10دن بعد

        10دن بعد
        10دن بعد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

10دن بعدپتہ چلے گا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کا آغاز ہونا ہے یا اختتام ہونا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ اپنے صدارتی عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ اس سے پہلے تو نشستند گفتند و برخاستند ہی چل رہا ہے۔اس کے باوجود کہ مذاکرات کو بند کمرے کی کاروائی بتایا جا رہا ہے مگرمیڈیا پر دونوں طرف سے اس قدر بھرپور پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جیسے یہ مذاکرات چوک چوراہے میں ہو رہے ہوں۔ دونوں طرف سے اپنی اپنی پوزیشن کو مضبوط بتایا جا رہا ہے اور یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ کسی قسم کا پریشر نہیں لیا جائے گا۔ 

مذاکرات کے آغاز پر امریکہ سے رچرڈ گلینین نے عمران خان کے حق میں اور حکومت کے خلاف جو بیان بازی کی اس سے یہ تاثر ملا کہ امریکی حکومت نے اپنا ذہن دے دیا ہے اور اب حکومت کے پاس سوائے ہتھیا ر ڈالنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس ہوئی تو رچرڈ گلینین کا ٹوئیٹ پانی کی طرح بہہ گیا اور ایک بار پھر 9مئی کو نہ بھولنے کا بیانیہ تازہ ہوگیا۔ سونے پر سہاگہ حسان نیازی کو دس سال کی قید ثابت ہوئی اور پی ٹی آئی کے حلقوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ رچرڈ گلینین بھی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئے۔ مگر پھر عمران خان کا ٹوئٹر ہینڈل جاگ اٹھا اور اس پر ریاست کے خلاف کی گئی بیان بازی سے پی ٹی آئی کے حلقوں میں کچھ جان پیدا ہوئی لیکن اب شیر افضل مروت اور سلمان اکرم راجہ کی گولہ باری نے ایک بار پھر سے پی ٹی آئی کو پچھلے پاؤں اکھیڑ دیا ہے۔ 

اس ساری دھینگا مشتی کا جہاں پی ٹی آئی کو نقصان ہورہا ہے وہاں پر فائدہ بھی ہو رہا ہے کہ تسلسل کے ساتھ میڈیا پر زیر بحث ہے اور لگتا ہے کہ پاکستان کی ترقی سے زیادہ اہم عمران خان کی رہائی ہے کیونکہ صرف پی ٹی آئی والے ہی نہیں خود حکومتی وزراء بھی اس ایشو کو لے کر اپنی نیوز سینس ویلیو بناتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کی بہن علیمہ خان بھی عینک پہن کر پراپیگنڈے کی جنگ میں کودی ہوئی ہیں اور عمران خان سے ہر ملاقات کے بعد ایسا تاثر دیتی ہیں جیسے وہ کسی ارطغرل غازی سے مل کر آئی ہیں جو ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ 

نواز شریف اور عمران خان کی جیل سے رہائی کی سبیل میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نواز شریف کی رہائی کے لئے دوست ریاستوں کی جانب سے دباؤ ڈالا جاتا ہے جبکہ عمران خان کے لئے یہ کار دارد ان کے بیرون ملک مقیم فالوئرز سرانجام دے رہے ہیں۔ دوست ریاستوں کے حاکموں کا دباؤ خفیہ ہوتا ہے، اس کے لئے کوئی ٹوئیٹ نہیں ہوتا، کوئی بیان نہیں داغا جاتا ہے بلکہ خاموش ڈپلومیسی کے ذریعے ہدف حاصل کیاجاتا ہے۔ لیکن جب معاملہ فالوئرز کی کوششوں کا ہوتو ایسا کچھ ہی ہوتا ہے جیسا عمران خان کے کیس میں ہو رہا ہے۔ ایک تو فالوئرز کو کھلے بندوں کھیلنا پڑتا ہے، ان کی رسائی حاکموں تک کم ہی ہوتی ہے اور وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ان حاکموں کے مصاحبین تک ہی رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ اسی طرح انہیں آئی ایم ایف کے ہیڈ کوارٹر پر مظاہرہ کرنا پڑتا ہے یا پھر اسلام آباد ڈی چوک کی طرف پیش قدمی کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے ریاستوں کے حاکموں کے برعکس سیاسی لیڈر کے فالوئرز کا دباؤ وہ اثر نہیں رکھتا، جس کی توقع کی جاتی ہے اور ریاست جب چاہے اس دباؤ کو ایک پریس کانفرنس یا ایک سزا کا اعلان کرکے پس پشت ڈال دیتی ہے۔ 

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کے حق میں جو پریشر خیبر پختونخوا سے آیا ہے وہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے نہیں آسکا۔ بلوچستان سے تحریک کے آغاز کی بات تو ہوئی تھی مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ محمود خان اچکزئی اور اخترمینگل کی دستیابی کے باوجود متوقع عوام اس تحریک کاحصہ نہ بنے۔ آج اچکزئی صاحب اور مینگل صاحب دونوں ہی پی ٹی آئی کے لئے قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ پھر پی ٹی آئی نے 26ویں آئینی ترمیم کا راستہ روکنے کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کی جانب دیکھا اور ان کے در پر حاضری شروع کردی مگر مولانا بھی پی ٹی آئی کے ڈسے ہوئے تھے اس لئے اعتبار کی وہ فضا قائم نہ ہو سکی جس کی توقع پی ٹی آئی کے حامیوں نے باندھ لی تھی۔ جماعت اسلامی کا تو حال تو یہ ہوچکا ہے کہ وہ نہ ہیؤں میں ہے نہ شیؤں میں، یوں بھی اس کی حمائت کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جیت کے ساتھ ہی ہوا ہو گئی تھی۔ 

ا ب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اب سے 10دن بعد ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی حلف اٹھانے کے بعد عمران خان کی رہائی کے لئے اس حد تک جائیں گے جس کی توقع ان کے حامیوں نے لگا رکھی ہے۔اگر تو وہاں سے متوقع پریشر آگیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے پی ٹی آئی کی آس امید پوری کردی تو حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کو جواز مل جائے گا وگرنہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گا۔ لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے خلاف امریکی سپریم کور ٹ کو سزا کا اعلان کرنے سے نہیں روک سکے ہیں تو پاکستان میں عمران خان کو سزا ہونے سے کیسے بچاپائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ عمران خان کے حق میں کچھ کہیں نہ کہیں، عمران خان کو سزا ہو کر رہے گی اور ہاؤس اریسٹ یا جلاوطنی کی بات اس کے بعد ہی ہوگی۔ یہ نہیں ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو رہا کرواکے پاکستان میں نئے انتخابات کا اعلان کریں گے اور پی ٹی آئی کو دوبارہ برسراقتدار لانے کا سامان کریں گے۔ یہ پاکستان ہے کوئی بنانا ری پبلک نہیں ہے! 

مزید :

رائے -کالم -