بڑا آدمی. . .
صغیر ایک محنتی طالب علم ہے ۔ صغیر نے نرسری اور پرائمری پاس کر لیے ہیں۔ بہت نمبر لیے ہیں ہاں جی سارے امتحانوں میں اچھے نہیں بلکہ بہت اچھے نمبر لیے ہیں۔ صغیر کے ابا ایک دکاندار ہیں اور اپنے ہونہار بیٹے کی اس کامیابی پر بہت مطمئن ہیں۔ سارے امتحانوں میں اتنے اعلی نمبر جو لیے ہیں۔
بیٹا مجھے تم پر فخر ہے۔ صغیر کے ابا ایک دن اپنے ہونہار بیٹے کو پیار کرتے ہوئے بولے ۔
تمھارا کیا دل کرتا ہے تم کیا بنوگے؟
ابو میں خود بھی سوچتا رہتا ہوں کہ مجھے کیا بننا چاہیے۔ ویسے میرے نمبر تو اچھے ہیں کہ میں کچھ بھی بن سکتا ہوں۔ فیضاں کہہ رہا تھا وہ ڈاکٹر بنے گا۔ میں کیا بنوں ابو؟ ویسے ابھی پتہ نہیں چل رہا کہ کیا بنوں گا ۔
نمبر تو ماشااللہ بہت ہیں کچھ نہ کچھ تو بنوں گا۔ بیٹا تم ایک دن بڑے آدمی بنو گے یہ میرا دل کہہ رہا ہے۔ تم ضرور بڑے آدمی بنو گے۔
صغیر تجسّس سے ابو کی بات سن رہا ہے۔ گویا ابو کو خوب پتہ ہے کہ صغیر بڑا ہوکر کیا بننے جارہا ہے۔ابو بڑا آدمی کیسے؟ بیٹے تو نے بڑے بڑے لوگ دیکھے نہیں کیا؟ ایسے انجان بن رہا ہے تو ۔ وہ غفور صاحب گزرتے رہتے ہیں بازار سے۔ ہاں وہ بڑی گاڑی والے انکل؟ ابو کیا غفور صاحب بڑے آدمی ہیں؟ او بیٹا تم نہیں سمجھو گے۔ غفور صاحب اچھے آدمی ہیں۔
لیکن ابو فرخ اور گلو کے نمبر بھی مجھ سے زیادہ ہیں۔ وہ بھی تو کچھ نہ کچھ بنیں گے۔ تو کیا وہ مجھ سے بڑے آدمی بنے گے؟ بیٹا تم محنت کرو ان سے آگے نکل جاؤ گے۔ پھر تم ان سے بڑے آدمی بن جاؤگے۔وہ تمھارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ آخر تم بیٹے کس کے ہو؟
ابو مجھے پڑھنا کتنا ہے؟
بیٹا میں چاہتا ہوں کہ تم خوب پڑھو۔ جتنا تمھارا دل کرے۔ صغیر کی سمجھ میں یہ د ل کرنے والی بات کچھ آئی نہیں۔ابو یہ کھلاڑی کیسے بنتے ہیں میرا دل کرتا ہے میں کرکٹ کھلاڑی بن جاؤں۔ یہ کھلاڑی بڑے لوگ نہیں ہوتے کیا؟ ظہیر صاحب نے دکان سے کھانے کا ناغہ کیا ہوا ہے۔ بولے صغیر بیٹا دکان پر گاہک آئے ہوں گے۔ میں چلتا ہوں ۔ آپ پڑھو۔
صغیر نے ٹیویشن بھی رکھا ہوا ہے۔ مسجد بھی جاتا ہے اور مولوی صاحب سے درس بھی پڑھتا ہے۔ صغیر کے ذہن میں بار بار یہ سوال آرہا ہے کہ اس کو کیا بننا چاہیے۔ کتنا بڑا آدمی بننا چاہیے؟ فیصلہ خود صغیر نے کرنا ہے کیونکہ نمبر تو بہت اچھے آرہے ہیں ۔ چلیے ابو سے پوچھوں گا شام کو کہ اور کون کون بڑے بڑے لوگ ہیں، ہمارے جاننے والوں میں۔
