کچھ ہماری لائبریریوں کے بارے میں
ہمارے سکول اور کالج کے زمانے میں سکولوں اور کالجوں میں باقاعدہ لائبریریاں ہوتی تھیں جن کی مالی ضروریات حکومت کے خصوصی فنڈز سے پوری کی جاتی تھیں۔ یہ خصوصی فنڈز یا گرانٹس بڑی باقاعدگی سے ہر سال تمام تعلیمی اداروں کو ایشو کی جاتی تھیں۔ سکولوں میں باقاعدہ لائبریرین تو نہیں ہوتے تھے البتہ کسی ایک ٹیچر کو یہ اضافی ذمہ داری سونپ دی جاتی تھی۔ کالجوں میں تو باقاعدہ لائبریری آفیسر تعینات کئے جاتے تھے۔ اب نہ صرف یہ سلسلہ تبدیل ہو چکا ہے بلکہ اس کی ضرورت بھی تبدیلی کے عمل کا شکار ہے۔
سکول کے زمانے میں ہم باقاعدہ کوئی سی کتابیں ایشو کرا کر گھر لے آتے تھے۔وجہ شاید یہ تھی کہ نصابی مضامین کم ہوتے تھے۔ ریاضی، انگریزی، اردو، تاریخ، جغرافیہ، سائنس اور اسلامیات کی نصابی کتابیں اتنی ضخیم نہیں ہوتی تھیں کہ جتنی آج کے سکولوں میں ہو چکی ہیں …… اگر یہ کہوں تو شاید بے جا نہ ہو کہ آج سکولوں اور کالجوں میں لائبریریوں کا وہ سابقہ کلچر ہی ختم ہو چکا ہے…… اور اگر ہے بھی تو بس برائے نام ہے۔
اس خاتمے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سکولوں کی نصابی کتابوں کی ضخامت اتنی بڑھ چکی ہے کہ طلباء (اور طالبات)کو اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ کسی اضافی کتاب کی طرف دھیان دے سکیں۔
ہمارے زمانے میں یہ مقولہ عام تھا کہ وہ علم کہ جو نصابی کتابوں سے حاصل ہوتا ہے وہ نامکمل ہوتا ہے۔ اس کی تکمیل ان کتابوں سے پوری کی جاتی ہے جو غیر نصابی ہوتی ہیں۔
بقول کسے آج کے ”اچھے“ (یعنی انگلش میڈیم) سکولوں میں لائبریری ہوتی ہوگی لیکن اس کا استعمال وہ نہیں ہوتا، جو ہمارے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ ہر لکھنے والا اپنے عہدِ ماضی کو عہدِ حاضر پر ترجیح دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا زمانہ بہتر تھا اور آج کا زمانہ اگرچہ ”بدتر“ نہیں لیکن جس حوالے سے میں بات کررہا ہوں کمتر ضرور ہے۔
اس حقیقت میں تو کسی کو کوئی شک نہیں کہ آج کے سکولوں کی درسی کتابوں کی ضخامت اور مضامین کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ طلباء اور طالبات کو غیر درسی کتابوں کے مطالعہ کاکوئی موقع ہی نہیں ملتا…… آپ کسی سکول کے سٹوڈنٹ سے پوچھ لیں کہ اس نے اپنے سکول کی لائبریری سے کبھی کوئی کتاب ایشو کراکر اس کا مطالعہ کیاہے یا نہیں؟
ایک اور وجہ جو لائبریریوں کی ضرورت سے آج کے ایک عام سٹوڈنٹ کو بے نیاز کرتی ہے وہ اس کا موبائل فون ہے۔ یہ موبائل فون گویا اس کو ہر ”قسم“کی لائبریری سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ البتہ اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ اس موبائل میں گوگل کی طرف سے جو معلومات دی جاتی ہیں وہ یکطرفہ ہوتی ہیں۔ لیکن لائبریریوں میں جو کتابیں رکھی جاتی تھیں وہ یکطرفہ نہیں بلکہ ”ہمہ طرفہ“ ہوتی تھیں۔ شایدیہی وجہ تھی کہ ہم موسم گرما کی تعطیلات میں جو معلومات لائبریری کتب سے حاصل کر لیتے تھے، وہ اتنی ہمہ پہلو ہوتی تھیں کہ درسی کتابوں کی تمام محدودات (Limitations) کا مداوا کر دیتی تھیں۔
