تھے، شہید ذوالفقار علی بھٹو ڈپٹی کمشنروں سے رات گئے حال احوال لیتے تھے، جنرل ضیاء الحق نے بھی یہ طریقہ اختیار کیا،ڈپٹی کمشنر اور ضلع کے انچارج بریگیڈیئر یا کرنل سے ہفتے میں ایک بار ضرور فون پر بات کرتے تھے،ایک ڈپٹی کمشنر پورے ضلع کا، نباض، مورخ، ماہر اور درد مند ہوتا تھا،فرقہ وارانہ مسائل کو بھی وہ علماء سے میٹنگوں کے ذریعے حل کرتا تھا، کہیں کرفیو لگانا ہوتا تو یہ اس کا فیصلہ ہوتا تھا،آفات ناگہانی سیلاب،زلزلہ، بڑی آگ یا وباء کے دنوں میں بھی ڈی سی کی معاملہ فہمی ہی چلتی تھی،پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں ڈپٹی کمشنر کا نظام دوبارہ متعارف کرا دیا ہے،مگر اسے ایک طاقتور ادارہ بنانا سٹیٹ اور عوام دونوں کے لئے ضروری ہے۔ (جاری ہے)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 دائرے کا سفر اور عوامی شعور کی دستک

nasim shahid

 

آخر کوئی تو  وجہ ہے کہ ہم77سال بعد بھی سیاسی استحکام سے محروم ہیں،دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں اختلافات بھی ہوتے ہیں،پارلیمنٹ کے اندر بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے،بات گرمی سردی تک بھی پہنچ جاتی ہے،مگر وہ کچھ نہیں ہوتا جو ہماری جمہوریت کا داغ بنا ہوا ہے۔یہ آج کی بات نہیں،گزشتہ کم و بیش چھ دہائیوں سے انتخابات میں دھاندلی اور جعلی مینڈیٹ کے الزامات ہماری جمہوری تاریخ کا وتیرا رہے ہیں۔محمد ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ہرایا تو بدترین دھاندلی کے الزامات لگے۔1970ء کے انتخابات ہوئے تو نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا،جس کی وجہ سے ملک دو لخت ہو گیا۔بھٹو کی جمہوری حکومت قائم ہوئی تو آئین بن گیا،تمام امور کے حل کا آئین میں طریقہ اور فارمولا دے دیا گیا،مگر جب اُسے آزمانے کا وقت آیا تو سب کچھ فیل ہو گیا۔ذوالفقار علی بھٹو پر بدترین دھاندلی کے الزامات لگ گئے۔اپوزیشن کی تحریک چلی،معاملات بھٹو کے ہاتھوں سے نکل گئے اور 1977ء کا مارشل  لاء آ گیا۔جنرل ضیاء الحق نے اس کے باوجود اقتدار سنبھال لیا کہ آئین میں ایسے کسی اقتدار کی گنجائش ہی نہیں تھی،گویا پہلی بار وہ متفقہ آئین آزمائش پر پورا نہ اُتر سکا اور ایک آمر نے اُسے کاغذ کا چیتھڑا بنا کر ایک طرف رکھ دیا۔ گویا 1973ء میں اس آئین کی منظوری کے بعد اکابرین نے جو توقع باندھی تھی کہ اب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا،وہ دریا برد ہو گئی۔گیارہ برس ضیاء الحق کا غیر آئینی اقتدار مارشل لاء کی صورت برقرار رہا اور ابھی نجانے کب تک رہتا کہ ایک ناگہانی حادثے نے ضیاء الحق کے اقتدار اور زندگی کی بساط لپیٹ دی۔1988ء کے انتخابات ہوئے، اقتدار منتخب حکومت کو منتقل ہو ا اور توقع کی جانے لگی کہ اب ملک میں پائیدار سیاسی استحکام آئے گا۔ جمہوریت پھلے پھولے گی،پارلیمنٹ اپنے فیصلے آپ کرے گی،منتخب حکومت کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملے گا،مگر کہاں صاحب،بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان اقتدار کی آنکھ مچولی کا ایک طویل دور چلا، دو اڑھائی سال بعد ایک کی حکومت گئی تو دوسرے کی آ گئی۔دونوں ایک دوسرے کو اقتدار سے نکلوانے کا الزام دیتے رہے،لیکن دونوں نے مل بیٹھ کے کبھی یہ تہیہ نہیں کیا منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش کریں گے اور نہ ایسی کسی سازش کا حصہ بنیں گے۔ یہ کھینچا تانی چلتی رہی تو جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارا اور مارشل لاء نافذ کر دیا، آئین معطل ہو گیا اور ہم ایک مرتبہ پھر بے آب و گیاہ جنگل میں آ کھڑے ہوئے۔ اقتدار میں ایک دوسرے کے دشمن جب اقتدار سے باہر ہوئے تو وہ کام کیا جو انہیں اپنے اپنے اقتدار کے دوران کرنا چائے تھا۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر میثاق جمہوریت کیا، جس میں سب سے اہم بات یہ تھی، اب جمہوریت کو چلنے دیا جائے گا اور عوام کے دیئے گئے مینڈیٹ کا احترام کر کے اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے دی جائے گی۔بے نظیر بھٹو تو2007ء میں شہید ہو گئیں تاہم یہ میثاق جمہوریت بہرطور موجود رہا۔انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی کو اکثریت ملی اور یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنا دیا گیا،وہ اگرچہ سپریم کورٹ کے حکم سے نااہل ہو کر مدت پوری نہ کر سکے تاہم اسمبلی نے مدت پوری کی،گویا اِس حد تک تو میثاق جمہوریت کامیاب رہا۔اگلی حکومت مسلم لیگ(ن) کی آئی۔اِس بار سپریم کورٹ کا حکم نواز شریف کی نااہلی کا باعث بنا، تاہم اس اسمبلی نے بھی مدت پوری کی۔

2018ء میں حالات نے کروٹ لی اور پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کے برعکس تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری اور اسے اقتدار مل گیا، چونکہ تحریک انصاف میثاق جمہوریت کا حصہ نہیں تھی،اس لئے اُس کے خلاف دونوں سیاسی جماعتیں کمر بستہ ہو گئیں،کبھی لانگ مارچ اور کبھی دھرنوں کے ذریعے اُس کے خاتمے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔2022ء میں اِن کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان کے خلاف اسمبلی میں تحریک  عدم اعتماد  پیش ہوئی اور منظور ہو گئی۔ اِس بار بھی اسمبلی موجود رہی تاہم اقتدار ایک جماعت سے دوسری جماعتوں کے اتحاد کو منتقل ہو گیا، اِس سے پہلے قومی اسمبلی کے اندر جو تبدیلی آتی رہی اس میں اقتدار اسی جماعت کے پاس رہا البتہ وزیراعظم بدلتے رہے۔ عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد یہ بیانیہ بنانے میں کامیاب رہے کہ اُنہیں امریکی حکم پر اقتدار سے محروم کیا گیا ہے، اس مقصد کے لئے انہوں نے مشہور زمانہ سائفر کا استعمال کیا، اس کے بعد سے ملک میں جو افراتفری اور عدم استحکام کا  دور شروع ہوا ہے، وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک عام خیال یہ تھا مقررہ مدت کے بعد عام انتخابات ہوں گے تو ملک میں  استحکام آ جائے گا، مگر اس کے لئے جو کشادہ نظری کے اقدامات کئے جانے چاہئیں تھے وہ نہ کئے گئے، بلکہ اُلٹا یہ کوشش کی گئی تحریک انصاف کو مقابلے کی دوڑ سے باہر رکھا جائے، اِن اقدامات کی وجہ سے سیاسی فضاء مکدر ہوتی چلی گئی، اِسی فضاء میں جب 8 فروری کے انتخابات ہوئے تو انتخابی نتائج کے معاملے میں شفافیت کا عنصر غائب ہو گیا۔ فارم 45 اور 47 کی بحث شروع ہو گئی۔ جیسے تیسے کر کے حکومتیں بن تو گئیں، مگر جو سیاسی انتشار جنم لے چکا تھا وہ کم نہ ہوا۔ ایک بار پھر قوم انتخابات میں بھرپور شرکت کے باوجود سیاسی استحکام سے محروم رہی۔ فروری سے لے کر آج تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ جب ملک میں سیاسی بے یقینی ختم ہوئی ہو۔ ایک ہلچل اور بے چینی ہے جس نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ریاستی ادارے بھی اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور ان کے حوالے سے سوالات اُٹھ رہے ہیں عمران خان سوا سال سے زیادہ ہوا جیل میں ہیں اس کا سیاسی نظام یا حکومت کو کیا فائدہ ہوا ہے اس کے بارے میں تو حکومتی نمائندے ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم جو زمین پر نظر آ رہا ہے اس کے مطابق تو اس پالیسی نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو نقصان زیادہ اور فائدہ کم پہنچایا ہے۔ پالیسی میں اگر تبدیلی لا کر گفت و شنید کے دروازے کھولے جاتے تو اس سے بہتر راہ نکل سکتی تھی، حکومت میں آکر وقت گزارنا کوئی معنی نہیں رکھتا اصل بات یہ ہوتی ہے کہ حکومت اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی کے لئے کچھ کر سکے۔