نورین کے ابو آفیسر ہیں بڑی شیخیاں مارتی رہتی ہے۔ حیدر کے ابا اسکو سکول سے لینے آتے ہیں وہ بڑی گاڑی میں ۔ اس سے پوچھوں گا وہ کیا کرتے ہیں۔ یہ کھلاڑی بڑے لوگ کیوں نہیں ہوتے؟
ابو سے پوچھوں گا یہ آفیسر کیسے بنتے ہیں؟ ویسے ابو کو یقین تو ہے کہ میں بڑا آدمی ضرور بنوں گا۔ وہ داڑھی والے انکل جوہمارے گھر الیکشن کے دوران ووٹ مانگنے آے تھے وہ بڑے آدمی نہیں ہیں کیا؟ ویسا ابو نے ان سے کہا تھا کہ ووٹ تو انہی کو دیں گے لیکن جب وہ چلے گئے تو ابو ان کو گالیاں دے رہے تھے ۔
بڑے آدمیوں کو لوگ گالیاں دیتے ہیں کیا؟
لگتا ہے مجھے ڈاکٹر ہی بننا چاہیے۔ امی پچھلے ہفتے درد سے نڈھال ہوگئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت گولیاں دیں۔ امی کہہ رہی تھی، گولیاں کھائیں تو ہوش ہی نہیں رہا۔ڈاکٹر صاحب اچھے آدمی ہیں۔ امی بھی کہہ رہی تھیں۔
میرے ابو اچھے تو ہیں لیکن بڑے آدمی شاید نہیں ۔ پڑھا نہیں ہو گا میری طرح۔اپنے ابو سے تو میں لائق ہوں ۔ ابو کے نمبر تو بہت کم ہوں گے۔ ابو بھی نا ! ایسے ہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن میرے ابو ہیں تو اچھے آدمی۔
سر شاہد ہمیں کتنے پیار سے پڑھاتے ہیں۔ وہ بھی اچھے آدمی ہیں۔ ابو سے پوچھوں گا سر شاہد بڑے آدمی ہیں کہ نہیں؟ ویسے ابو کو مجھ سے بڑی امید ہے ۔ انشا اللہ میں ایک دن ابو کی امیدوں پر پورا اتروں گا۔ ہر قیمت پر چاہے جو بھی کرنا پڑا۔ کرنا کیا پڑنا ہے بس پڑھنا ہی نہیں ہوتا کیا؟
مولوی صاحب سے ہی نہ پوچھا جائے یہ ہمارے گاؤں میں بڑے بڑے لوگ کون ہیں؟ مولوی صاحب کو غصہ آگیا تو؟ پچھلے ہفتے میرو کو مار مار کر ادھ مووا کردیا تھا۔ مولوی صاحب سے یہ سوال نہیں پوچھنا۔بلکہ کبھی بھی کوئی بے ہودہ سوال نہیں پوچھنا۔ شکر ہے اللہ کا آج تک مجھے تو ایک دو چھڑیوں کے علاوہ مار نہیں پڑی۔ لیکن رسک لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کل مس فرزانہ سے پوچھوں گا کہ ہمارے سکول میں بڑا آدمی کون ہے؟ پرنسپل صاحب تو ہوں گے کم از کم۔
امی کہہ رہی تھی یہ ٹی وی پر جو لوگ بیٹھ کر بحث کرتے ہیں وہ بڑے لوگ ہوتے ہیں۔لیکن یہ اچھے لوگ بھی ہوتے ہوں گے نا؟ کل ہی مس فرزانہ سے پوچھوں گا کہ یہ اچھے لوگوں اور بڑے لوگوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