کالجوں میں تو تین ماہ کی تعطیلات ہوتی تھیں۔ ان میں اضافی کتب بینی کا سامان وہ لائبریریاں کر دیا کرتی تھیں جو ہر تحصیل، ضلع اور ڈویژن کے لیول پر باقاعدہ حکومت کی طرف سے موجود ہوتی تھیں۔ آج بھی وہ لائبریریاں تو موجود ہیں لیکن ان سے استفادہ کرنے والے طلبا اور طالبات کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ لائبریری خواہ کسی لیول کی بھی ہو، اس میں سکولوں اور کالجوں کے طلباء اور طالبات کے درسی / نصابی مبلغِ علم کی پیاس بجھانے کا کوئی سامان نہیں کیا جاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ طویل تعطیلاتی ایام میں طلباء کو ”ہوم ورک“ اتنا زیادہ دے دیا جاتا ہے کہ ان کو ٹیوشن کی احتیاج ہوتی ہے۔ ہمارے دورِ طالب علمی میں ٹیوشن کی ”وباء“ نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن آج ہر ”اچھے“ سکولوں کے طلباء اگر ٹیوشن کا اہتمام نہیں کر پاتے تو کلاس کے اپنے دوسرے ہمجولیوں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اچھے اور معروف و مشہور برانڈز کے سکولوں میں تقریباً تمام طلباء کو ٹیوشن کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ اضافی مالی بوجھ، دیگر تدریسی بوجھوں کے علاوہ ہے جو طلباء اور طالبات کے والدین کو اٹھانا پڑتا ہے۔(یہ دیگر تدریسی بوجھ ایک الگ کالم کے متقاضی ہیں)
تحصیل اور ضلع کی سطح پر میونسپل لائبریریاں قائم ہوا کرتی تھیں۔ آج بھی شاید ہوں گی لیکن ان میں طلباء اور طالبات کی آمد و رفت بس برائے نام رہتی ہے۔ اول تو طلباء کو ان لائبریریوں میں جانے کی ”فرصت“ ہی نہیں ملتی اور اگر ملے بھی تو نصابی ضروریات ان کا راستہ روک لیتی ہیں …… ہر طالب علم، اپنے ہر مضمون (Subject)میں A+ حاصل کرنے کا خواہاں رہتا ہے۔ آج کے نجی سکولوں نے A+ یا B+ وغیرہ پر اپنی اجارہ داری بنائی ہوئی ہے۔ سالانہ امتحان کے علاوہ سہ ماہی،ششماہی اور نوماہی امتحانات اور ٹیسٹ بھی ان کتابوں سے لئے جاتے ہیں جو اس سکول میں تدریس کی جاتی ہیں۔ میں نام نہیں لکھنا چاہتا مگر ہر سکول نے اپنی تمام کلاسوں کے لئے الگ الگ نصاب مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ سکول نصابی اور تدریسی کتب بھی خود ہی مقرر کرتے اور خود ہی ”مہیا“ کرتے ہیں اور تو اور سکولوں کی کاپیاں (Exercise Books) پربھی ان سکولوں کی مہریں اوربرانڈز وغیرہ ثبت ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی مضمون (Subject)کی کاپی بازار سے نہیں خرید سکتے۔ یہ کاپیاں سکول ہی دیتا ہے، سکول ہی شائع کرواتا ہے اور سکول ہی شائع کرنے والوں سے اپنا کمیشن وصول کرتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا!
ان ”اعلیٰ درجے“ کے انگلش میڈیم سکولوں میں انگریزی زبان کا دور دورہ ہے۔ اساتذہ بھی انگریزی دان، کتابیں بھی انگریزی کی اور ٹیسٹ / امتحان بھی انگریزی کے…… آپ حیران ہوں گے کہ دینیات اور اسلامیات جیسے مضامین بھی انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ سکول ایک ایسی کلاس تیار کررہے ہیں جو سکول سے فارغ ہو کر پاکستانی معاشرے میں کوئی مفید مذہبی یا فلاحی کام انجام نہیں دے سکتی اور اسی لئے بیرون ملک ”بھاگ“ جانے کی آرزو مند رہتی ہے۔ بیرونی ممالک میں چونکہ ”انگریزی زبان“ ہی کی مانگ ہے اس لئے ہمارے ہاں ان ”اچھے“ سکولوں اور کالجوں سے فارغ ہونے والے طلباء (اور طالبات) ”فرفر“ انگریزی تو بولتے ہیں۔ لیکن فرفر اردو نہیں بول سکتے۔ (پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کی بات ہی دوسری ہے) ہمارے ہاں CSS کے امتحانوں کا نصاب اٹھا کر دیکھ لیں۔ اس میں بھی انگریزی کا راج ہوگا۔ جو لوگ ان امتحانوں میں کامیاب ہوتے ہیں ان کو پاکستان کے جن اداروں میں تعینات کیا جاتا ہے، ان کا تعلق خواص سے نہیں، عوام سے ہوتاہے۔ پبلک سروس کمیشن سے جو لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کی دنیا الگ بن جاتی ہے اور ”ہما شما“ کو اس میں بار نہیں ملتا۔
CSSکے علاوہ ملک کی مسلح افواج میں جو لوگ کمیشن کے لئے جاتے ہیں ان میں اگرچہ انگریزی زبان کو اتنا دخل نہیں ہوتا کہ یہ لوگ کمیشن حاصل کرنے کے بعد جن لوگوں کے افسر مقرر کئے جاتے ہیں، وہ بیشتر دیہاتی سکولوں یا قصباتی سکولوں یا ایسے ضلعی سکولوں سے آتے ہیں کہ جو انگلش میڈیم یعنی ”اچھے“ سکول نہیں کہلاتے! انگریزی تو وہ کمیشن حاصل کرنے کے بعد ”سیکھتے“ ہیں۔
ہم بات لائبریریوں کی کررہے تھے۔ ہماری افواج میں جو لوگ کمیشن حاصل کرتے ہیں ان کے اداروں میں بڑی اچھی لائبریریاں ہوتی ہیں۔ ہر ضلع میں یا ان علاقوں میں کہ جن میں ملٹری یونٹیں یا فارمیشنیں قیام پذیر ہوتی ہیں، وہاں ”ملٹری سٹیشن لائبریریاں“ موجود ہوتی ہیں جن میں انگریزی اور اردو زبان کی کتابوں کی ریل پیل ہے۔مزید یہ کہ ہر فوجی یونٹ کی اپنی ایک چھوٹی سی لائبریری بھی ہوتی ہے اور یونٹوں کے رجمنٹل سنٹروں میں بھی اچھی لائبریریاں موجود ہیں۔
سول لائبریریوں کا ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ ان کو جو گرانٹ ہر سال، حکومت کی طرف سے ملتی ہے اس میں لائبریری کتب کی خرید پر ایک بندھا ٹکا کمیشن مقرر کر دیا جاتا ہے۔ یعنی اگر کتاب پر قیمت 1000روپے لکھی ہوئی ہے تو اس پر 40% کمیشن مقرر ہے۔ یعنی بل تو ایک ہزار کا لیا جاتا ہے جبکہ کتاب فروش کو 600روپے ملتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کتابوں کی قیمت بھی اسی حساب سے مقرر کی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو کتاب کسی سرکاری لائبریری میں جاتی ہے، اس کی قیمت اور ہوتی ہے اور جو گاہک یہی کتاب کسی اردو بازار سے خریدتا ہے تو اس کی قیمت اور ہوتی ہے۔ اس فرق نے بھی اچھی کتابوں کو اچھے کاغذ پر چھاپنے کے کلچر کو گدلا دیا ہے۔ کس کس کا ذکر کیا جائے۔ ہم دوسرے (مغربی) ممالک کی نقل تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے گاہک/ خریدار کی جیب کتنی ہلکی یاکتنی بھاری ہے!حکومتی اداروں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور لائبریریوں کی گرانٹ مقرر کرتے وقت ان پر ”خصوصی توجہ“ دینی چاہیے۔
٭٭٭٭