میرے نزدیک تو یہ اہم ترین وقت ہے کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا کے نئے میثاق جمہوری کی منظوری لی جائے۔ اِس وقت یہ تاثر عام ہے کہ سیاسی قوتیں اپنے فیصلے آپ کرنے کی جرأت و صلاحیت نہیں رکھتیں اور وہ بیساکھیوں کا سہارا لیتی ہیں،یہ چیز جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے لئے عوام کے عدم اعتماد کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ہر صورت میں اقتدار سے چمٹے رہنا اور پارلیمینٹ کی صحیح معنوں میں توقیر بحال نہ کرنا نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہے، بلکہ سیاست کو بازیچہ ئ اطفال بنانے کے مترادف ہے، اِس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کی ناکامی ہے سیاسی جماعتوں کی بھی اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی انتشار ہو یا بحران وہ خودبخود ختم نہیں ہو جاتے۔ ریاستی طاقت کے استعمال سے بھی معاملات کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ سیاست میں مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ کوئی نہ کوئی راستہ کھلا رکھنا پڑتا ہے۔ دنیا میں آج تک کہیں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کسی سیاسی بے چینی کو لاٹھی چارج، آنسو گیس یا گولی سے ختم کر دیا گیا ہو۔ یہ چیزیں تو بے چینی کو ہوا دینے کے لئے بنی ہیں تجربے بہت ہو چکے،77 برس بہت ہوتے ہیں بالا دستی برقرار رکھنے کے لئے اپنائی جانے والی حکمت عملی اب از کار رفتہ ہو چکی ہے۔ عوامی شعور کی دستک سنی جائے تو بہتر ہے۔ عوام اب دولے شاہ کے چوہے نہیں رہے وہ سیاسی شعور سے بہرہ مند ہو چکے ہیں۔انہیں دبانے کی بجائے ان کے شعور اور طاقت کو راست کی مضبوطی اور سیاسی استحکام کے لئے استعمال کیا جائے، لمحہ موجود کا پیغام یہی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کچھ پاک۔ بھارت جنگ 1971ء کے بارے میں (1)

leftenant carnal ghullam jilani khan

 

پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہرگز کسی امید افزاء دور کا عکاس نہیں۔ ایک افراتفری کا عالم ہے۔ میری عمر کے ”بزرگ شہری“ کے لئے یہ روز و شب کسی سہانے مستقبل کی نوید نہیں دیتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا ماضی اس کے حال سے کئی گنا بہتر تھا۔ اس ماضی میں ہمیں بہت سی ناکامیوں کا سامنا بھی ہوا۔ دسمبر 1971ء  میں ملک آدھا رہ گیا۔اس دور کی یادیں بڑی روح فرسا ہیں۔ 

