افراد کی خوشنودی کو ٹھکرائے بغیر زندگی بسر نہیں کی جا سکتی، آپ کو اپنا ”وجود“ برقرار رکھنے کیلئے یہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں 

افراد کی خوشنودی کو ٹھکرائے بغیر زندگی بسر نہیں کی جا سکتی، آپ کو اپنا ...
 افراد کی خوشنودی کو ٹھکرائے بغیر زندگی بسر نہیں کی جا سکتی، آپ کو اپنا ”وجود“ برقرار رکھنے کیلئے یہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:42
اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اپنی زندگی کے معاملات کی انجام دہی کے دوران دوسرے افراد کی خوشنودی اور رضامندی کو قطعی طور پر ٹھکرائے بغیر زندگی بسر نہیں کی جا سکتی۔ یہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے اور آپ کو اپنا ”وجود“ برقرار رکھنے کے لیے یہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ مجھے ایک دفعہ ایک ایسے شخص کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر ہوا جو دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت پر مبنی رویے کا ایک شاندار مرقع تھا۔ اسقاط حمل، خاندانی منصوبہ بندی، مشرقی وسطیٰ میں جنگ، واٹرگیٹ سیکنڈل، سیاست اور دیگر بہت سے معاملات کے ضمن میں اس کے خاص نظریات تھے۔ جب بھی کوئی شخص اس کے خیالات اور نظریات سے اختلاف کرتا، وہ پریشان اورمنتشر ہو جاتا۔ وہ اپنی طرف سے کثیر توانائی اور وقت صرف کر کے ہر ایک کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا۔ اس نے اپنے سسر کے متعلق ایک واقعہ بتایا جس میں اس نے کہا کہ کسی کو شدید اور جان لیوا تکلیف سے نجات دلانے کے لیے اسے موت کا شکار بنانے پر مبنی نظریہ اس کے نزدیک قطعی درست ہے اور وہ اس نظریے کو بالکل درست سمجھتا ہے اور اس کے سسر نے اپنی ابرو پر تیوری ڈالتے ہوئے اس کے نظرئیے کی تردید کی۔ پھر اس نے فوراً ہی اضطراری طور پر اپنا یہ مؤقف تبدیل کر لیا اور کہنے لگا: ”میرے کہنے سے اصل مرا دیہ ہے کہ اگر کوئی شخص شعوری طور پر اور و اقعی یہی کہتا ہے کہ اسے ہلاک کر دیا جائے توپھر کسی شخص کو شدید اور جان لیوا تکلیف سے نجات دلانے کے لیے اسے ہلاک کرنے کا عمل درست ہے۔“ اس نے محسوس کیا کہ اس کا سامع اس کی بات سے متفق ہے تو پھر اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ پھر اس نے اپنے افسر کے سامنے بھی اپنا یہ نظریہ بیان کیا لیکن یہاں اس کا یہ نظریہ قطعی طور پرمسترد کر دیا گیا۔”تم اس قسم کی بات کیسے کہہ سکتے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ خدا کے ساتھ مذاق ہے؟“ وہ شخص اپنے نظریے کی تحقیر اور ندمت برداشت نہ کرسکا اور کہنے لگا۔ ”دراصل میری مراد یہ ہے کہ انتہائی صورتحال میں جب قانونی طور پر ایک مریض کو ”مردہ قرار دے دیا جائے تو پھر اسے ہلاک کر دینے کا عمل درست ہے۔“ بالآخر اس کا افسر اس کے اس نظرئیے کا قائل ہو گیا ور اس نے کسی قدر اطمینان کا سانس لیا۔ پھر اس شخص نے اپنے بھائی کے سامنے اپنے اس نظرئیے کا اظہار کیا تو فوراً ہی اس نے اپنی رضامندی کا اظہا کر دیا…… یہ مرحلہ تو اس شخص کے لیے بہت آسان ثابت ہوا، اسے اپنے بھائی کی طرف سے خوشنودی و رضامندی حاصل کرنے کے لیے اپنے مؤقف کو تبدیل نہیں کرنا پڑا۔ان مثالوں میں اس شخص نے دوسروں کے ساتھ تبادلہ خیال کے ضمن میں اپنے عمومی ردعمل کا اظہار کیا۔ جب یہ شخص اپنے حلقہ احباب میں جاتا ہے تو کسی بھی موضو ع کے بارے میں اس کا کوئی قطعی اور مستند نظریہ اور رائے نہیں ہوتی اور اپنے مؤ قف کے بارے میں دوسروں کی طرف سے مذمت اور استرداد کی خواہش اس قدر شدید ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی نظروں میں پسندیدہ نظر آنے کے لیے اپنے مؤقف اور رائے کو مستقل تبدیل کرتا رہتا ہے۔ یہ صورتحال صرف اس شخص پر ہی منطبق نہیں ہوتی بلکہ ہر اس شخص کے لیے درست اور صحیح ہے جو دوسروں کی رائے اورمرضی کے مطابق چلنے کو ہی اپنے لیے خوشی گردانتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -