کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب!
ہم زندگی کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں جھوٹ کو ہر شعبہ میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا ہے لیکن رانا ثناء اللہ نے آخر کار یہ جان ہی لیا کہ عمران خان کی زندگی کا مقصد اتنا جھوٹ بولنا ہے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں لیکن رانا ثناء اللہ کی بات پر لوگ زیادہ یقین نہیں کر رہے تھے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے عمران خان کے خلاف جو چارج شیٹ جاری کی گئی اس پر قوم کے 95فیصد افراد نے من و عن یقین کر لیا ہے اور کرنا بھی چاہیے کہ یہی تو ایک ایسا ادارہ ہے جس کے بل بوتے پر ہماری حقیقی آزادی قائم ہے اور ہم ایک چھوٹے سے ملک میں بڑے آرام اور بے فکری کی زندگی بسر کررہے ہیں۔غالب نے کہا تھا
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب،شرم تم کو مگر نہیں آتی
عمران خان کو اس کھلی چارج شیٹ کے بعد سمجھ لینا چاہیے کہ گزشتہ مارچ سے اب تک کی اس کی ساری سیاسی زندگی کا جھوٹ طشت ازبام ہو چکا ہے اس لئے اس صورتِ حال کے باوجود اگر کسی کو شرم نہیں آتی تو اسے اپنی سماجی اور سیاسی حیثیت کا اندازہ از خود کر لینا چاہیے لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ اپنے اعمال پر سے پردہ اٹھ جانے کے بعد بھی وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اتنا کچھ جانتے ہیں جس کا بتانا قوم اور ملک کے حق میں نہیں ہے ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ نے جو کچھ پہلے کہا اور کیا ہے وہ کب قوم اور ملک کے حق میں ہے۔ اقتدار سے محرومی کے وقت تم اور تمہارے قریبی ٹولے نے جو آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیریں کیا وہ سب کچھ قوم اور ملک کے حق میں تھا۔ عمران خان کا عالم یہ ہے کہ جس اسمبلی میں وہ اب بیٹھنا نہیں چاہتے اس کے لئے ضمنی الیکشن بھی لڑ رہے ہیں اور نئے الیکشن کا جلد مطالبہ بھی کر رہے ہیں اور خواب یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو کر ایسی حکومت بنائیں گے جس میں کسی کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ ایسا ہونا اب قطعی طور پر ناممکن ہے کیونکہ حماقتوں پر مبنی بیانیوں سے تمام اداروں کو اپنے مخالف کر لیا ہے جو ماضی قریب میں نہ صرف اس کے مددگار تھے بلکہ اسے اقتدار کی کرسی تک لانے میں معاون ثابت ہوئے تھے۔ موجودہ وزیراعظم شہبازشریف نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اداروں کی طرف سے جتنا لاڈ پیار اور ڈھیل عمران خان کو دی گئی ہے آج تک کسی کو نہیں ملی لیکن اس نے قدر نہیں کی بلکہ اس کے برعکس ان شخصیات اور اداروں پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد روکنے کے لئے آرمی چیف کو عمربھر کی توسیع دینے کی پیش کی لیکن آرمی چیف نے اسے مسترد کر دیا کیونکہ وہ جان گئے تھ
ے کہ جس شخص کی زبان اپنے قابو میں نہیں اور جس کی آنکھوں پر اقتدار کی ہوس نے پٹی باندھ دی ہے وہ کبھی بھی ان کا ان کے ادارے کا اور ملک کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا اور ان کی یہ سوچ سچ ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں فوج کے اعلیٰ ترجمانوں کو بھی اس صورت پر سے پردہ اٹھانا پڑا۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں سیاست دان آپس میں تو دست و گریباں ہوتے رہے ہیں لیکن کسی کو فوج جیسے انتہائی قابل احترام ادارے پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔ عمران خان کو اقتدار سے محرومی کے صدمے نے اس قدر عقل و دانش سے بیگانہ کر دیا ہے کہ اسے اچھے بُرے اور اپنے پرائے کی بھی پہچان نہیں رہی۔ یہ لوگ جو اس کے ساتھ بادل نخواستہ چل رہے ہیں وہ ابھی سیاست میں طفل مکتب کی طرح ہیں جو نہیں جانتے کہ وہ عمران خان کا ساتھ دے کر دہکتے کوئلوں پر ماتم کررہے ہیں۔ لانگ مارچ پر کوئی آفت آئی ہے فیصل واوڈا جو گزشتہ 20سال سے عمران خان کا ساتھ دے رہا ہے اس نے بھی تو اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ وہ لانگ مارچ میں خون ہی خون اور جنازے ہی جنازے دیکھ رہا ہے اور اس ممکنہ تخریب کاری کے خدشات کا اظہار کرنے پر تحریک انصاف نے ان کو یہ صلہ دیا کہ ان کی بنیادی رکنیت تک معطل کر دی ہے۔ اس اقدام سے عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے اندر ”انصاف“ کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔ اداروں کی طرف سے اس شخص کو جو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی تھی اس کا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ انہی اداروں اور انہی مہربان شخصیت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے مختلف غیر اخلاقی ناموں سے پکارا گیا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی ”کمر“ پر سے پردہ اٹھانا ان کے لئے ضروری ہو گیا تھا اور انہوں نے جو کیا وہ صحیح اور بروقت کیا۔
میرا دل چاہتا ہے کہ میں فوج کو اپنی وہ ماں کہوں جس نے نہ صرف قیام پاکستان کے وقت ماؤں، بہنوں، نوجوانوں، بیٹیوں اور شیرخوار بچوں اور تیرکمان جیسی کمر والے بزرگوں کو خونی سرحدوں سے نکل کر پاکستان کی پُرامن فضاؤں تک پہنچایا بلکہ اس لٹے پٹے، انسانیت کے قاتلوں کو سر چھپانے کے لئے گھر اور پیٹ پالنے کے لئے روزگار دیا۔ 14اگست 1947ء سے لے کر آج تک اس انتہائی قابل احترام ادارے نے اس قوم کو کیا کچھ نہیں دیا۔ اس فوج کے شہیدوں نے ایسے ایسے کارنامے رقم کئے ہیں جو تاریخ کے آسمان پر ہمیشہ ستارے بن کر چمکتے رہیں گے جو شخص یہ سب کچھ جانتے ہوئے اس ادارے کے سربراہ تو کیا ایک جوان پر بھی غداری کا الزام لگاتا ہے تو وہ خود غدار قوم غدار وطن اور غدار انسانیت ہے اور کسی مرحلے پر بھی رحم کے قابل نہیں ہے۔ کیا عمران خان کو ابھی تک یہ علم نہیں ہوا کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس پر پاکستان کا ازلی دشمن بھارت کس قدر مسرت اور اطمینان کا اظہار کررہا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ وہ قوم اور ملک کو بے چینی میں مبتلا کرکے خود اطمینان کی نیند سو رہا ہے اس صورت حال سے کیا ایک محب وطن پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہے کہ عمران خان اسرائیل اور بھارت کے مشترکہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس میں اس مملکت خداداد کو سیاسی،سماجی اور معاشی طور پر بے دست و پا کرکے ختم کرنا شامل ہے جبکہ قائداعظم کے اس عظیم احسان کو برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کی افواج نے اس قدر قربانیاں دی ہیں جن کا شمار اس قوم اور ملک کے بدخواہوں کے بس کی بات نہیں ہے جن میں عمران خان بھی شامل ہے۔ آج وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اگر آپ قوم کو نہیں بچائیں گے تو اور کون بچائے گا؟ یہ بیانیہ اسی ڈھیل کا نتیجہ ہے جو عمران خان کو ماضی قریب میں دی جا چکی ہے لیکن عمران خان کو جان لینا چاہیے کہ فوج کی طرف سے اس کے خلاف جاری کی جانے والی چارج شیٹ کے بعد تمام ادارے الرٹ ہو چکے ہیں اور اب کوئی ادارہ بھی اس کے جھانسے میں نہیں آئے گا۔ عمران خان کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ بہت سے دیگر بیانیوں کی طرح اب اس کا اپنے قریبی کارکنوں پر جنسی تشدد کا بیانیہ بھی پٹ چکا ہے۔ عمران خان کے اس ملک دشمن رویہ پر اور کیا عرض کروں:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں