میجر اسحاق شہید کی والدہ کیوں نہ روئی؟

تحریر:(محمد طاہر تبسم درانیْ)
وطن عزیز میں دہشتگردی کی لہر نے کئی ماؤں کی گود اجاڑ دی، کئی بہنوں کے بھائی جدا کیے۔ کئی سہاگنیں اپنے سر کے تاج سے محروم ہوئیں الغرض سفاک درندوں نے مادروطن کے امن اور استحکام کو بُری طرح متاثر کیا۔ جگہ جگہ خودکش حملوں نے ملکی امن کو سبوتاژ کیے رکھا، آرمی پبلک سکول میں معصوم کلیوں کو روندا گیا، وہ نہتے معصوم بچے جو دشمن جیسے الفاظ کے معنی سے بھی نابلد تھے اُن کو شہید کیا۔ جس کے بعد ان درندوں کا قلع قمع کرنے کے لیے پاک فوج نے قومی ایکشن پلان کے تحت مختلف آپریشنز کرنے شروع کیے اور ان انسانیت کے دشمنوں کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس وقت دشمن کی کمر ٹوٹ چکی ہے لیکن پھر بھی یہ سفاک درندے جو ہمسایہ ملک میں پناہ لیے بیٹھے ہیں ، پاکستان میں داخل ہو کر انسانیت کا قتل کرنے کے ناپاک ارادے لیے اپنی کوششوں میں مصروف ہیں جنہیں پاک فوج کے جوان اپنا سینہ پیش کر کے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد، المیزان میں اللہ کریم نے کامیابیوں سے نوازا ہے ۔ پاک فوج نے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے دشمن اپنے ٹھکانے چھوڑ کر سرحد پار جانے پر مجبور ہو گیا ہے دہشتگردی کی جنگ تقریباََ جیت چکے ہیں ، پوری قوم اپنی پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
صوبہ پنجاب کا ایک خوبصورت شہر جو کہ دریائے جہلم کے مغربی کنارے واقع ہے ۔ یہاں کی زمین سر سبز ہے۔ اس شہر کے قریب ایک خوبصورت پہاڑی سلسلہ وادی سون سکیسر ہے ۔ کھیت کھلیان اور صحرا اس کے شہری حُسن کو مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ ٰیہاں پر زیادہ ترآبادی ’’بلوچ اور اعوان‘‘ قبائل سے تعلق رکھتی ہے اور لوگ فوج میں شمولیت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ضلع خوشاب سے تعلق رکھنے والے اعوان خاندان کے چشم و چراغ اور محمد حسین اعوان کے بیٹے میجر اسحاق شہید نے نہ صرف اپنے خاندان کا سر فخر سے بلند کر دیا بلکہ شہداء کی لسٹ میں اپنا نام لکھوا کر عظیم المرتبہ انسانوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اس خطہ کے اٹھائیس (28 )سالہ شہزادے میجر اسحاق شہیدنے دہشتگردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیاہے۔
میجر اسحاق ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو پہلے ہی اپنے خون کو وطن عزیز پر قربان کر چکا تھا ۔ان کے خاندان کے دو لوگ جام شہادت نوش کر چکے ہیں ۔اِن کے ماموں کر نل (ر)محمد اسلم جو 30 تیس سال پاک فوج میں اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں جن کی بڑی خواہش تھی کہ وہ بھی جام شہادت نوش کر کے اپنے حصے کی شمع روشن کر تے لیکن اُن کے نصیب میں شہادت نہ آئی اور اُن کی اس خواہش کی تکمیل اُن کے ہر دل عزیز ، پیار ے بھانجے نے کی۔وہ اپنے بھائیوں سے اکثر کہا کرتے تھے ’’دوستو،شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو ‘‘ لیکن اس بار یہ بات سچ ثابت ہوئی ، ایک بار اپنے بھائی کو ائر پور ٹ چھوڑنے گئے تو بھائی سے کہا ’’ یار دعا کرنا شاید پھر ملاقات ہی نہ ہو ،شاید سانسیں مہلت نہ دیں ‘‘ وہ ہمیشہ کہتے مجھے پاکستانی ہونے اور خاص طور پر پاک فوج میں فوجی ہونے پر ناز ہے کیونکہ مجھے اپنے وطن سے پیار ہے اور میں اپنے ملک کی خاطر حقیقی معنوں میں کچھ کرنا چاہتا ہوں ۔اللہ نے انہیں اس کا موقع بالخر دے ہی دیا ۔انہوں نے وہ کام کیا جو نصیب والے ہی کرپاتے ہیں۔
میجر اسحاق شہید اپنے 6چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔ ماں کا لاڈلہ ، باپ کی آنکھوں کا تارہ اور بہن بھائیوں کا دلار ہ، جس نے21 ۔22نومبر 2017ء کی درمیانی رات کو ڈیرہ غازی خان کے علاقے کو لاچی میں شر پسند وں کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ میجر اسحاق کو جب دشمنوں کے گھناؤنے مقاصد کا علم ہوا تو انہوں نے خود اس مشن کو لیڈ کیا، وہ ایک بیس کمانڈر تھے وہ چاہتے تو اپنے کسی جونیئر آفیسر اس مشن پر بھیج سکتے تھے ، لیکن شہادت صرف نصیب والوں کو ملتی ہے فرنٹ سے لیڈ کرنا ان کی عادت تھی ۔یہ دہشتگرد بارودی سرنگ نصب کرنے کے مشن پر تھے ۔میجر اسحاق شہید نے نہ صرف ان کے منصوبے کو ناکام بنایا بلکہ کئی شر پسند وں کو واصلِ جہنم بھی کیا۔ سر چ آپریشن کے دوران دہشتگردوں کے پاس جدید اسلحہ اور بارود تھا ۔ خطر ناک فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے باعث میجر اسحاق کے پیٹ پر گولیا ں لگیں اور وہ شدید زخمی ہو گئے ۔ان کو ڈی آئی خان عسکری ہسپتال طبی امداد کے لیے داخل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
جب شہید کے جسد خاکی کو پاکستانی سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر لا یا گیا تو ماں نے اپنے لخت جگر کو دیکھتے ہی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا ’’اے اللہ میرے بیٹے کی شہادت کو قبول فرمانا اور اعلیٰ مقام عطا فرمانا‘‘نہ وہ روئی، نہ آنسو نہ بوکھلاہٹ کیسی بہادر ماں ہے جس کے بیٹے نے مادر وطن پر جان قربان کر دی اور ماں صبرو بہادری کی عظیم مثال بنی کھڑی دیکھ رہی ہے۔ بیوہ اپنے خاوند کے جسد خاکی کے اوپر اپنا چہرہ رکھے ربِ تعالیٰ سے باتیں کر رہی تھی۔ شہید کی شہادت سے دو سال پہلے شادی ہوئی تھی اور ایک سال کی بیٹی جس نے باپ کی شفقت بھی نہ دیکھی تھی ۔وہ اپنے پاپا کو تلاش کررہی تھی۔اللہ شہیدوں کے اہل خانہ کو کیا خوب حوصلہ عطا فرماتا ہے ۔کاش یہ حوصلہ پوری قوم میں عود آئے اور ہر پاکستانی میجر اسحاق بن جائے تو وطن عزیزکی جانب کسی کو آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ ہوسکے گی ۔