شب و روز تما شا مرے آگے
اگر رات دن کی دوڑ بھاگ سے کچھ لمحے چرا کر اپنی خوش قسمتیوں کا حساب لگانے بیٹھوں تو ذہن میں سب سے پہلے وہی واقعات ابھرتے ہیں جو ہو نے کی بجائے عین وقت پر ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ جیسے لڑکپن میں ایک ایسے تعلیمی جنکشن سے اچانک گھر واپسی جہاں سے فوجی تربیت گاہوں کو روانہ ہونے والی ٹرین عام طور پہ چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر نہیں رکتی ۔
بیس سال بعد ایک اعلی تدریسی ادارے میں ایک دن کی حاضری اور پھر گلو کارہ ریشماں والی ’لمبی جدائی‘ جس نے یہ بحث ہمیشہ کے لئے ختم کر دی کہ محکمانہ ترقی کے لئے میرے نصابی ابواب کو ریسرچ پیپر شمار کیا جا سکتا ہے یا نہیں ۔ بحث کا نتیجہ خدا جانے کیا نکلتا ، لیکن شکر کرتا ہوں کہ اِس اتار چڑھاؤ میں اور تو بہت کچھ ہوا مگر ’بور‘ ، ’بوریت‘ اور ’بورنگ‘ کے الفاظ سے شناسائی نہ ہو ئی ، نہ اِن سے وابستہ رویے پوری طرح سمجھ میں آ سکے ۔
یہاں بناوٹ سے کام لے کر یہ ظاہر کرنا تو مشکل ہے کہ زبان سیکھنے کے ابتدائی مرحلہ پر ہم نے کسی کے منہ سے یہ کلمات کبھی سُنے ہی نہ تھے ۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بچپن کی درسگاہوں کا ماحول ، تدریسی عملہ کا رویہ اور کتابوں کے اسباق اتنے ’یوزر فرینڈلی‘ لگے کہ کبھی اکتاہٹ کا احساس نہ ہوا ۔ ایسی بات نہیں تھی ، مگر ہمارے ’صاحبِ ایمان‘ سکول ماسٹر بہترین علمی اور اخلاقی نشوونما کی خاطر طالب علم کی انگلیوں ، الٹے ہاتھوں اور قرب و جوار کے مقامات کو جس طرح نشانہ بناتے ، اُس میں بھی ناظرین کے لئے ’انفوٹینمنٹ‘ کے کئی پہلو ہوا کرتے ۔
استادوں کی اردو اچھی تھی ، اس لئے وہ ہاتھوں سے پٹائی کے دوران ’مکتوب الیہ‘ کو تھپڑ کی اقسام سے آگاہ کرتے جیسے ’بجی‘ ، ’تکی‘ اور ’جھانپڑ‘ یا پھر ڈنڈے کی قسمیں یعنی ’کمچی‘ ، ’چھڑی‘ اور ’بید‘ ۔ اسے کہا جاتا ’کھیل کھیل میں سائنس‘ ۔
اب آپ پسند کریں یا نہ کریں ، لسانیات کے نفسیاتی شعبہ میں ماضی کے سوویت یونین میں بہت کام ہوا تھا ۔ یہ تحقیق بھی ہوئی کہ ایک عام انسان کے لئے ماں بولی سے فطری رشتہ استوار کرنا کوئی اور زبان سیکھنے کے تجربہ سے مختلف ، زیادہ گہرا اور اپنے اثرات میں ایک دیرپا عمل ہوا کرتا ہے ۔ بڑی وجہ یہ کہ اکثر لوگ اولین زبان اپنے گرد پیش کی مدد سے اور شعوری کوشش کے بغیر ہی سیکھتے ہیں ۔
جیسے آج کے پاکستانی معاشرہ میں کسی نے مسکرا کر ایک ننھے بچے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’لائٹ‘ ۔ پھر ایک آدھ مرتبہ نہیں ، بلکہ کبھی تسلسل کے ساتھ اور کبھی وقفے وقفے سے اسی سمت میں کئی بار اشارہ کیا اور یہی آواز نکالی ، یہاں تک کہ ننھے میاں کسی نہ کسی سطح پہ اس نئے لفظ اور اس سے جڑے ہوئے تصور سے آشنا ہو گئے ۔
مانوس تر ہوتے ہوئے ماحول میں انہی دریچوں سے ہم پہ رنگوں ، شکلوں اور انسانی رشتوں کا منظر نامہ کھلتا ہے ۔ چونکہ مجھے دوسروں کی ریسرچ کو دائیں بائیں کرکے اس میں اپنا ’لچ تلنے‘ کی عادت ہے ، اس لئے یہ انکشاف کرتا چلوں کہ وطن سے میری طویل غیر حاضری کے دوران میرے بھانجے عمار نے بڑے ماموں کی پہچان ’تھرڈ پرسن سنگلر‘ کے صیغہ میں حاصل کی تھی ۔ مطلب یہ ہے کہ کسی نے کہا ’’ماموں‘‘ اور بچے نے جھٹ ریڈیو کی طرف اشارہ کر دیا جو یہ پیغام دیتا تھا کہ ’’اردو نشریات سننے والوں کی خدمت میں شاہد ملک کا آداب‘‘ ۔ پھر ہر روز یہی کچھ ہونے لگا ۔ البتہ جب عمار کے ’بابا‘ کی کرنیلی پر میں نے گھوڑے کی تصویر والا تہنیتی کارڈ روانہ کیا تو میرے بھانجے نے کہا ’’امی ۔۔۔ماموں‘‘ اور انگلی ریڈیو کی بجائے گھوڑے پہ رکھ دی ۔ یہ بیان میری بہن کا ہے جو اپنی ذات میں میری طرح کسی پاکستانی چینل سے کم نہیں ۔
خود ہمارے گھر میں دونوں بچوں کی ’اصلاح معاشرہ‘ میں صحیح رول تو اُسی صنف کا ہے جس نے دنیا میں تہذیبی قدریں رائج کرنے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے ۔ البتہ ، ولائت ہی میں ایک قریبی دوست کے بر وقت مشورے نے میرے دل میں تین برس کے بیٹے اور ایک سالہ بیٹی کے ساتھ ’گپ ‘ لڑانے کا چسکا ڈال دیا ۔ لفظیات پہ نظر رکھنے کی وجہ سے حیرانی تو پہلے سے تھی کہ لڑکا کسی چیز ، جگہ یا شخص کا نام کیوں نہیں لیتا ، بس ہفتوں تک یا تو ’لا الہ‘ کا ورد یا بار بار ایک ہی سوال ’’یہ کیا ہے ؟‘‘ ۔ پھر ’پلے گروپ‘ کے بچوں کی دیکھا دیکھی دونوں بہن بھائی آپس میں بھی بزبانِ انگریزی گِٹ پٹ کرنے لگے ، لیکن ہمارے ساتھ بات چیت اردو میں ہوتی رہی ، جس میں ’ہمارا ‘ کی جگہ ’ہم کا‘ کے سوا انگریزی کا کوئی شائبہ دکھائی نہ دیا ۔ پھر بھی ، جس جملہ نے چونکا کے رکھ دیا وہ تھا ’’اماں ، پیٹ میں درد ہو رہا ہے‘ ‘ ۔
اب یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ بچے کی مراد کارکن صحافی دین محمد درد سے ہو یا غزل میں حقیقت اور مجاز کے رنگ یکجا کردینے والے صوفی شاعر خواجہ میر درد ۔ اصل میں جس کیفیت کا نام لیا گیا اس کا کوئی خارجی اشارہ تو تھا ہی نہیں ، نہ کسی بڑے نے کوئی باطنی زائچہ بنا کر نشان دہی کی کہ دیکھو بیٹا ، اس وقت تمہارے اندر جو کبڈی سی کھیلی جارہی ہے ، اسے پیٹ کا درد کہتے ہیں ۔ ہاں ، اگر خدا نخواستہ کوئی چوٹ لگ جاتی یا زخم سے خون نکلنے لگتا تو بات آسان تھی کہ اس تجربہ کے ’فزیکل انڈیکیٹر‘ تو موجود ہیں ۔
مگر بچے کے ذہن میں درد کا ذائقہ اس لفظ سے یکجا ہو کر تجربہ کی منضبط اکائی کیسے بن گیا ۔ اس دن مجھے یونیورسٹی کالج آف نارتھ ویلز میں اپنے کورس ٹیوٹر مسٹر کیون اوئین بہت یاد آئے جو تدریسی لسانیات پڑھاتے ہوئے ، تھک ہار کر انسانی دماغ کی پری پروگرامنگ کی چھیڑ دیتے ۔
معاملہ صرف پیٹ کے درد کا نہیں ، بلکہ ’’زخمِ وفا ، زمیں کے مسائل ، رُتوں کے دکھ‘ ‘ اور اِن جیسی کئی بے انت کیفیتیں کیا خبر ، اسی پری پروگرامنگ ، مخصوص جبلت یا قدرت کے کھیل کا حصہ ہوں ۔ آپ پوچھیں گے کہ بھئی ، یہ بور ہو نے یا کرنے کی جبلت آخر کہاں سے آگئی ۔ پھر رات دن بوریت کا شکوہ کرنے والوں میں زندگی کا میچ ہارے ہوئے بوڑھے تو کم ہیں اور بڑی تعداد خوشحال والدین کے ان ’ینگ اینڈ اپ ورڈلی موبائل ‘ بچوں کی ہے جن کا بہلاوہ آج سے چند برس پہلے تک ’ایکس باکس‘ ، ’کائنیکٹ‘ اور ’نین ٹینڈو وی‘ جیسے خرچیلے کھیل تھے ۔ بڑا نتیجہ کیا نکالوں مگر ، اے مومنین کرام ، کہیں ایسا تو نہیں کہ خوشحالی کی لیٹ نکالنے کے لئے بچوں کو ضرورت سے زیادہ کھلانا پلانا ، بے تحاشہ کپڑے لے دینا اور مشینی کھلونوں کو ’حاصل غزل‘ سمجھ لینا ایسے وائرس کو جنم دے رہا ہے جو کسی دن ہماری اخلاقیات ا نفسیات کی سسٹم فائلیں ہی بند کردے گا ۔
اگر اپنے اور بہن بھائیوں کے بچوں کا ’ڈیٹا بیس‘ بناؤں تو ’بیک ورڈ ‘ اردو میڈیم باتیں کرنے کی وجہ سے نئی نسل میں میری مقبولت کا گراف ایک نا محسوس طریقہ سے نیچے آ رہا ہے ۔ اِس لئے یہ سفارش بھی ذرا جھجکتے ہوئے کر رہا ہوں کہ زندگی کو بامعنی بنانے کے لئے سہ پہر کے ساڑھے تین بجے ہاکی اسٹک ، کرکٹ بیٹ یا ریکٹ پکڑ کر نکل جایا کریں ، خواہ اِس کے لئے قریبی گراؤنڈ کی بجائے دوبارہ اسکول جانا پڑے ، گلی میں چارپائیاں کھڑی کرنی پڑیں یا گھر کی چھت پہ چڑھ کر گیند کو روکنے کے لئے پرنالوں کے منہ اینٹوں سے بند کرنا ضروری ہو جائے ۔ یہ نہ ہو تو پٹھو گرم ، کوکلا چھپاکی اور کچھ نہیں تو یسو پنجو بہر حال کھیلا جا سکتا ہے ۔ وہ اس لئے ٹیم میں کھیلنے سے طبیعت میں نظم و ضبط کی پاسدار ی ، اصولی احکامات کی تعمیل اور مشترکہ ہدف کے لئے مل کر زور لگانے کا جذبہ پیدا ہو گا ۔
اِس سے ہٹ کر کھیلوں کا ایک آزمودہ فائدہ اور بھی ہے کہ اِس تفریحی عمل میں کائنات کی سب سے دل چسپ مخلوق ہماری سوچ کا محور بن جاتی ہے ، ہمارے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسان ، ان کی ظاہری سرگرمیاں ، اندرونی چالاکیاں ، دوسروں سے ان کا انٹر ایکشن اور اس سے پھوٹنے والے رویے ، محبتیں اور رنجشیں ۔ کھیل کے توسط سے یا کتابوں سے دوستی کرکے ایک دفعہ آدمی اِس عظیم تر انسانی اقلیم کا شہری بن جائے تو پھر ڈاکٹر کی انتظار گاہ ، بجلی کے بل کی قطار ، ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم اور ائر پورٹ پہ جہاز لیٹ ہو جانے کا منظر اسے کچھ نہیں کہتا ۔ بس سارا وقت اس من پسند فلم کے ٹوٹے چلتے رہتے ہیں جس میں ، غالب کی طرح ’ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے‘ ۔
مگر ، یار ، انسانی آواز بھی تو فلم کا اہم جزو ہے ، اس لئے میرے تجربہ سے کچھ سیکھنا چاہو تو سب بچے بڑے مل کر گپ لڑایا کرو ، بوریت کبھی پاس نہیں آئے گی ۔