پرانے لاہور اور پرانے لکھنؤ میں بہت زیادہ مماثلت پائی، ہماری بیگمات نے بغاوت کردی اور ہمارے ساتھ جانے پر اصرار کرنا شروع کر دیا

 پرانے لاہور اور پرانے لکھنؤ میں بہت زیادہ مماثلت پائی، ہماری بیگمات نے ...
 پرانے لاہور اور پرانے لکھنؤ میں بہت زیادہ مماثلت پائی، ہماری بیگمات نے بغاوت کردی اور ہمارے ساتھ جانے پر اصرار کرنا شروع کر دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:186
 میں نے ایک دعوت میں شریک اپنے مرد دوستوں کو، جن میں چاند کے میاں راشد خان بھی شامل تھے، مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم پرانے لکھنؤ شہر میں جا کر وہاں کی مرزا رسوا کے شہرہ آفاق ناول کی ہیروئن مشہور طوائف اور پاکستانی اور بھارتی فلموں کے لازوال کردا ر امراؤ جان ادا کی نواسی کو تلاش کریں۔ ہماری یہ کانا پھوسی کسی نہ کسی طرح ایک خبر بن کر خواتین تک پہنچ گئی اور یہ بات ہماری بیگمات کو ذرا بھی پسند نہیں آئی اور انھوں نے بغاوت کردی اور ہمارے ساتھ جانے پر اصرار کرنا شروع کر دیا۔ اور یوں یہ سارا منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوگیا۔ ہمیں علم ہی نہ ہوا کہ مردوں کے گروپ میں یہ مخبری کس نے کی تھی۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اس لیے وہ ہمارے ساتھ ہولیں اور اب ہم سب ایک قافلے کی صورت میں لکھنؤ کے پرانے گلی کوچوں میں دیکھنے چل پڑے۔ میں نے پرانے لاہور اور پرانے لکھنؤ میں بہت زیادہ مماثلت پائی۔
ہمیں چاند کے عزیزوں سے متعارف کروایا گیا جن میں ان کے مذو بھائی بھی تھے جن سے میری ریاض میں ملاقات ہو چکی تھی۔ ہم نے چاند کے خاندانی گاؤں گڑھی کے بارے میں بہت سی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ یہ دریائے گنگا کے کنارے پر واقع تھا۔ مذو بھائی ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گئے جو لکھنؤ سے کوئی 25 کلومیٹر دور تھا۔ یہ سارا گاؤں ان کے خاندان کی ملکیت ہے۔ وہاں کام کرنے والے ملازموں نے ہار پہنا کر ہمارا استقبال اور مٹھائیاں پیش کر کے ہماری تواضع کی گئی۔ حیرت انگیز طور پر ان کے سارے ملازمین ہندو تھے۔ میں نے اس بات کو محسو س کرکے ایسے ہی ان سے پوچھ لیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے سارے لوگ ہندو ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے متعدد بار مسلمانوں کو کام پر رکھا لیکن وہ اتنے کام چور ہیں کہ ان کو نکالنا پڑتا ہے یا وہ اپنی تساہل پسند اور کاہل طبیعت کی وجہ سے خود ہی کام چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ میرے ذہن میں یہ بات آ رہی تھی کہ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلام نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ اپنے فرائض انتہائی ذمہ داری سے ادا کرنے چاہئیں لیکن آج کل کے مسلمان تو مذہبی اخلاقیات اور سماجیات کے بجائے فروعی مسائل کو اسلام سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہیں۔ یہ حالت کم و بیش دنیا بھر کے مسلمانوں میں مشترک ہے۔ چاند کے گاؤں میں شاندا ر کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا اور وہاں کے مہمان خانے میں ہمارے لیے آرام دہ کمرے بھی مختص کر دئیے گئے تھے جو بہت خوبصورت انداز میں بنائے اور سجائے گئے تھے۔ میں قریبی گنگا دریا کی طرف نکل گیا جو کوئی 30 فٹ گہرا تھا۔ میں ٹوہ لینے کی خاطر تھوڑا سا پانی میں اترا، تاکہ اس کو چُھو سکوں لیکن پھر فوراً ہی نکل آیا کیوں کہ یہ پانی بہت گندا تھا۔ ہندو عقیدے کے مطابق دریائے گنگا ایک بہت ہی مقدس دریا ہے جس میں اشنان کرنے سے سارے گناہ دھل جاتے ہیں، کوئی بہت ہی مضبوط عقیدے والا انسان اس میں نہانا پسند کرے گا۔ لیکن مذہبی عقائد بڑے مضبوط ہوتے ہیں اور اُن پر سوال نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ماننے والوں کا حق ہے۔ سارے بھارت کے دور دور کے علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں ہندو دھرم کے لو گ جوق در جوق گنگا میں اشنان کرنے کے لیے دریائے گنگا کے مختلف گھاٹوں پر پہنچتے ہیں، متعدد جگہوں پر اس کے کنارے مردے جلا کر اس کی راکھ بھی اسی دریا میں بہادی جاتی ہے۔
وہاں شب بسری کے بعد اگلے دن ہم لکھنؤ لوٹ آئے۔ یہاں کچھ خریداری کی اور پھر شتابدی ایکسپریس پر ہی واپسی کا سفر کرتے ہوئے دہلی واپس آگئے۔ ہمارے میزبان چاند اور راشد خان بھی ہمارے ساتھ ہی لوٹ آئے تھے۔ اس کے بعد ہم نے دہلی میں ایک دو دن مزید قیام کیا اور وہاں کی تاریخی عمارات دیکھیں جن میں لال قلعہ، شاہی مسجد اور قطب مینار شامل تھے۔ دہلی کے اس سفر نے ایک بار پھر ہمیں ریاض میں منعقد ہونے والی ایسی محفلوں کی یاد دلا دی۔ لیکن اس بار ہم تنہا تھے، اور ہمارے بچے اپنی اپنی دنیا ؤں میں سیٹ ہو نے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ہم ابتداء ہی سے چاند اور راشد کے بہت قریب تھے اور ہماری یہ دوستیاں اور محبتیں اب ہماری اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہو چکی ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -