تحریکِ عدم اعتماد اور عمران خان کا سرپرائز 

تحریکِ عدم اعتماد اور عمران خان کا سرپرائز 
تحریکِ عدم اعتماد اور عمران خان کا سرپرائز 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


دیکھا پھر عمران خان نے کیا اور کیسا سرپرائز دیا ہے‘ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ ’نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرتے‘ اسمبلی قائم رہتی اور وہ اگر معاملات کو نہیں سنبھال سکے تھے تو کوئی اور ان کی جگہ لے لیتا جو حکومتی امور چلانے کے قابل ہو۔ تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے انہوں نے قومی اسمبلی ہی توڑ دی یعنی نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ہے تو واقعی سرپرائز لیکن بڑا عجیب سا لیکن اس کے نتیجے میں جو قانونی موشگافیاں پیدا ہوں گی اور جو آئینی مسائل جنم لیں گے‘ میرا خیال ہے کہ وہ تادیر ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ اپوزیشن نے عدالت سے رجوع کرنے کی ٹھانی ہے اور چیف جسٹس صاحب نے اس معاملے کااز خود نوٹس لیتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دے دیا‘ یہ سطور آپکی نظروں کے سامنے آنے تک کیس کی سماعت شروع کر چکی ہوگی۔ اب دیکھیں اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔
قانونی اور آئینی حوالے سے یہ سوال بڑا اہم ہو گا کہ اس وقت وزیر اعظم اسمبلی توڑنے کا مجاز ہو سکتا ہے‘ جب اس کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی جا چکی ہو؟ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ یہ دیکھنے کے لئے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ فی الحال معاملات یہ ہیں کہ جو یہ سوچا گیا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد والا معاملہ ختم ہو جائے گا تو کچھ آسانی اور آسودگی ملے گی اور لوگ سکھ کا سانس لے سکیں گے لیکن عمران خان کے سرپرائز کی وجہ سے اب شاید ایسا ممکن نہ ہو سکے۔ یوں اس مسئلے کی وجہ سے عوامی سطح پر جو تناؤ اور کھنچاؤ پیدا ہو رہا تھا‘ اس کا خاتمہ ابھی ممکن نظر نہیں آتا۔ ایک چھوٹے سے آئینی معاملے کو اتنا کھینچا گیا‘ اتنا کھینچا گیا کہ ایک مہینہ اسی میں گزر گیا۔ 


اس ”سرپرائز“ کے بارے میں عدالت جو فیصلہ کرے گی‘ وہ تو کرے گی ہی‘ اتنی دیر میں آئیے کچھ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ یہ پرکھتے ہیں کہ خان صاحب کے گزشتہ ساڑھے تین‘ پونے چار سالوں میں کیا کھویا کیا پایا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی حکومت کی ناکامی کی دس بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی‘ انہوں نے اپنی سوچ اور نظریے کو تبدیل کیا اور اپنی سیاسی پارٹی کے ذریعے عوامی سوچ میں تبدیلی لا کر اپنے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے بجائے الیکٹ ایبلز پر انحصار کیا۔ الیکٹ ایبل ہونے کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے اور یہ قیمت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے اب چکائی ہے۔ دوسری وجہ حکمرانی کے لئے مناسب ٹیم کا انتخاب نہ کرنا ہے۔ اس حوالے سے ان کے وہ سب دعوے غلط ثابت ہوئے جو انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر شعبے کے لئے ماہرین کی ٹیمیں بالکل تیار بیٹھی ہیں‘ الیکشن میں کامیابی حاصل ہوتے ہی یہ ٹیمیں اپنا کام شروع کر دیں گی اور چند ماہ میں اس کے اثرات واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یہ سب دعوے درست ثابت نہ ہو سکے۔ حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ ان کی کسی بھی شعبے کے لئے کوئی تیاری نہ تھی۔ یہ صورت حال نااہلی کی شکل میں سامنے آئی۔ تیسری وجہ ان کے مشہورِ زمانہ یُو ٹرنز ہیں۔ اس سے عوام میں ان کی ساکھ متاثر ہوئی اور لوگ یہ سمجھنے لگے کہ وزیر اعظم اپنی بات کے پکے نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے بار بار یُو ٹرن لینے کی جو توضیحات اور توجیہات بیان کیں‘ وہ عوام کو پسند نہیں آئیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ لیڈرکو ہر بات تول کر کرنی چاہئے اور پھراس پرقائم رہنا چاہئے۔ چوتھی وجہ عمران خان کا بلا وجہ اپوزیشن کو بار بار‘ بات بے بات للکارنا ہے۔

وہ اگر سابق حکمرانوں کا احتساب کرنا چاہتے تھے‘ تو ضرور کرتے کہ عوام بھی یہی چاہتے تھے‘ لیکن یہ کام خاموشی سے بھی کیا جا سکتا تھا اور بہتر ہوتا کہ حکومت اس میں پارٹی نہ بنتی‘ احتساب کا کام جس ادارے کے ذمے ہے‘ اسے ہی کرنے دیا جاتا۔ مخالفین کو للکارے مار مار کر انہوں نے وزیر اعظم کے نہیں‘ اپنے بہت سے دشمن پیدا کر لئے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ عمران خان نے وہ دولت واپس لانے کے بلند بانگ دعوے کئے جو ان سے پہلے حکمران رہنے والوں نے بقول ان کے قومی خزانے سے لوٹے تھے اور بیرونِ ملک محفوظ جنتوں میں اکٹھے کر رکھے ہیں۔ اس پیسے کی ایک پائی بھی ساڑھے تین سالوں میں وطن واپس نہ لائی جا سکی جس سے قوم میں مایوسی پیدا ہوئی۔ چھٹی وجہ یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم کی عین ناک کے نیچے‘ ان کے بالکل سامنے غلط فیصلے ہوتے رہے جس کی وجہ سے ملک میں خوراک کے طور پر استعمال ہونے والی مختلف اشیا کی قلت پیدا ہوئی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھی‘ لیکن انہوں نے اس بد معاملگی کو درست کرنے کے لئے کوئی اقدام نہ کیا۔ ساتویں وجہ یہ ہے کہ ان کی حکومت نے بلا سوچے سمجھے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو بے تحاشا کم کیا۔ ان کا خیال تھا‘ یا انہیں کسی نے مشورہ دیا تھا کہ ڈالر کا ریٹ بڑھانے سے برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ کیسے ہو گا؟ میں نے تو بڑا غور کیا‘ مجھے تو سمجھ نہیں آئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کرنسی کی قدر کم ہونے سے ہر چیز مہنگی ہو گئی۔ آٹھویں وجہ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانوں کی تعمیر اور عوام کو فراہمی کا وعدہ پورا نہ کرنا تھا جس سے عوام میں مایوسی پھیلی۔ الٹا کورونا وبا اور دوسری کئی وجوہات کی بنا پر بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا جس کا نتیجہ غربت میں اضافے کی شکل میں سامنے آیا۔ نویں وجہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار تھی جس نے عام آدمی کی پہلے سے ہی کم آمدنی میں مزید کمی کر دی۔ اور بلا شبہ دسویں بڑی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی تھی۔ ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور مافیا دندناتا پھرا اور کوئی اس پر قابو پانے والا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان صاحب کو بطور وزیر اعظم بار بار مہنگائی کے بڑھنے کا نوٹس لینا پڑا‘ لیکن ہوتا یہ تھا کہ جس بات کا وہ نوٹس لیتے اسی میں اضافہ ہو جاتا۔ مہنگائی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ تھا جو مسلسل سامنے آتا رہا۔ اور اب قوم کو ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -