قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 117
فلم میں پروڈیوسر کی طرف سب کی نظریں ہوتی ہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ا گر وہ کسی فنکار سے آنکھیں بدل لے تو سارے آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور فنکار کی کوئی سائیڈ نہیں لیتا۔ فلم میں ایکٹر کا تو کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ خواہ وہ کتنی بھی زیادتیاں کرے نہ تو پروڈیوسر اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی ڈائریکٹر اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے لیکن جو لوگ پس پردہ کام کرتے ہیں ان کی سروسز ہمیشہ خطرے میں پڑی رہتی ہیں اور ڈائریکٹر یا پروڈیوسر چاہے تو ان کو نکال کر ان کی جگہ کسی اور آدمی کو کھڑا کرسکتا ہے۔
1949ء کا واقعہ ہے کہ ایک فلم بن رہی تھی جس کے ڈائریکٹر سبطین فضلی تھے۔ جو بڑے مشفق دوست بھی تھے اور اپنے وقت کے نامور آدمی بھی تھے۔ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر تھے۔ خدا انہیں جنت نصیب کرے۔ بڑے پائے کے میوزک ڈائریکٹر تھے اور اعلیٰ درجے کے انسان تھے۔ اس فلم میں مَیں اور طفیل ہوشیار پوری شاعری کررہے تھے۔ فلم کمپنی کے پروڈیوسر، انچارجا یا پروڈیوسر کے منیجر ایک وکیل صاحب تھے اور اب وہ اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ خدا ان پر رحمت کرے۔ اس فلم کے پروڈیوسر فرید سنز والے تھے۔ جنہوں نے فضلی صاحب کو پکچر کے لئے فنانس کیا تھا۔ انہیں یہ فلم بنوانے کی ضرورت شاید اس لئے محسوس ہوئی کہ انہیں فضلی صاحب کے بڑے بھائی جو غالباً سیکرٹری صنعت تھے سے کوئی کام آپڑا تھا۔ چنانچہ فرید سنز والے اس فلم کے پروڈیوسر تھے اور وہ ایڈووکیٹ ان کے منیجر تھے کیونکہ وہ ویسے بھی ان کے ادارے کی طرف سے وکالت کرتے تھے۔ یہ صاحب ویسے بھی کچھ گڑ بڑ تھے۔ وہ ادائیگی کے سلسلے میں اکثر وعدہ خلافیاں کرتے تھے۔
ایک بار میں اپنے دو گانوں کی ادائیگی کے لئے ان کے پاس گیا۔ یہ دونوں گانے مکمل ہوچکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کل پیسے دیں گے۔ زمانہ ایسا تھا کہ تلی میں آیا گلی میں کھایا والی بات تھی۔ا دھر سے پیسے ملتے تھے اور ادھر پہلے سے کچھ بل سرپرہوتے تھے۔ ورنہ تو کوئی بات نہیں ہوتی اگر پیسے ایک دو دن لیٹ بھی ہوجائیں تو کوئی بات نہیں لیکن اس زمانے میں ہاتھ بہت تنگ ہوتا تھا۔ میں نے ان کے پاس اگلے دن گیا تو پیسے نہ ملے۔ میں نے کہا کہ آج تو کوئی بات نہیں ہے لیکن آپ اگلا وعدہ ٹھیک ٹھاک کریں۔ کہنے لگے کہ میں پرسوں ادائیگی کردوں گا۔ پرسوں آئی تو انہوں نے پھر عذر کیا تو میں نے کہا کہ ادائیگی کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ ہمیں بس آپ ہی کے پیسے نہیں دینے ہیں۔ دنیا میں اور بھی کئی مجبوریاں ہیں۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 116 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس زمانے میں مَیں بہت تیز ہوتا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ کی مجبوریوں کی ایسی تیسی، میں آپ کی مجبوریوں کا پابند نہیں ہوں۔ میں نے کہا کہ لائیے میرے کاغذ۔ بھاڑ میں جائیں آپ کے پیسے۔ میں آپ کے گانے لکھتا ہی نہیں۔ انہوں نے سوچا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ گانے کسی دوسرے شاعر سے لکھوالیں گے۔ چنانچہ وہ کہنے لگے کہ آپ اپنے گانے واپس لے لیں اور انہیں پھاڑ دیں ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔ میں وہاں سے اٹھ کر H.M.V کے دفتر میں آگیا۔ ماسٹر غلام حیدر ابھی نہیں آئے ہوئے تھے البتہ ان کے ایک اسسٹنٹ موجود تھے میں انہیں سارا واقعہ بتا کر کام چھوڑ کر واپس گھر چلا آیا۔
بعد میں ماسٹر غلام حیدر آئے تو انہوں نے اپنے اسسٹنٹ سے پوچھا کہ آج قتیل صاحب نہیں آئے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہے اور پروڈکشن منیجر نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی تھی جس سے تلخی پیدا ہوئی اور وہ چلے گئے ہیں اور جاتے ہوئے یہ کہہ کر گئے ہیں کہ میں کام نہیں کروں گا۔ ماسٹر صاحب نے فضلی صاحب کو بلایا۔ ماسٹر غلام حیدر ایک عظیم انسان تھے۔ انہوں نے میرے لئے جو قدم اٹھایا میں ان سے بڑا کسی اور میوزک ڈائریکٹر کو قدم اٹھاتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے فضلی صاحب کو سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ اس میں قصور کس کا ہے؟ فضلی صاحب نے کہا کہ پروڈکشن منیجر کا قصور ہے۔ کہنے لگے کہ کیا آپ گوارا کریں گے کہ قتیل صاحب یوں ناراض ہوکر چلے جائیں۔ کہنے لگے کہ وہ ہمارے دوست بھی ہیں لیکن آپ یہ بتائیں کہ اصلی طور پر کیا ہونا چاہیے۔
