ٹرمپ کی حماقتیں امریکہ کو لے ڈوبیں گی؟

امریکہ ایک موثر عالمی طاقت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی ایک سکاٹش ماہر آدم سمتھ نے اس نظام کو پہلی بار مربوط اور منظم طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس نے 1776ء میں اپنی ”دولت اقوام“نامی تحریر کے ذریعے جدید نظام معیشت کی بنیاد رکھی اس تحریر کو سرمایہ دارانہ نظام کی بائبل اور آدم سمتھ کو اس نظام کا بابا آدم کہا جاتا ہے لیکن اس نظام نے جو پر پرزے نکالے ایک طاقتور نظام کے طور پر دنیا پر غلبہ حاصل کیا وہ امریکہ میں ممکن ہوا۔ امریکہ میں یہ نظام جوان ہوا۔ ایک طاقتور عالمی نظام کے طور پر اپنا آپ منوایا۔ اشتراکی نظام اس کے متوازی ایک نظام کے طور پر ابھرا۔ کارل مارکس اور ٹریڈرک انیجلز نے اس نظام کی فکری اور عملی بنیادیں قائم کیں۔ لینن اور سٹالن نے اس نظام کو روس میں نافذ کیا اور اسی نظام کی بنیاد پر ایک عظیم الشان اشتراکی سلطنت قائم کی۔ یہ نظام سات دہائیوں تک ایک متوازی عالمی نظام کے طو رپر سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرتا رہا لیکن امریکی قیادت میں سرمایہ دارانہ نظام مملکت کی اقوام نے اسے شکست دی امریکہ 90ء کی دہائی میں ایک سپریم عالمی طاقت بن گیا۔ طاقت کے نشے میں اس نے مشرق وسطیٰ میں جنگی تھیٹر لگایا 2001ء میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ دی اور ایک بدمعاش ریاست کے طور پر من مانیاں شروع کر دیں۔ 2022ء میں امریکہ افغانستان سے ناکام اور شکست خوردہ ہو کر نکل بھاگا اور اس طرح امریکہ کی چودھراہٹ کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ اس عرصے کے دوران چین نے عالمی تجارت پر اپنی گرفت مضبوط کی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھایا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی اپنی گرفت مضبوط کی۔ 5-G ٹیکنالوجی کی لانچ کے ذریعے شعبے میں اپنی برتری ثابت کی،حال ہی میں ڈیپ سیک کی لانچ نے امریکی مارکیٹ میں بھونچال برپا کر دیا۔ امریکہ اپنی کھوئی ہوئی، گرتی ہوئی اقتصادی حالت اور عالمی برتری کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایسی ہی کاوشوں کے لئے منتخب ہو کر دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیں وہ جو کچھ کررہے ہیں ایسا اچانک نہیں ہے بلکہ انہوں نے ایسا کچھ کرنے کا وعدہ کیا تھا عوام کو یقین دلایا تھا انہوں نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ایسا کچھ کرنے کی پلاننگ کی تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ جونہی اوول پاؤس میں پہنچے انہوں نے تھوک کے حساب سے ایگزیکٹو آرڈر کرنا شروع کر دیئے۔ ٹرمپ ٹیرف نے پوری دنیا میں ایک زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ جاری ہفتے کے پہلے دن (بروز پیر) عالمی سٹاک مارکیٹوں کا جو حشر ہوا وہ اسی کیفیت کا اظہارتھا۔
ٹرمپ جو کچھ کررہا ہے اورکیوں کر رہا ہے اسے ذرا سمجھ لیجئے۔ جاری عالمی نظام امریکی یہودی ماہرین کا تشکیل کردہ ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف،جنرل ایگریمنٹ آف ٹیرف اینڈ ٹریڈ اور ایسے ہی سینکڑوں چھوٹے بڑے ادارے، سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل و تعمیر کے لئے قائم کئے گئے اور ان کے ذریعے امریکی عالمی برتری کا بندوبست کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے لے کر سوویت یونین کی افغانستان میں عسکری ہزیمت تک اسی نظام کے ذریعے امریکہ نے جمہوری ممالک کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا،اشتراکیت کے خاتمے کے بعد امریکہ یک و تنہا عالمی طاقت قرار پایا، پھر 2022ء میں امریکہ کی افغانستان میں فوجی شکست کے بعد امریکی برتری ڈولتی نظر آنے لگی۔ چین نے اس عالمی نظام میں رہ کر، اسی نظام کے تحت اپنی معیشت کو مضبوط اور موثر بنایا۔ اپنا معاشی و سیاسی اثر و نفوذ قائم کیا۔ جاری عالمی نظام کو چھیڑے بغیر اس سے ٹکرائے بغیر،اسے بائی پاس کئے بغیر اس نظام میں رہ کر اپنی پوزیشن بنائی اور منوائی۔ عالمی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ امریکی عالمی برتری اور تھوڑے وقت کی بات ہے چین بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اپنی جگہ بناتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ کے قائم کردہ نظام میں رہ کر امریکہ کے لئے اپنی چودھراہٹ قائم کرنا سردست مشکل ہو چکا ہے امریکہ اپنے ہی قائم کردہ نظام کے رولز آف بزنس تبدیل کر رہا ہے وہ ایسے رولز بنا رہا ہے جو اس کے حق میں ہوں ٹیرف وار اسی سوچ کی عکاس ہے ہمیں یہ ماننے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے کہ امریکہ ابھی بھی عالمی طاقت ہے۔ امریکی معیشت، دنیا کی معیشت میں انجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ عالمی معاشی سرگرمیوں کی ڈائریکشن کا تعین کرتی ہے امریکہ میں ہونے والی کسی قسم کی تبدیلی پوری دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ٹرمپ نے 130سے زائد ممالک کے حوالے سے ٹیرف میں تبدیلیوں کا اعلان کیا تو عالمی سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ایشین و یورپین اور امریکی سٹاک مارکیٹیں دھڑام سے گر گئیں، اربوں نہیں کھربوں ڈالر ایک جھٹکے میں ڈوب گئے۔ ہم اس حوالے سے کسی شمار میں بھی نہیں آتے، لیکن ہماری سٹاک مارکیٹ بھی تاریخی مندی کا شکار ہو گئی۔ امریکی صدر نے قائم شدہ عالمی نظام میں جس طرح چھیڑ چھاڑ شروع کر رکھی ہے، امریکی مفادات کے حصول کے نام پر، امریکی نظام کے رولز آف بزنس تبدیل کرنے کے جس عمل کا آغاز کیا ہے عالمی معیشت پر اس کے بُرے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا چاہتا ہے لیکن ماہرین کے مطابق ٹرمپ کے اقدامات کے نتیجے میں امریکہ میں کساد بازاری پیدا ہوگی۔ اس طرح عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو جائے گی۔
چین اپنا معاشی بازو دکھا چکا ہے،کووڈ 19میں پوری دنیا تباہی و بربادی کا شکار ہو گئی تھی لیکن چین کے بڑھتے ہوئے قدم نہیں رکے۔ چین ایک متوقع عالمی طاقت کے طور پر آگے بڑھتا رہا اور ابھی تک بڑھ رہا ہے۔ ہانگ کانگ کی تحویل کے بعد چین نے جس طرح وہاں دھرا نظام قائم کرکے ہانگ کانگ کی برتری کو جاری رکھا۔ چین جاری عالمی نظام میں رہتے ہوئے اپنی برتری ثابت کر چکا ہے۔ اس نے انہی کی طرز کا تعمیر و ترقی کا ماڈل بھی تشکیل دے رکھا ہے۔ چین اربوں ڈالر لے کر ملک ملک جاتا ہے کہتا ہے سرمایہ کاری کرالو، سڑکیں، بندرگاہیں بنوا لو، کارخانے لگوا لو۔ چین کا یہ ماڈل بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے،چین اقوام کو اپنے معاشی ماڈل میں شریک کرتا ہے،تعمیر و ترقی میں شریک کرتا ہے، ترقی کے ثمرات میں شریک کرتا ہے اس طرح چینی ماڈل دنیا کے تین براعظموں (ایشیاء، یورپ، افریقہ) تک پھیل گیا ہے۔ درجنوں ممالک اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ چین پھیلتا جا رہا ہے، اپنے اثرات بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔2035ء تک،کہا جا رہا ہے کہ چین دنیاکی سب سے بڑی معیشت بن چکی ہوگی۔ چین ایک معاشی دیو کے طور پر عالمی معاشی منظر پر چھا رہا ہے۔ امریکہ اس کا راستہ روکنا چاہتا ہے اس کے بڑھتے ہوئے اثرات روکنا چاہتا ہے، لیکن لگتا ہے کہ امریکہ اپنی کاوشوں میں کامیاب نہیں ہو گا لیکن دنیا کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے۔