سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 22
گمشتگین اور بڑے بڑے سردار جنہوں نے عیسائیوں سے لے کر شیخ الجبال تک اس کے قتل کی سازشیں کی تھیں، گلے میں تلوار ڈالے اور سینے پر ہاتھ باندھے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والی سلطنت مصر اور بنی امیہ کے شام کا بادشاہ ایک لڑکے کی رکاب تھامے غلاموں کی طرح ادب برتتا ہوا چلا آرہا ہے۔ گمشتگین کے علاوہ سب کے سلام قبول ہوئے۔ مذہب ستونوں اور سونے سے منڈھی چھت کے ایوان میں دستر خوان بچھا۔ زرکار شیشے کے برتنوں میں نعمتیں چنی گئیں۔ تصویروں سے زیادہ خوبصورت کنیزین مہین کپڑے اور موٹے زیور پہنے خدمت پر موجود کھڑی تھیں۔ بسم اللہ ہوئی لیکن آقا زادرے نے ہاتھ نہ اٹھایا ۔ پوچھنے پر جواب دیا۔
’’گمشتگین کی جاں بخشی سے قبل ہم کو آب و دانہ قبول نہیں۔ ‘‘
فاتح سپہ سالاروں کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں اور سینکڑوں ہاتھ قبضوں پر چلے گئے۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 21 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پھر کمسن صالح نے سنا۔
’’جان آپ کی طرف سے بخشی گئی اور منصب آپ کے والد کے غلام کی طرف سے عطا کیا گیا۔ ‘‘
پھر ننھا سا بادشاہ اپنے خدم و حشم کے ساتھ قلعے کی طرف کوچ کر گیا اور اس نے دوسرے دن جمعے کی نماز کے بعد قلعے میں جلوس کرنا پسند کیا اور ملک العادل کے ترتیب دیئے جشن فتح میں نزول اجلال فرمایا۔ قصر حلب کے باغ میں وہ شامیانہ نصب ہوا جس کی چھت اور ستون مخمل پوش تھے اور ہزار ہا قانوس ، جھاڑ ، پنشاخے، شمعیں اور مشعلیں روشن تھیں۔ سپاہی سے سپہ سالار تک سب کے سب سرخ، زرد، سفید ، سیاہ، سادی، دھاری دار، سوتی، ریشمی، قباؤں ، عباؤں اور کفتانوں میں ملبوس بیٹھے تھے۔ کیفا کے فرمانروا نورالدین۔۔۔ماروین کے حکمراں جلال الدین اپنی اپنی افواج کے ساتھ مقبول ہوئے۔ سردار و امیر ، والی و عامل، پیادے اور سوار ، جوڑے اور گھوڑے، مال و منصب ، مرتبے اور جاگیر سے نہال ہوئے۔ پھر اس کے تخت کے سامنے دو عورتیں دف اورکمنجہ بجانے لگیں۔ ایک لڑکی اپنے نصف چہرے پر نقاب ڈالے بھاری بدن پر ڈھیلا ٹخنوں تک بسا خوبصورت کرتا پہنے ، پتلی کمر کوریشمی رسیوں سے اور پتلی کئے داہنے ہاتھ میں خنجر لئے چیتے کی طرح ہلکے ، سیک، بے خوف قدموں سے چلتی ہوئی ناچتی ہوئی آئی اور بیٹھے ہوئے امیروں پر حملہ آور ہونے لگی۔ ہر بار یہ معلوم ہوتا کہ خنجر سر میں پیوست ہو گیا ارو ہر بار وہ امیروں کے عماموں کی سطح چاٹ کر چلا آتا ۔ وہ نسائی ہاتھ کی مہارت اور قدرت پر محظوظ ہو رہا تھا کہ بارگاہ کا بایاں بازو روشنی سے اور روشن ہو گیا۔ منے سے بادشاہ صالح کی چھوٹی بہن اور مرحوم سلطان کی بیٹی نصف چہرے پر موتیوں کا نقاب ڈالے گھوڑے پر سوار کھڑی تھی ۔ وہ تخت سے اس طرح اٹھا جیسے ادنیٰ خادم اپنے جلیل الشان آقا کے سامنے اٹھتے ہیں، شہزادی کو اپنی گود میں لے کر اتارا ۔ بیچ تخت پر مسند کا سہارا دے کر بٹھا دیا اور خود اس کے سامنے دوزانو ہو بیٹھا۔ پھر التماس کیا۔
’’صاجزادی بلند اقبال نے قلعے سے برآمد ہونے کی زحمت کیوں فرمائی ۔ کسی غلام کو حکم فرماتیں ہم ڈیوڑھی پر حاضر ہو جاتے۔‘‘
’’ہم آپ سے حلب کا قلعہ مانگنے آئے ہیں۔ ‘‘
’’حلب کا قلعہ آپ کیا کریں گے؟‘‘
’’ہم اس میں کھیلیں گے۔ ‘‘
’’آقازادی۔۔۔حلب کا قلعہ تو ایک قلعہ ہے۔ اگر آپ نے مصر یا شام یا یمن یا سوڈان کا تخت مانگا ہوتا تو رب ذوالجلال کی قسم وہ بھی عطا کیا جاتا۔‘‘
