گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 73
مشرقی پاکستان کا اکثر علاقہ چپٹا اور مسطح ہے۔ شمال سے جنوب کی طرف ڈھائی سو میل کے علاقے میں صرف آٹھ فٹ کا ڈھلان آتا ہے چنانچہ گرمیوں میں یہاں کے دریاؤں کا پاٹ پانچ میل تک پہنچ جاتا ہے۔ سمندر کی لہریں دریاؤں میں نارائن گنج تک آجاتی ہیں۔ یہ جگہ ساحل سے سو میل دور ڈھاکہ کے قریب واقع ہے۔
غریب آفتاب کے وقت دریا کا یہ منظر دیدنی ہوتا ہے کہ ماہی گیروں کی کشتیاں صف اندر صف، حد نگاہ تک لہراتے ہوئے بادبانوں کے ساتھ آرہی ہیں اور جارہی ہیں۔ جال لہراتے ہیں اور کشتیاں دائرے بناتی ہوئی نکل جاتی ہیں۔ ماہی گیر جب رات کو روزی کا سامان پیدا کرلیتا ہے تو اپنی جگہ چھوڑ کر ہٹ جاتا ہے اور وہاں دوسرے ماہی گیر آجاتے ہیں۔ مچھلی اور ابلا ہوا چاول، مشرقی پاکستان کے لوگوں کی بنیادی خوراک ہے۔ کشتی بان گھروں کی طرف واپس لوٹتے ہوئے محبت کی شیریں نغمے، طوفانوں یا کشتیوں کی تیز رفتاری کے مقابلہ کے گیت الاپتے ہوتے ہیں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 72 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سندربن کی لکڑی نرم ہے اور کاغذ کے علاوہ دیا سلائی بنانے میں بھی بڑی کارآمد ہے ۔ ڈیلٹا کے اس حصہ میں جہاں گھنے جنگلات واقعہ ہیں۔ کوئی تین صدی پہلے ہالینڈ اور پرتگال کے بحری لٹیرے پناہ لیا کرتے تھے۔ یہاں ان کی محفوظ پناہ گاہیں تھیں۔ نیز لٹیرے سامان سے بھرے ہوئے جہاز خلیج بنگال میں سے پکڑ کر دیائے برہم ترا کے اس ڈیلٹا کی پرپیچ پناہ گاہوں میں لے آتے اور مال اسباب آئندہ استعمال کے لئے چھپا کر چلے جاتے تھے۔ یہاں کے جنگل میں حال ہی میں پرتگال کے بحری لٹیروں کی ایک پرانی عمارت کے آثار ملے ہیں۔ جن کا ایک حصہ سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ ڈھاکہ میں ایسی پرانی عمارتیں اب بھی موجود ہیں جنہیں پرتگالیوں نے تعمیر کیا تھا۔ یہاں بہت سے لوگوں کے نام پرتگالیوں کے ناموں سے ملتے جلتے ہیں ممکن ہے کہ انہوں نے عیسائی مذہب قبول کرکے ایسے نام رکھ لئے ہوں یا ان کے آباؤ اجداد پرتگالی ہوں۔
سندر بن کے جانوروں اور پودوں کا حال رقم کرنے کے لئے کئی جلدوں کی طوالت اور نباتات اور حیوانات کے ایک ماہر کا علم درکار ہے۔ میں ان دنوں میں سے ایک عالم کا بھی دعویدار نہیں۔ تاہم یہاں یہ کہنا کافی ہوگا کہ اس جنگل میں سیاہ دھاریوں والا شیر جسے بنگال ٹائیگر کہتے ہیں، آج بھی بکثرت پایاجاتا ہے۔ یہ سندر بن کا بادشاہ ہے اور جنگلی ہرنوں کے شکار سے پیٹ بھرتا ہے۔ جب دریا میں جزر کی کیفیت ہوتی ہے تو جنگل کے جانور اپنی بلند پناہ گاہوں سے نکل کر باہر آجاتے ہیں۔ اس جنگل کو ٹرانامی ایک درخت پایا جاتا ہے جس کی پتیاں ہرن بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ بندر اس درخت کی شاخوں پر جھولتے ہیں تو پتیاں ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرتی ہیں اور جب ہرن انہیں کھانے کے لئے آتے ہیں تو بندر خوب شور مچاتے ہیں۔ ان کے شور سے شیر کو پتا چل جاتا ہے کہ اس کا شکار درخت کے نیچے ہے۔ وہ جھٹ وہاں پہنچ جاتا ہے۔ بعض مقامی شکاریوں کا دستور ہے کہ وہ درختوں پر چڑھ کر بندر کی آواز کی نقل اتارتے ہیں۔ شیر یہ آواز سنتے ہی وہاں پہنچتا ہے، لیکن شکار کے لذیذ لقمہ کے بجائے شکاری کی گولی اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق اس جنگل میں شیروں کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہے لیکن جنگل کے اندر چونکہ گھسنا ممکن نہیں اس لئے یہاں شیر کا شکار نہایت مشکل ہے۔ شیر بوڑھا ہوکر آدم خور بن جاتا ہے کیونکہ ہرن اپنی پھرتی کے سبب اس کی گرفت میں نہیں آتے۔ مسٹر یوسف احمد نے جو میرے زمانہ میں جنگل کے چیف کنزرویٹر تھے، کئی شیر مارے تھے۔
سندر بن کی ایک سیر میں انہوں نے ہمیں شیر کے شکار کی بہت سی کہانیاں سنائیں۔ شیر دریاؤں میں بالکل دریائی گھوڑے کی طرح تیرتا ہے۔ جنگل کے مزدور حفاظت کے خیال سے رات بسر کرنے کے لئے اپنی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں چلے جاتے ہیں لیکن آدم خور شیر ساحل سے کشتی کی رسیاں کھینچتا ہے اور جب کشتیاں قریب آجاتی ہیں تو ان پر حملہ کردیتا ہے ۔ بعض آدم خور شیر تیر کر بھی کشیوں تک پہنچ جاتے ہیں اور کشتی میں سے ایک آدھ آدمی کو گھسیٹ کر لے آتے ہیں۔ یوسف احمد نے بتایا کہ ایک مزدور جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ دفعتاً ایک آدم خور شیر نے اسے پیچھے سے آکر دبوچ لیا لیکن دوسرے مزدور لاٹھیاں لے کر اس پر پل پڑے اور انہوں نے اپنے ساتھی کو بچالیا۔ زخمی مزدور کو ایک کھلی ڈولی میں ڈال کر جب وہ لوگ روانہ ہوئے تو شیر بھی ان کے پیچھے چپکے چپکے چلا۔ اسے اپنے شکار کے چھن جانے کا بڑا قلق تھا۔ دریا کے کنارے پہنچ کر مزدوروں نے اپنے زخمی ساتھی وک وہیں چھوڑا اور کشتی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ شیر اسی موقع کا منتظر تھا۔ وہ تیر کی طرح آیا اور اپنے شکار کو لے یہ جا، وہ جا۔
شیر وہاں ایک سال کے اندر اوسطاً ساٹھ مزدوروں کو ہلاک کردیتے ہیں اور مزدور اوسطاً تیس شہروں کا شکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ شیر کے پنجوں کے نشان تلاش کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک موزوں جگہ پر بندوق باندھ کر رکھ دیتے ہیں۔ْ شیر جب اپنے مقررہ راستہ سے گزرتے وقت رسی کو چھوتا ہے تو بندوق کی لبلبی رسی کے زور سے کھنچ جاتی ہے اور بندوق چلتے ہی شیر ڈھیر ہوجاتا ہے۔
یہ نے رات کے کھانے سے فراغت کے بعد یہ کہانیاں سنیں تو سوچا کہ اب بھلا کون گہری نیند سوسکے گا۔ اس وقت میری اینڈرسن پانی کے بیچ دھارے میں کھڑی تھی اور آس پاس کے جنگل میں چاروں طرف شیر دھاڑ رہے ہیں۔ جب شیر دھاڑتا ہے تو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آواز کس طرف سے آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر جانور بھاگ کر شیر کی طرف چلے جاتے ہیں اور وہ اپنا لقمہ بنالیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شیر کے خوف سے ان کے حواس مختل ہوجاتے ہوں گے۔ میرے ذہن میں یہ کہانیاں تازہ تھیں۔ اس لئے رات میں ایک دو بار سوتے سے آنکھ کھل گئی اور میں نے مچھر دانی میں سے باہر گھو کر دیکھا کہ آس پاس کہیں شیر تو نہیں۔ پولیس کا سنتری پہرے پر تھا اور شیروں کے خوف سے وہ کچھ زیادہ ہی چوکنا تھا۔
سندر بن میں شیر مارن ابہت مشکل ہے کیونکہ یہاں خاردار زہریلی جھاڑیوں میں سے گزرنا بہت دشوار ہوتا ہے لیکن میرے مقدر کا ستارہ بلندی پر تھا۔ ہم لوگ ہر روز میری اینڈرسن سے اترکی چھوٹی چھوٹی لانچوں میں سوار ہوجایا کرتے تھے تاکہ ڈیلٹا کے اندر گھنے جنگل کے سرسبز خطہ میں دور تک سیر کریں۔ وہاں کا ماحول بڑا لرزہ خیز اور پراسرار تھا۔ ایک بار ہم اپنی چھوٹی سی لانچ کی چھت پر بیٹھے دھوپ سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک بھینس کی طرح کا ایک جانور بائیں جانب کی ایک ملحقہ نہر کو پار کرتا ہوا نظر آیا۔ وہ جانور اب کنارے پہنچ کر بیٹھ گیا تھا جہاں دریا کی ایک شاخ کوئی سوگز کے فاصلہ پر اس ندی سے جاملتی تھی، جس میں ہم سفر کررہے تھے۔ اچانک ہمیں بنگالیوں کا شور سنائی دیا۔ ہم نے اپنی بندوقیں تان لیں کہ ممکن ہے کسی ہرن کا شکار ہاتھ لگ جائے لیکن یہ بات ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھی کہ وہاں شیر آجائے گا کیونکہ شیر بالعموم غروب آفتاب کے بعد ہی نکلتا ہے۔ مجھے رائفل سے شکار کی مہارت نہیں لیکن میں نے اپنی بندوق سے شیر کے شانوں کا نشانہ لے کر چار مرتبہ گولی چلائی۔ اس وقت وہ دریا میں تیررہا تھا۔ گولی کھا کر وہ بڑی مشکل سے دریا کے کنارے پر پہنچا۔ ہماری لانچ بھی پیچھا کرتی ہوئی وہاں جاکر پہنچی اور میں نے دو گولیاں اور ماریں۔ شیر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اگر وہ جنگل میں سوگزدور بھی نکل گیا ہوتو تو ملک زخم کھانے کے باوجود کوئی شخص اسے جنگل سے کھینچ کر لانے کی ہمت نہیں کرتا۔ یوسف احمد نے مجھے بتایا کہ اس طرح کا اتفاق لاکھوں بار کے تجربہ میں کہیں ایک دفعہ میسر آتا ہے۔
شیر کے بدن پر چربی بہت تھی جو بعد میں بڑے کام آئی۔ ڈھاکہ میں میرے اعزازی سرجن میجر ایلن سن نے ایک روز مجھ سے کہا کہ ’’میں آپ کے گھٹنے کا درد رفع نہیں کرسکتا لیکن ا گر آپ شیر کے مرہم کی بدبو برداشت کرسکیں تو درد یقیناًجاتا رہے گا، براہ مہربانی مجھ سے اس کی وجہ نہ پوچھیے۔ شیر کی چربی چھ مہینا سے زیادہ پرانی نہیں ہونی چاہیے۔ ورنہ اس کی افادیت ختم ہوجائے گی۔‘‘ وہ میرے لئے تھوڑا سا مرہم لائے۔ میں نے اتوار کے روز اپنے گھٹنے میں مالش کرائی اور کوئی دو گھنٹہ روئی سے ڈھانکے رکھنے کے بعد مرہم دھو ڈالا۔ یہ عمل ہفتے میں دو دن دہرایا گیا اور بالآخر درد جاتارہا۔ اس کے بعد میں نے اپنے شکار کی چربی بھی استعمال کی اور پھر اس وقت 1951ء سے آج تک کبھی درد کی شکایت نہیں ہوئی۔(جاری ہے)