کریمنل توہین حساس معاملہ ہوتا ہے جس میں کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے ، عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن ) سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو گئے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین حساس معاملہ ہوتا ہے جس میں کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے ۔
سابق وزیر اعظم اپنے وکیل حامد خان کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے ، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف ، عدالتی معاون منیر اے ملک اور مخدوم علی خان بھی عدالت پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس اسلام آبا دہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے کریمنل اور جوڈیشل توہین کا کیس ہے ، کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے جس میں آپ کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے ، آپ نے اپنے جواب میں جواز پیش کرنے کی کوشش کی ، طلال چودھری اور دنیا عزیز کے کیسز جوڈیشل توہین کے تھے ، اظہار رائے آزادی کے محافظ ہیں مگر اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ، کیا کوئی سابق وزیر اعظم یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے قانون کا علم نہیں ؟، ہم نے قانون کے مطابق جانا ہے ، پچھلی مرتبہ آپ کو سمجھایا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وکیل حامد زمان سے کہا کہ سپریم کورٹ کا شاہد اورکزئی کیس کا فیصلہ پڑھیں، حامد زمان نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اب توہین عدالت قانون کی سیکشن 9 پڑھیں ، دونوں عدالتی فیصلوں میں غیر مشروط معافی کا ذکر ہے ، اگر کسی جج سے تکلیف ہوئی ہے تو اس کا ذکر بھی اس قانون میں ہے ، اس قدر پولیورائزڈ سوسائٹی ہے کہ پیروکار مخالفین کو پبلک مقامات پر بے عزت کرتے ہیں ، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے توپھر کیا ہوگا؟، ماتحت عدالتیں اس عدالت کی ریڈ لائن ہیں ، ہم نے وکلاء تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کئے ۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکوٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا جواب ہم نے پڑھ لیا ہے ، کرمنل توہین کا معاملہ انتہائی حساس ہے ، آپ کو یہ چیز سمجھائی تھی ،ہم سپریم کورٹ کے فیصلے ماننے کے پابند ہیں ، زیر التواء مقدمے پر بات کی گئی ہے ، طلال چودھری اور دانیال عزیز کے خلاف عدالت کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے جواب کا پیراگراف دو دیکھیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جواب سے لگتا ہے کہ معاملے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ، ہم نے قانون کے مطابق جانا ہے ، پچھلی بار آپ کو سمجھایا تھا ، اس عدالت کو کوئی مرعوب نہیں کر سکتا، اگر خاتون جج لاہور جائیں اور انہیں کوئی نقصان پہنچائے تو کون ذمہ دار ہے ؟۔
وکیل حامد زمان نے کہا کہ مجھے جواب کا پورا پیرا گراف پڑھنے دیں ، اگر کسی جج کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو رنجیدہ ہوں ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جج کے جذبات نہیں ہوتے ، جج کے بار ے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی ہے ۔ اس عدالت میں سب کو عزت دی جاتی ہے اور دی جاتی رہے گی ۔ حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے جواب میں لکھا ہے کہ وہ عدلیہ اور خواتین کا احترام کرتے ہیں ، عدالت کو یقین دلاتے ہیں عمران خان اور ان کے پیروکون خاتون جج سے متعلق کچھ نہیں کریں گے ۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیسے ایک سیاسی رہنما جلسے میں کسی جج کے خلاف ایکشن لینے کا کہہ سکتا ہے ، جج کے خلاف کارروائی کیلئے ایک فورم ہے اور وہ عوامی جلسہ نہیں ۔ وکیل حامد زمان نے کہا کہ لیگل ایکشن کا مطلب شکایت بھی ہے اور اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی وغیرہ ہے ۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ عمران خان نے اپنے رویے سے یہ ظاہر نہیں کیا کہ انہیں افسوس ہوا ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ فیصلے جلسوں میں ہونگے یا عدالت کرے گی عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد بھی یہ جواب فائل کیا گیا ہے ؟، عدالت نے حامد زمان سے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں ؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 70 سال میں کچھ اچھا نہیں ہوا ،یہ عدالت اس بات سے بہت اچھے سے آگاہ ہے ۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ تقریر اور توہین عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں جواز پیش کئے جاتے رہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کے جج سے متعلق الفاظ ہوتے تو بھی یہی جواب پیش کیا جاتا۔حامد خان نے اپنے دلائل یہ کہتے ہوئے مکمل کرلئے کہ سپریم کورٹ کی طرح اس عدالت سے بھی تحمل کی توقع ہے ۔
عدالت نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو روسٹرم پر بلایا اور پوچھا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے ، اس تقریر کے بعد والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی ہے سی ڈی اور ریکارڈ دونوں پیش کر دوں گا، عمران خان نے دوبارہ انہیں خاتون جج کا حوالہ دیا ، عمران خان کے جواب میں اظہار افسوس ہے مگر پچھتاوا نہیں ، یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ عوام اس طرح کے بیانات سے کیا سبق لیں گے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ 2014 میں بھی ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلا ،ایسے ہی الزامات تھے ، ایسا ہی طریقہ کار تھا مگر انہیں معاف کر یا گیا ، عمران خان نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی دیا تھا کہ وہ آئندہ عدلیہ کے خلاف کوئی تضحیک آمیز بات نہیں کریں گے ، لیکن یہ آج پھر اسی کیس میں یہاں موجود ہیں ۔ ملزم کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرح تحمل کی توقع ہے ، انہیں سپریم کورٹ نے معاف کر دیا تھا ، یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ بار بار چلے گا، سپریم کورٹ نے سیاسی رہنماؤں کو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنے کا کہا ہے ، توہین کرنے والے کی نیت اور مقصد بہت اہم ہوتا ہے ۔ عمران خان نے اپنے جواب میں بیان حلفی نہیں دیا ، عمران خان کے بیان حلفی کے بغیر جواب کو کوئی حیثیت نہیں ، عمران خان کو اس بار نوٹس نہیں بلکہ شوکاز نوٹس ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل نے بھی اپنے دلائل مکمل کر لئے ۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے عمران خان کے خلاف کیس ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے عدالت بڑے پن کا مظاہرہ کرے اور کیس کو ختم کرے ، توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبو ط کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے ، میں آخری شخص ہوں جو مانوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر تقریر کا اثر ہوا ہے ،الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی راہ میں رکاو ٹ نہیں ، توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے ، ایک معافی پر اور دوسرا کنڈکٹ پر ، یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کیلئے احترام کا اظہار کیا گیا ہے ۔
منیر اے ملک نے کہا کہ امریکہ میں صدر نے فیصلے کو بد ترین کہا، وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا اور دوسرا راستہ نکالا ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کو علم ہے امریکہ میں ہی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹویٹر اکاؤنٹ معطل ہے ، کیا بیان دینے اور اشتعال دلانے میں فرق نہیں ، لیڈر کا رول معاشرے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
دوسرے عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ عوامی اجتماعات میں جوش خطابت میں جو کہا گیا اس سے شائد عدالتی انتظام متاثر نہ ہو ، عوامی فلاح صرف انصاف کی فراہمی میں ہے ۔