عزیزِ جہاں۔۔۔ عزیز جاوید!

مشہورِ زمانہ فارسی ضرب المثل مصرع ہے :
کسب کمال کُن کہ عزیز جہاں شوی
آج کے کالم میں ایسی ہی عزیز ِ جہاں شخصیت ، عزیز جاوید کا ذکر مقصود ہے!
عزیز جاوید،میرے عزیز و قدیم دوستوں میں احترام کی منزل پر فائز تھے، مَیں اُن دِنوں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں بزمِ عروجِ ادب کا سیکرٹری جنرل تھا اور ہر ہفتے ادبی تنقیدی اجلاس کے لئے مشہور و معروف پڑھے لکھے صدرِ محفل کی ضرورت رہتی تھی، عزیز جاوید نے اپنا ایک دو ماہی ادبی جریدہ ’’آرگس‘‘ کے نام سے بُل روڈ سے جاری کیا تھا۔ یہ دفتر دراصل اُن کے عزیز ترین دوست، ہم نوالہ ہم پیالہ امان عاصم کا مکتبۂ ادبِ جدید تھا۔
اسی دفتر میں میری اکثر محفل جمتی، مَیں امان عاصم سے بے تکلفی کی حد تک قریب تھا اور عزیز جاوید پائپ میں ’’ آئرن مور‘‘ کا تمباکو خود ڈال کے کش لگاتے اور خوشبوئیں بکھیرتے رہتے، علم و ادب کی خوشبو، دانش و فضل کی خوشبو،اُن کے انتہائی بلند پایہ معیاری ادبی دو ماہی ’’آرگس‘‘ میں میری تحریریں چھپتیں تو میری خوشی دیدنی ہوتی۔مَیں عزیز جاوید کے علم و فضل سے مرعوب تھا اور اُن کی عام گفتگو جو کبھی عام نہ ہوتی، ہہ تن گوش ہو کے سُنتا۔
انہوں نے فارسی کے عظیم شاعر بیدل کو گھول کے پی رکھا تھا،انگریزی کے اساتذۂ سخن کا کام نظم و نثر، دونوں میں، اُن کی ذہن کی کھڑکیوں سے اُچھل اُچھل پڑتا تھا۔
ہم تمام محبوب اصنافِ ادب میں انہیں رَواں دیکھتے، وہ انتہائی سنجیدگی سے ہر سوال سنتے، زیر لب مسکراتے اور اپنی ’’مشکل پسندی‘‘ سے ہماری سطح پر آ کر بات سمجھاتے، تو سمجھ میں بھی بخوبی آ جاتی۔اس گراں قدر ادبی شخصیت کو جاننے، پہچانے والے اُس دور میں بھی خال خال تھے اور اب تو وہ خال خال بھی نہیں رہے۔
اُن کے قابل فخر فرزندِ دل بند تنویر جاوید صاحب ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔وہ عزیز جاوید کا ابتدائی مجموعہ کلام چھپوا چکے ہیں اور اب’’زچاکِ سینہ‘‘ کے عنوان سے ان کی بڑی کاوش منظر ادب پر لا رہے ہیں۔ آسکر وائلڈ کی خوبصورت نثری تحریر کو خوبصورت ترین اُردو میں ڈھالتے ہوئے بھی وہ اپنے محبوب ترین شاعر بیدل کو نہیں بھولے، بیدل کے ایک مصرعے:
زچاکِ سینہ آہے می نو یسم
سے کتاب کا عنوان کشید کیا ہے۔۔۔ اُن کا اپنا قول ہے:
’’ہر بات اتنی اہم نہیں ہوتی کہ اسے دُہرایا جائے‘‘۔
لیکن انہوں نے جارج بارو کے اس ارشاد کو حرزِ جاں بنایا ہے کہ:
’’ترجمہ اپنی بہترین صورتوں میں ایک صحیح اور مکمل صدائے باز گشت ہوتا ہے‘‘۔۔۔
’’زچاکِ سینہ‘‘ کے عنوان سے عزیز جاوید نے معیاری اُردو ترجمے کے ذریعے مکمل صدائے باز گشت صفحہ قرطاس پر ’’آرگس‘‘ میں قسط وار منتقل کی۔ مَیں نے ’’آرگس‘‘ میں پانچ چھ قسطیں پڑھ کر اندازہ لگایا تھا:
قیاس کُن زگلستانِ من بہارِ مَرا
ترجمے کی خوبصورتی اور لاثانی حُسن کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ میرے عزیز دوست مرحوم عزیز جاوید کا کِیا ہُوا ترجمہ ہے جو علم و ادب و فن کا سمندرتھے۔’’ادبی دُنیا‘‘ کے مُدیر مولانا صلاح الدین احمد جو بہت اچھے مترجم بھی تھے، کہا کرتے تھے ترجمے کے لئے ضروری ہے کہ ’’ترجمہ کرنے والا اُس زبان پر حاوی ہو جس سے وہ ترجمہ کر رہا ہے اور اُس زبان پر بھی حاوی ہو جس میں ترجمہ کر رہا ہے‘‘۔
اس میں شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں کہ عزیز جاوید، مولانا صلاح الدین احمد کے فرمان پر کما حقہ پورا اُترتے تھے۔ وہ ادب کی ہفت اقلیم کے فاتح تھے اُردو اور انگریزی کیا؟ شک ہو تو ’’زچاکِ سینہ‘‘ کو چشمِ دل سے اور گوشۂ خرد سے معمور ہو کر پڑھیئے۔۔۔!