قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 103
میرے دوست احمد راہی کا ذکر تفصیل سے الگ کروں گا۔ لیکن یہاں ان کی پینے کے بعد کی عادت کا ذکر کروں گا۔ وہ جب پی لیتے تھے تو انہیں امر تسر اور اپنی ماں کی قبر یاد آجاتی تھی۔ ان کے تحت الشعور میں یہ دونوں چیزیں رچی بسی ہوئی تھیں اور جب زیادہ پی لیتے تھے تو یہی موضوع لے بیٹھتے تھے۔ یہ احساس ان کی نظموں میں بھی نظر آتا ہے ۔ جب یہ امرتسر گئے تھے تو انہوں نے ایک نظم کہی تھی جس نے امرتسر والوں کو رلا دیا تھا ۔ اس نظم میں انہوں نے امرتسر میں اپنے بچپن اور ماں کی قبر کا ذکر کیا تھا۔ یہ پی کر ماں کی قبر کا ضرور ذکر کرتے تھے۔ یہ ان کی عادت میں شامل تھا۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 102 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرے یہ بھائی اس زمانے میں مسرت نذیر پر عاشق تھے۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ مسرت نذیر پر ان کے عشق کا کیا اثر تھا۔ ایک دن ہم ملکہ سٹوڈیو مسلم ٹاﺅن میں شوٹنگ کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے ۔ احمد راہی اسی موڈ میں آگئے ۔ چونکہ مسرت نذیر کی شوٹنگ تھی۔ اس لیے وہ کسی چھوٹے سے واقعہ پر دل برداشتہ ہو کر وہاں سے چلے گئے۔ خیال تھا کہ باہر گئے ہوں گے ۔ باہر دیکھا تو وہاں نہیں تھے۔ بہت تلاش کیا لیکن نہیں ملے۔ آخر ان کے ایک دوست ماڈل ٹاﺅن کی طرف سے آرہے تھے انہوں نے بتایا کہ یہ ماڈل ٹاﺅن سے آگے کہیں پیدل جا رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ راہی صاحب کدھر جا رہے ہو۔ کہنے لگے کہ اس مسرت نذیر نے مجھے دل شکستہ کر دیا ہے اور اب اس ملک میں رہنے کو جی نہیں چاہتا ۔ اس لیے امرتسر جا رہا ہوں۔ وہاںماں کی قبر سے لپٹ کر کہوں گا کہ میرے ساتھ یہ ہوا ہے ۔ چنانچہ ان کی یہ عادت یہاں تک پہنچ گئی کہ معاشقے میں بھی ان کا ماں کی قبر سے لپٹ کر رونے کو جی چاہا۔
منیر نیازی اپنے ترک وطن کے بعد منٹگمری میں آکر آباد ہو ئے۔ ان کی فیملی بھی ان کے ساتھ تھی ۔ ان کا ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں حصہ تھا لیکن ان کا جی کاروبار میں نہیں لگتا تھا۔ یہ اکثر لاہور آجایا کرتے تھے۔ انہوں نے منٹگمری سے ایک پرچہ بھی نکالا تھا۔ لاہور میں یہ پتھروں والی کوٹھی میں رہتے تھے جسے اس کے مالکان ہوٹل کے طورپر چلاتے تھے۔خوبصورت کوٹھی تھی اور کرایہ بھی کم ہی تھا۔ منیر نیازی کا اس زمانے میں پرابلم پبلک ریلیشنگ تھا۔ الگ الگ لوگ وہاں آکر رہتے تھے۔ یہ آتے تھے اور بہت سی بیئرخرید کر رکھ دیتے تھے۔ اور کار آمد لوگوں کو بلا کر بیئر پلاتے تھے۔ یہ ان کا تعلقات بڑھانے کاذریعہ تھا۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 102
اسی پتھروں والی کوٹھی کے اوپر ایک فلم پروڈکشن کا دفتر تھا میں اس میں بیٹھا فلم ”امانت “ کے گانے لکھ رہا تھا تو آتے جاتے منیر نیازی سے ملاقات ہوتی تھی۔ کئی بار انہوں نے کہا کہ آﺅ بیٹھ کر بیئر پیتے ہیں۔ میں شروع سے ہی مفت خوری کا عادی نہیں تھا۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ منیر کا ایک مقصد تو پبلک ریلیشنگ ہے ۔ دوسرا کچھ مفت خور ے جو اس کے کام ابھی نہیں آسکتے وہ بھی یہاں آکر اس سے کھاتے پیتے ہیں۔ اس لیے میں کیوں ان مفت خوروں میں شامل ہو جاﺅں۔ نہ تو میں اس طرح منیر نیازی کے کام آسکتا ہوں جس طرح یہ چاہتے ہیں اور نہ میں مفت خورا ہوں۔ چنانچہ میں نے ان کے ساتھ یہ سلسلہ روا نہیں رکھا۔ جب یہ ذرا آگے بڑھے اور عام شاعر کی حیثیت سے آگے آئے تو مجھے فخر ہے کہ ان کے ایک میزبان کی حیثیت سے میرا نام بھی آتا ہے۔ یہ کافی دنوں تک میرے گھر پر رہے اور مجھے انہوں نے عزت بخشی۔
انہیں میں نے دیکھا کہ ویسے تو ان پر وارفتگی طاری رہتی ہے لیکن حساب کتاب میں پینے کے بعد یہ بہت ہوشیار ہو جاتے ہیں اور میں نے کسی کو پینے کے بعد ان سے زیادہ ہوشیار نہیں دیکھا۔ ایک بار ہم کوئٹہ میں ایک مشاعرے میں گئے ہوئے تھے ۔ یہ رات سے ہی بہت پی رہے تھے اور جب صبح ہوئی تو بھی پی رہے تھے۔ جب چیک دیئے گئے تو سب نے چپ چاپ جیب میں ڈال لیے۔ جب چلنے لگے تو منیر نیازی کہنے لگے کہ سب لوگ ٹھہرو ۔ ان چیکوں پر تو دستخط ہی نہیں ہوئے۔ اس سے پہلے یہ عالم تھا کہ چونکہ یہ NEATہی پی رہے تھے اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ کہیں انہیں اٹھا کر ہی نہ لے جانا پڑے لیکن چیک دیکھنے کے بعد ان کے سارے حواس مجتمع ہو گئے۔ سب نے چیک نکال کر دیکھے تو واقعی ان پر دستخط نہیں تھے۔ چنانچہ شراب پی کر ان کے شعور اور تحت الشعور دونوں بیدار ہو جاتے ہیں اور یہ اسی بیداری کا نتیجہ ہے کہ ہم اس روز پریشانی سے بچ گئے۔
دبئی میں چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ یہ اسی طرح پی رہے تھے۔ پیتے پیتے کچھ اراضی کی الاٹمنٹ کا ذکر چلا ۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں منیر نیازی کو بھی حنیف رامے صاحب نے ایک مربع زرعی اراضی الاٹ کی تھی۔ اس کا ذکر آیا تو نجانے انہیں کیا سوجھی اور شاید یہ بتانا چاہا کہ انہوں نے بھٹو کا کاسہ لیس بن کر مربع نہیں لیا۔ چنانچہ انہوں نے بھٹو صاحب کو ماں کی گالی دی۔ ہم وہاں جس کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے وہ بھٹو صاحب کا حامی تھا۔ وہ کچھ کہہ بھی نہیں پایا۔ اس نے ان کی طرف گھور کر قہر آلود نظروں سے دیکھا۔ میں نے کہا یار منیر نیازی کسی کا خیال کرو اور اس طرح کی بات مت کرو۔ بھٹو کو اب تم گالی دو یا اس نے ایک ایسی ہستی کو گالی دی جس پر مجھے غصہ آیا اور میں نے کہا کہ دیکھو اب میرا بھی پارہ چڑھ سکتا ہے اس لیے اس بات کو چھوڑو۔ دراصل منیر نیازی صاحب نے پہلی بات کو بیلنس کیا اور یہ تاثر دیا کہ جیسے وہ یہ سب کچھ وارفتگی میں کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ منیر نیازی ساحب نشے میں ہو کر جتنے ہو شیار ہو جاتے ہیں اتنا ہو شیار میں نے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اول تو خدا کسی کو شراب پینے کی عادت نہ ڈالے لیکن اگر یہ عادت پڑ ہی جائے تو میری دعا ہے کہ خدا اسے نشے کے بعد منیر نیازی جیسی کیفیت دے کیونکہ اس سے نقصان کوئی نہیں ہوتا۔ یہ نشہ کر کے بھی چوکس رہتے ہیں۔ان کی نشے کی ایک اور عادت بھی دیکھی ، کہ اگر کسی جگہ انہیں بلالیا جائے اور میزبان ان کے سامنے بوتل رکھ دے تو یہ جتنی پی سکیں پی لیتے ہیں اور باقی لوگ تو نشے کی حالت میں وہاں اپنی چیزیں بھول آتے ہیں مگر یہ آتے ہوئے بے خودی و ہشیاری کی کیفیت میں باقی بچی ہوئی بوتل کو اپنے ساتھ گھر لے جانا کبھی نہیں بھولے۔
جب فلم ”قاتل “ بن رہی تھی اور میں انور کمال پاشا صاحب کی ٹیم میں مستقل طو ر پر کام کر رہا تھا۔ پاشا صاحب نے اپنے ادارے میں اچھے لکھنے والوں کو یکجا کیا ہوا تھا۔ چنانچہ سیف الدین سیف ، تنویر نقوی مرحوم اور میں ان کے ہاں شاعر کے طور پر کام کرتے تھے ۔ ہم یہ کام مل کر بھی کرتے تھے اور الگ الگ بھی کرتے تھے۔ ہم تینوں اس زمانے میں تھوڑی سی پیتے تھے۔ تنویر نقوی صاحب کا کچھ اور معاملہ تھا اور ان میں شراب سے ہٹ کر بھی کچھ عادتیں تھیں۔ سیف صاحب اور میں بہت کم مقدار میں استعمال کرتے تھے۔
پاشا صاحب بالخصوص مجھے کہتے تھے کہ آپ قوم کا سرمایہ ہیں اور یہ شراب واقعی خانہ خراب ہے اس لیے اس سے بچ کر رہئے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر یہ واقعی لت پڑ گئی تو آپ زیادہ پینے لگیں گے اور پھر شاعری دھری رہ جائے گی۔ میں کہتا تھا کہ پاشا صاحب میں کوئی عادی نہیں ہوں۔ ویسے ہی کبھی کبھی تھوڑی لے لیتا ہوں۔ وہ کہتے تھے کہ تھوڑی سے ہی زیاد ہ بنتی ہے۔ خیر یہ معاملہ چلتا رہا۔ اس کے کچھ عرصے بعد پاشا صاحب کو کھانسی کی شکایت رہنے لگی۔ وہ بہت شدید کھانستے تھے۔ پنجاب میں جسے کتا کھانسی کہتے ہیں وہ کھانسی انہیں ہو گئی تھی۔ کسی نے انہیں یہ علاج بتایا کہ سوتے وقت تھوڑی سی برانڈی پی لیا کریں۔
چنانچہ انہوں نے برانڈی پینی شروع کی۔ اس سے قدرے افاقہ ہوا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے سرور محسوس کر کے برانڈی بڑھانی شروع کی۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں جنسی بے راہروی آئی تو ان کی شراب نوشی بڑھتی گئی۔ ان کی زندگی میں جو قابل رشک کامیابیاں آئی تھیں وہ اب ناکامیوں میں تبدیل ہونے لگیں۔ کیونکہ پہلے تو یہ سرتاپاتخلیق میں ڈوبے رہتے تھے۔ ہر چند کہ انہوں نے ایک ٹیم رکھی ہوئی تھی لیکن مرکزی کردار انہی کا ہوتا تھا۔ جب زندگی میں بے راہروی شروع ہوئی تو یہ شراب بھی کثرت سے پینے لگے۔ تب انہوں نے اپنا کام بھی نائبین کے سپرد کیا جس کے بعد پے در پے ان کی فلمیں ناکام ہونے لگیں۔ جبکہ پہلے صورت یہ تھی کہ جب ان کی فلم اناﺅنس ہوتی تھی تو ڈسٹری بیوٹر اپنی تجوریوں کے دہانے کھول دیتے تھے ۔ اور پیسوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔ یہ بھی اپنے کارکنوں کو بہت خوش کرتے تھے۔ مگر ناکامیوں کے بعد یہ حال ہوا کہ یہ بھی کارکنوں سے حیلے بہانے کرنے لگے اور انہیں بھی کچھ غلط بیانی کی عادت ہو گئی۔ حالانکہ اس سے پہلے اس معاملے میں ان کی نیک نامی تھی۔ غرضیکہ شراب میں اتنا ڈوبے کہ نیک نامی بھی نہ رہی۔ اگر یہ آﺅٹ بھی ہو چکے تھے اور صرف کہانی یا مکالمے لکھتے تو بھی ان کے پاس جو فن تھا اس کے ذریعے کافی کما سکتے تھے۔
میں ایک طرح سے ان کاممنون احسان تھا۔ وہ یوں کہ اس زمانے میں اچھے شاعروں کا معاوضہ پانچ سو روپے فی گیت ہوتا تھا جو آج پانچ ہزار روپے سے زائد ہے۔ یہ مجھے اس زمانے میں پانچ سو کی بجائے چھ سو روپیہ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ پانچ سو روپے تو گیت کے ہیں اور ایک سو روپیہ شاعر قتیل شفائی کے لیے میرا نذرانہ ہے۔ پھر جب کبھی میری ضرورت آجاتی تو ناز برداری کرتے تھے۔جب ان کی شراب سے یہ کیفیت ہو گئی تو مالی حالت خراب ہو گئی۔ لوگ ان سے دور دور رہنے لگے۔(جاری ہے)