ہماری دو نئی پودیں گزشتہ 55برس میں پروان چڑھیں۔ ان کے لئے 1971ء کی وہ شکست جو ہمیں انڈیا کے ہاتھوں اٹھانی پڑی بڑی غم اندوز تھی۔ لیکن سبق آموز بھی تھی۔ ہم نے اس شکست سے کوئی سبق کیوں حاصل نہ کیا، اس موضوع پر میری گفتگو میجر جنرل حکیم ارشد قریشی سے رہا کرتی تھی۔ لاہور کینٹ میں میرا گھر ان کے دولت خانے سے تقریباً دو اڑھائی فرلانگ دور تھا۔ ایک دن ان کا فون آیا اور کہا: ”کچھ فرصت ہو تو آکر مل جاؤ۔ دل کی بھڑاس نکالنی ہے“۔

میں گیا تو میرے سامنے اپنی ایک کتاب رکھ دی۔ عنوان تھا:

The 1971 Indo-Pak War (A soldier`s Narrative)

پھر پوچھا کہ کیا آپ نے یہ کتاب دیکھی ہے؟ میں نے کہا کہ دیکھی بھی ہے اور پڑھی بھی ہے۔بہت اچھی تحریر ہے۔ کہنے لگے آپ انگریزی تحریروں کا ترجمہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا اس کتاب کا ترجمہ کرو گے؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کہا کہ اس کا ترجمہ پہلے دوحضرات سے کروا چکا ہوں۔ مجھے پسند نہیں آیا۔ دونوں مترجم سویلین تھے۔ (ان کا نام لکھنا مناسب نہیں ہوگا)

میں نے گزارش کی کہ میں اس کے پہلے باب کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔ اگر پسند آئے تو آگے بڑھیں گے وگرنہ مجھے بھی پہلے دو مترجم حضرات میں شامل کر دیں۔

جنرل حکیم ارشد قریشی کا اگست 2008ء میں انتقال ہو گیا۔ یہ ترجمہ میں نے اوائل 2008ء میں کرکے ان کو دے دیا تھا۔ 2007ء میں یہ ایکسرسائز شروع ہوئی تھی۔ مرحوم بڑے باریک بین اور حساس آرمی آفیسر تھے۔میرے ترجمے میں کئی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا اور جب میں نے اس کا جواب پیش کیا تو خاموشی سے اس کو قبول کیا۔ آج اس پہلے باب کا ترجمہ قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ یہ ایک مختصر سا باب ہے اس لئے اس کی دو قسطیں کر دی ہیں۔

جنرل صاحب کی شخصیت کی بہت سی جہتیں تھیں …… وہ ایک انفنٹری سولجر تھے۔ 1954ء میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ ایس ایس جی کے کمانڈر رہے۔ 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ایک انفنٹری بٹالین (26ایف ایف) کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔ستارۂ جرائت کااعزاز اس جنگ میں حاصل کیا۔ جنگی قیدی رہے۔ 1973ء میں واپس پاکستان آئے۔ ان کو DG پاکستان رینجرز تعینات کیا گیا۔ یہ اولین باب اسی زمانے میں لکھا گیا۔ ان کی ذات میں ایک سکہ بند لکھاری بھی چھپا ہوا تھا۔ اس تحریر کو پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ گویا نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ رہے ہیں (فرق زبان کا ہوگا۔ ان کو انگریزی اور اردو زبانوں پر یکساں دسترس حاصل تھی۔ میرے ترجمے کی تعریف بھی کیا کرتے تھے اور اس کی تنقید میں بھی کسی رورعائت سے کام نہیں لیتے تھے)۔

آیئے اس کتاب کے پہلے باب کا پہلا حصہ دیکھئے اور جنرل مرحوم کی ژرف نگاہی کی داد دیجئے۔ وہ لکھتے ہیں:

وہ 15 اکتوبر 1985ء کا دن تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی اور نیلگوں آسمان شفاف تھا۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں ڈائریکٹر جنرل کی سرکاری رہائش گاہ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم پھڑپھڑا رہا تھا۔ فضا میں ایک ارتعاش سا تھا۔ میں نے اس دن واہگہ چیک پوسٹ کو وزٹ کرنا تھا۔ چند ہی روز پہلے میں نے پاکستان رینجرز کی کمان سنبھالی تھی۔ پورچ میں وہ رینج روور (Range Rover)کہ جس میں، میں نے واہگہ پہنچنا تھا، پارک کھڑی تھی، دھلی دھلائی، صاف اور بے داغ! اس کی چھت، بونٹ اور اطراف کے تمام حصے چمکیلی دھوپ میں نہا رہے تھے اور دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ وسیع و عریض گھر کے سو سالہ پرانے درخت، پالش کی ہوئی گاڑی پر منعکس ہو کر عجیب سماں باندھ رہے تھے۔ میں نے اپنی وردی پہننے کا آج بطور خاص اہتمام کیا تھا۔ چھاتی پر لگے میرے سارے میڈل ایک نمایاں انداز میں آویزاں تھے۔ میں باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔گارڈ نے جنرل سلیوٹ پیش کیا اور ہم سرحد کی طرف  روانہ ہو گئے۔

بی آر بی اور جی ٹی روڈ پر سے ہوتے ہوئے ہم بیس منٹ میں واہگہ پہنچ گئے۔ دوران سفر مجھ پر ایک گہرا تفکر طاری رہا۔ مجھے 1970ء کے تاریخ ساز واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگے…… مشرقی پاکستان میں میری پوسٹنگ، عام انتخابات، سرکشی (INSURGENCY)،  کاؤنٹر انسرجنسی، جنگ، غیر متوقع سرنڈر اور اس کے جلو میں آنے والی تحقیر و تذلیل…… میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک بغیر کسی وارننگ کے رینجرز کے گارڈ روم کے سامنے سرحد سے کچھ پیچھے میری جیپ ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ یوں لگا جیسے میں کسی خواب سے بیدار ہو گیا ہوں۔………… میں گاڑی سے باہر نکل آیا۔

میں نے جونہی زمین پر قدم رکھا، ایک تیز شور مجھے تفکر سے حقیقت کی دنیا میں لے آیا۔ بگل بج رہے تھے، کمانڈز کے بھاری بھرکم الفاظ کی گونج فضا میں بلند ہو رہی تھی اور وہ گیٹ جو سرحد کے عین اوپر دونوں طرف واقع تھے، ایک زوردار چھناکے کے ساتھ کھول دیئے گئے تھے……  میرے لئے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا۔ میں یکدم چونک اٹھا اور حقیقت کی دنیا میں لوٹ آیا۔ 

سرحد کے دونوں طرف بارڈر کی محافظ فورسز(BSF) کے تقریباتی گارڈز کھڑکھڑاتی وردیوں میں ملبوس کھڑے تھے۔ یہ ایک غیر مرقومہ روائت تھی کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے نئے ڈائریکٹر جنرل اپنے پہلے دورے پر واہگہ آئیں گے تو دونوں اطراف کے گارڈز ان کو سلامی دیں گے۔ 

میں رینجرز کے دستے کی طرف بڑھا۔ یہ سب خصوصی طور پر منتخب کئے ہوئے لوگ تھے، چھ فٹ سے لانبے قد، چھریرے بدن، چہروں پر ایک سپاہیانہ افتخار اور ہونٹوں کے اوپر گھنی سیاہ مونچھیں ان کی وجاہت میں اضافہ کر رہی تھیں۔ کلف لگی کڑکڑاتی شلواریں اور قمیضیں اور سروں پر خوبصورتی سے باندھی گئی دلکش پگڑیاں....... ایک  قابل دید منظرتھا!

میں نے پہلے اپنے رینجرز کا ریویو کیا اور پھر بھارتی سرحد کی طرف بی ایس ایف کی انسپکشن کیلئے چل دیا۔ میرے رگ و پے میں ایک سنسناہٹ سی دوڑنے لگی۔ گردش ایام مجھے بارہ برس پیچھے لے گئی۔ میں نے ایک جست میں کئی برسوں پر محیط یادوں کا سفر مکمل کر لیا تھا۔ بارہ برس پہلے میں نے اسی سرحد کے گرد و پیش کو یاد رکھا تھا۔ لیکن اس وقت آنے کا مقصد اور سمت آج کے مقصد اور سمت سے بالکل مختلف تھے۔ ماضی اور حال میں کتنا فاصلہ تھا!…… میں نے بھارتی دستے کا بغور معائنہ کیا۔ انہوں نے بھی اس انسپکشن کے لئے خاص اہتمام کر رکھا تھا۔ وہ بھی خاصے اچھے تھے لیکن اتنے رعب دار نہیں تھے جتنے کہ رینجرز۔میں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے ریمارکس قلمبند کئے، پھلوں کی ایک ٹوکری اور ایک لفافہ گارڈ کمانڈر کو دیا جس میں کچھ نقدی تھی (یہ سب معمولات کا حصہ تھا) اور پھر اپنی سرزمین ”پاکستان“ میں واپس آ گیا۔

یہ تجربہ بے مثال تھا۔ جذباتیت سے بھرپور، ماضی کی آغوش میں پہنچا دینے والا اور تلخ، ترش اور شیریں یادوں سے معمور!....... میں 17 اکتوبر 1973ء کو واہگہ میں پہلی بار آیا تھا۔ تب میں بھارت کی طرف سے پیدل چل کر اپنے ملک آ رہا تھا جہاں ایک جوائنٹ چیک پوسٹ پر میرے رفیقانِ کار اور دوستوں کی لمبی قطار کھڑی تھی۔ ان میں سے بعضوں کے چہرے تنے ہوئے اور افسردگی کے حامل تھے اور بعضوں کے لباس پر سیاہ رنگ کی پٹیاں بھی بندھی ہوئی تھیں۔

میں اللہ رب العزت کی شانِ بے نیازی اور اس کے کارخانہء قدرت کی نیرنگیوں پر حیران تھا۔ میرے سارے جسم میں ایک لرزشِ خفی دوڑنے لگی…… سب عزتیں اور سب ذلتیں رب کریم کی عطا ہیں۔......... و تعز من تشا و تذل من تشا!(جاری ہے)

 

 

 

 

 

 

 

لاہور پولیس کی موثر حکمت عملی کام کر گئی

younas bath

 

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے میانوالی،بہاول پور، فیصل آباد اور اسلام آباد کے ڈی چوک، کے بعد ایک روز قبل لاہور کے مینار پاکستان پر احتجاجی مظاہرہ کی کال دی گئی۔ پنجاب کے ان تینوں اضلاع اور ڈی چوک اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور گرفتاریوں سے یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ پی ٹی آئی لاہور میں بھی ایک کامیاب احتجاج ریکارڈ کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔مگر ایسا نہیں ہو سکا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب سمیت لاہور کی قیادت شہر لاہور میں احتجاج کی کال دینے کے بعد روپوش ہو گئی۔بتایا گیا ہے کہ روپوش ہونے والی قیادت میں پی ٹی آئی پنجاب کے قائم مقام صدر حماد اظہر، پی ٹی آئی لاہور کے صدر شیخ امتیاز، میاں اسلم اقبال اور دیگر شامل ہیں، قیادت کے روپوش ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے کارکن کنفیوز رہے کہ وہ بغیر قیادت کے کس طرح احتجاج کیلئے مینار پاکستان پہنچیں گے اور احتجاج کی قیادت کون کرے گا۔دوسری بڑی وجہ پولیس افسران بالخصوص آئی جی پولیس اور لاہور پولیس کے افسران کو وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی جانب سے سختی سے یہ احکامت جاری کیے گئے تھے کہ احتجاج کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہونا چاہیے۔کیونکہ اسی طر

مزید :

رائے -کالم -