فضلی صاحب نے کہا کہ پروڈکشن منیجر کی ایسی تیسی۔ اسے قتیل صاحب سے وہاں جاکر معافی مانگنا چاہیے اور پیسے بھی وہاں جاکر ادا کرنے چاہئیں۔ چنانچہ فرید سنز میں ایک مسئلہ بن گیا۔ فضلی صاحب نے ان سے کہا کہ گیت قتیل صاحب ہی کے ہوں گے اور آپ کا آدمی انہیں پیسے بھی پہنچائے گا اور جاکر ان سے معافی بھی مانگے گا۔ پروڈکشن منیجر کہیں دوسرے شہر میں جاچکا تھا۔ فرید سنز والوں نے فضلی صاحب سے کہا کہ آپ ہم سے پیسے لے لیں اور قتیل صاحب کو پہنچادیں۔ چنانچہ ماسٹر غلام حیدر اور فضلی صاحب پیسے لے کر خود میرے گھر پر پہنچے۔ مجھے پیسے دئیے اور کہا کہ آپ نے جو کیا ایسے ہی کرنا چاہیے تھا اور وہ آکر آپ سے معافی بھی مانگے گا۔ چنانچہ بعد میں پروڈکشن منیجر نے خود آکر مجھ سے معافی بھی مانگی اور میں عزت سے وہاں جانے لگا۔
ایسے سربراہان شعبہ بہت کم ملتے ہیں جو اپنے ساتھیوں کی عزت رکھیں اور ان کی خاطر لڑیں میں نے اس طرح کے لوگوں میں عطاء اللہ شاہ ہاشمی، ماسٹر غلام حیدر اور سبطین فضلی کو دیکھا ہے۔ یہ لوگ آج بھی میرے ذہن میں دیوتا کی طرح کھڑے ہیں۔ جنہوں نے یہ پروا کئے بغیر کہ جھگڑا بڑھ کے ان کی علیحدگی کا باعث بن سکتا ہے میری پاسداری کی۔
کچھ احسان فراموش دوست
بعض لوگ اصول کی خاطر اپنے مفادات سے بھی کھیل جاتے ہیں اور اپنے اصولوں پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ مگر بیشتر لوگ ہیں جو اپنے مفاد پر تھوڑی سی زد پڑنے کے ڈر سے بھی پرانی دوستی کو بھول جاتے ہیں اور احسانات کو نظر انداز کرکے وہ کچھ بھی کرگزرتے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے۔ بڑی سطح پر سیاسیات میں آپ کو اس طرح کی کئی مثالیں مل جائیں گی کہ ایک شخص نے آپ کے ساتھ مروت کا سلوک کیا اور دوسروں کو نظر انداز کرکے آپ کو ترقی کی اعلیٰ سیڑھی پر پہنچادیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے آپ اتنے بددل ہوگئے کہ اپنے محسن کو ڈس لیا اور یہ بھی پرواہ نہیں کی کہ دنیا آپ کو کیا کہے گی۔ سیاست میں اس کی زندہ مثال ہمارے اپنے ہی زمانے میں موجود ہے لیکن چھوٹے پیمانے پر دیکھیں تو کئی معاملات ایسے ہیں کہ آپ کو اپنے ہی دوستوں میں اس کی مثالیں مل جائیں گی۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایوب خان کے مارشل لاء کا زمانہ تھا۔ جب پہلی بار اخبارات کی آزادی پر زد پڑی تو پروگریسو پیپرز کے اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار قومیالے گئے اور ردعمل میں بعض اصول پرست لوگوں نے وہاں سے مستعفی ہونا مناسب سمجھا۔ ان مستعفی ہونے والوں میں سے ایک حضرت احمد ندیم قاسمی تھے جو اس وقت ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ جب ان کا استعفیٰ گیا تو قدرت اللہ شہاب بار بار ان کے پاس آئے انہیں اپنے ساتھ لے کر گئے اور لمبی چوڑی محفلوں میں انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں کیونکہ آپ کا امروز کا ایڈیٹر رہنا آپ کی اصول پرستی کے خلاف نہیں ہے۔ اگر آپ سرکار کی ملازمت میں بھی ہوتے تو بھی ڈیوٹی کرتے۔ یہ شہاب صاحب کی نیک دلی تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ قاسمی صاحب بیروزگار ہوجائیں لیکن قاسمی صاحب نہیں مانے اور انہوں نے بیروزگار ہونا مناسب سمجھا۔
قاسمی صاحب اس زمانے میں نسبت روڈ پر دیال سنگھ لائبریری کے پیچھے ایک مکان میں رہتے تھے۔ ان کے پاس قرب و جوار میں ان کے وہ دوست بھی رہتے تھے جن پر قاسمی صاحب کے احسانات بھی تھے اور ان کے ساتھ دوستی کے رشتے بھی بڑے استوار تھے۔ قاسمی صاحب کو بیروزگار ہوئے چار مہینے گزرگئے لیکن ان کا کوئی دوست ان سے یہ پوچھنے بھی نہیں آیا کہ آپ کس حال میں ہیں اور یوں بھی ہوا کہ اگر قاسمی صاحب کے راستے سے کوئی اور آشنا آرہا ہوتا تو وہ راستہ بدل کرگزرجاتا۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 118 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں