سیکولر بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی
بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر غازی آباد میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک امام مسجد کو تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں جئے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ صداقت نامی امام مسجد عصر کی نماز کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے توگاؤ شالہ کے قریب موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے انہیں روکا اور مذہبی شناخت پر ان لوگوں نے انہیں تشدد کانشانہ بنایا ان لوگوں نے امام مسجد کو شدید ضربیں لگائیں اور جان سے مار ڈالنے کی بھی دھمکی دی۔
خود کو سیکولر بھارت کا باسی کہنے والی اقلیتوں کا جینا بھی حرام ہوا اور ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی میں بھی اضافہ ہوا۔ اب سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے توہم پرست ہندوؤں نے نہ صرف عام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے بلکہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے روشن خیال، مگر عمررسیدہ افراد بھی ان کے عتاب سے نہیں بچ پا رہے، ہندو انتہا پسند خاص طورپر مسلمانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
امریکی کانگریس نے خبردار کیا ہے بھارت میں ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باعث سیکولرزم کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلتے ہوئے پرتشدد واقعات سے بھارت میں سیکولرزم کی جڑیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، مذہبی انتہا پسندی اور پرتشدد واقعات سمیت ریاستی سطح پر قانون سازی، گاؤ رکشک بل، غیر سرکاری تنظیموں کو حاصل آزادی پر قدغن بھارتی ریاست کے بنیادی نظریے کو مسخ کر رہے ہیں۔
ہندوتوا باقاعدہ سیاسی طاقت کے روپ میں ابھر رہی ہے اور یہ طاقت گزشتہ چند دہائیوں سے بھارتی سیکولرزم کی جڑ کو کھوکھلا کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں مذہبی آزادی کا تصور خام خیال بن چکا ہے، بھارت میں پرتشدد واقعات کے پھیلنے کا بڑا سبب سوشل میڈیا ہے، جہاں جذبات کو بھڑکانے کے لیے بھرپور کام ہو رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ2014 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کی کامیابی کے بعد مذہبی آزادی کے مسائل نے جنم لینا شروع کیا۔ بی جے پی نے اترپردیش سمیت متعدد ریاستوں میں کامیابی حاصل کی، جہاں 20 کروڑ میں سے ایک تہائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مذہبی رہنماؤں کی جانب سے منعقد ہونے والی ایک پنچایت میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اپیل کی گئی ہے۔ ادھر ممبئی میں ایک سخت گیر ہندو رہنما نے دھمکی دی ہے کہ اگر مساجد سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹے تو مساجد کے دروازں پر ہندوؤں کے مذہبی گیت بجائے جائیں گے۔اس صورتحال کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں ہندوؤں کی پنچایت میں جو کچھ بھی ہوا اس کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے تاہم، ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے، ریاست مہا راشٹر کی ایک سخت گیر انتہا پسند سیاسی جماعت مہا راشٹر نو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے مساجد کے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا جلد ہی کوئی بند و بست نہ کیا تو پھر ان کے کارکنان مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا بجائیں گے۔راج ٹھاکرے نے نریندر مودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ممبئی میں واقع مدارس پر چھاپے کی کارروائی کرے ان کا کہنا تھا کہ مقامات پر پاکستانی حامی رہتے ہیں ممبئی پولیس کو بھی معلوم ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ارکان اسمبلی انہیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں مذہبی اختلافات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں، ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے ساتھ ساتھ دیگر عقیدوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی باشندوں کو بھی اپنی سیاسی چال بازیوں کا حصہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیاں اس تصور کا ناجائز فائدہ آٹھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ووٹرز ہی دراصل ملک میں ایک لچکدار سیاسی نظام کی وجہ بنتے ہیں۔
1947ء میں بھارت کی آزادی کے بعد فرقہ ورانہ فسادات کا سلسلہ بند تو کیا ہوتا، کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جنہیں بھارت کی تاریخ کے بدترین فسادات کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مثال کے طور پر 1984ء میں سکھوں کے خلاف ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کو تقسیم ہند کے بعد رونما ہونے والے بھیانک ترین فسادات کہا جاتا ہے۔ سکھ مخالف فسادات کو بھی چالیس سال کا عرصہ ہونے والا ہے تاہم بھارت جیسے ملک میں مذہبی فسادات اب بھی عام نظر آتے ہیں جبکہ اس سیکولر ملک کے آئین میں رواداری کی ضمانت دی گئی ہے۔
بھارت کے انتہا پسند ہندو اپنی کم ہوتی ہوئی آبادی پر بھی پریشان ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے تازہ اعداد و شمار سے یہ بات منظر عام پر آئی کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان سمیت تمام برادریوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن تمام کمیونٹیز کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی تھی اس میں کمی آئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ دس سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہندوؤں کے مقابلے میں زیادہ ہواہے۔بھارت میں پہلی بار مجموعی آبادی میں ہندوؤں کا تناسب اسّی فیصد سے کم ہو گیا ہے جبکہ مسلمانوں کی تعداد قریباً ایک فیصد اضافے کے ساتھ اس وقت چودہ فیصد سے زائد ہے۔اس سلسلے میں بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ دعوے بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ نئی دہلی میں گزشتہ ملکی حکومت نے قومی سطح پر پچھلی مردم شماری کے نتائج جاری کرنے میں اس لیے دانستہ طور پر تاخیر کر دی تھی کہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