پھر دس ہزار دینار سرخ کی نذر پیش کی اور اراکین حکومت کو اشارہ کر کے نذریں گزاریں ۔ گود میں لے کر گھوڑے پر سوار کرایا۔ طغرل اور تاج الملوک کو چھتروچنور دیا۔ خود گڑیا کی طرح بیٹھی ہوئی شہزادی کی رکاب تھام کر پاپیادہ چلے۔ پشت پر تیس ہزار کا فاتح لشکر اس طرح چل رہا تھا جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں۔ حلب کے عوام وہ وقت یاد کر رہے تھے جب مرحوم سلطان نے بدگمان ہو کر مصر پر چڑھائی کا سامان کیا تھا اور مصر کے وزیراعظم نے پیغام بھیجا تھا کہ ایک یوسف کے لئے اتنے بڑے لشکر کی کیا ضرورت ہے ۔ کسی غلام کو حکم دیجئے وہ مصر آکر مجھے اونٹ کی ننگی پیٹھ پر باندھ کر لے جائے۔ اور سلطان یہ پیغام سن کر رو دیا تھا اور پیار و محبت کے خطوط لکھے تھے۔ جب تک آقا زادی کا گھوڑا قلعے کے دروازوں میں غروب نہ ہو گیا وہ کھڑا دیکھتا رہا۔ وزیر اور سردار ، والی اور امیر پیشوائی کو دوڑے مگر اس نے مطلق توجہ نہ دی اور سوار ہو گیا۔ مقر بین بارگاہ نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔
’’اس قلعے کا تین بار محاصرہ ہوا ہے ۔ پانچ ہزار جانیں اور پانچ لاکھ اشرفیاں خرچ ہوئی ہیں۔ آپ کی ذاتِ مقدس پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ یہ قلعہ عراق کا دروازہ ہے، شام کا محافظ ہے ، شیخ الجبال کا نگہبان ہے ۔ کھلونا نہیں ہے جو کسی لڑکی کو کھیلنے کیلئے دے دیا جائے۔ ‘‘
’’سچ ہے۔۔۔فوجی اعتبار سے یہ قلعہ بہت بڑا ہے۔ لیکن اس تعلق کے مقابلے میں ، جو سلطان مرحوم کو میری ذات سے تھا بہت چھوٹا ہے۔ اگر میں سلطان کی شفقت بھلا سکتا ہوں تو تم میری عنایات نظر انداز کر سکتے ہو اور تم سے چھوٹے تمہارے الطاف فراموش کر سکتے ہیں۔ اس طرح زینہ بزینہ قوم کو بداخلاقی کی خاموش تعلیم دی جا سکتی ہے‘‘
حلب سے آرمینیا کے عیسائی بادشاہ روپن کی سرکوبی کو اٹھا۔ راستے میں قلیچ ارسلاں کی تادیب کرتا ہوا، المصیصہ کو غارت کرتا ہوا احسن المناقر کے دروازے پر اتر پڑا ۔ اسے زمین کے برابر کر کے روپن کی تباہی کیلئے ہتھیار پہن رہا تھا کہ روپن کا بھائی سفیر بن کر حاضر ہوا بیش بہانذرانے پیش کر کے اور رودھو کر روپن کی جان بخشی کرائی۔ واپسی میں رودسنجہ کے کنارے واسط میں دربار کیا۔ شاہانِ عراق ، موصل، اردبیل، کیفا، ماروین، سلطان قونیہ ار شاہ آرمینیہ کی نذریں قبول کیں، خلعتیں پہنائیں اور امن و آشتی کا خطبہ دیا۔
شام کے نائب السلطنت اور اس کے مشہور برادر زادے سے فرخ شاہ کی پراسرار موت کا پرچہ لگا۔ پھر خبر آئی کہ افرنجیوں نے دمشق کے مضافات لوٹ لئے۔ وہ غیض و غضب کے عالم میں ایک ایک کوچ میں دو دو منزلیں لپیٹتا دمشق پہنچا۔ قصر کے سامنے میدان میں تین ہزار قیدی اور آٹھ سو سر ڈھیر تھے۔ ابھی قیدیوں کی زندگی کا فیصلہ ہونا تھا کہ زندگی کی سب سے وحشت ناک خبر آئی۔ یعنی کر ک کاریجینا لڈ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کے منصوبے میں مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کے علاوہ رسول اللہ کا جسم اطہر بھی (نعوذ باللہ) قبر مبارک کھو د کر لے جانا ہے ۔ اس خبر سے ساری دنیائے اسلام میں آگ لگ گئی ۔ لیکن سب اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہاتھ ملتے رہے، ماتم کرتے رہے، صدقے دیتے رہے اورآڑھے وقتوں میں ڈھال کا کام لیتے تھے، سولی پر لٹکا دیا اور ریجینا لڈ کے تعاقب میں سوار ہوا۔
(جاری ہے )