شہید حکیم محمد سعید
شہید حکیم محمد سعید ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو اہمیت کا حامل ہے اور کسی ایک پہلو کو دوسرے پہلو پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ تاہم ایک سوشل ریفارمر کی حیثیت سے ان کا کردار اس اعتبار سے اہم ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے جب ہمارا قومی مورال گرچکا تھا اور ہم انتشار و افتراق کا شکار ہو کر اپنی راہ سے بھٹک چکے تھے تو اس وقت ہمیں ایک ایسے سماجی مصلح کی ضرورت تھی جو ہمیں وہ راہ دکھا سکے جس کا تعین علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ حکیم محمد سعید اس قومی ضرورت کی تکمیل کر رہے تھے۔ وہ ہر قسم کے مذہبی، لسانی، نسلی اور علاقائی تعصب سے پاک ایک مثالی پاکستانی تھے۔ وہ سماجی مصلح کے معیار پر پورے اترتے تھے اور خاموشی سے ذہنوں کو بدلنے کی جدوجہد میں مصروف تھے جو ایک مصلح کرتا ہے۔
سماجی تبدیلیاں ذہنوں کو بدلنے سے آتی ہیں۔ وہ چیخنے چلانے، شوروغوغا کرنے، جلسے جلوس کرنے، مظاہرے کرنے یا پارٹیاں بنانے سے نہیں آتیں بلکہ مائنڈ سیٹ بدلنے، بیداری پیدا کرنے اور صالح خیالات کو ذہن نشین کرنے سے وجود پاتی ہیں۔ ان کو قانون کے ذریعے نافذ نہیں کیا جاسکتا، اگر کر بھی دیا جائے تو دیرپا نہیں بنایا جا سکتا۔
شہید حکیم محمد سعید نے شام ہمدرد کے تحت قوم کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں سے علم و دانش کے سوتے پھوٹے اور قومی ذہن کی آبیاری ہوئی اور قوم کو شعور و آگہی کی ذہنی غذا مہیا کی گئی۔ بعد ازاں جنوری 1995 ء میں انہوں نے شام ہمدرد کو شوریٰ ہمدرد میں بدل دیا اور اس میں قوم کے بہترین دماغوں کو جمع کر کے انہیں عوام اور حکومت کی رہنمائی کے فریضہ کی ادائیگی پر لگا دیا۔ اس وقت سے تاحال شوریٰ ہمدرد اپنا یہ فریضہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ بخوبی ادا کر رہی ہے۔ اکثر معاملات میں حکومت نے شوریٰ ہمدرد کی تجاویز اور سفارشات سے استفادہ کیا ہے اور عوام نے رہنمائی حاصل کی ہے۔
شہید حکیم محمد سعید دن میں ایک ناشتہ اور ایک کھانے پر زور دیتے تھے۔ تاہم بچوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے تھے۔ انہوں نے شادیوں میں کیے جانے والے بے جا اسراف اور شادی ہالوں میں غذا کے بے تحاشا ضائع ہونے کے خلاف آواز اٹھائی۔ وہ کہتے تھے کہ ایک غریب ملک خوراک و غذا کی اس سنگد لانہ بربادی کا متحمل نہیں ہو سکتا، جبکہ ملک کی ایک اکثر آبادی پیٹ بھر کر کھانے سے محروم رہتی ہے۔ ان کے مطابق شادیوں میں بے جا اسراف اور خوراک کا یوں ضائع کیا جانا نہ صرف ظالمانہ ہے،بلکہ اسلامی شریعت کے بھی خلاف ہے۔ انہوں نے باقاعدہ تحقیق کے ذریعے اعداد و شمار جمع کیے اور بتایا کہ کس طرح روزانہ شادی ہالوں میں لاکھوں روپے کی غذا ضائع کر دی جاتی ہے اور لاکھوں قیمتی گھنٹے شادی کی طویل تقریبات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف کی پہلی حکومت میں انہی کی تجویز پر شادی کھانوں پر پابندی لگائی گئی۔انہوں نے بچوں کے لیے اسکولز کھولے اور اس ضمن میں دیہی بچوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بچوں کے لیے نونہال بزم ادب، ہمدرد نونہال اسمبلی قائم کی اور رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا۔ بچوں کے لیے بہت سے سفرنامے لکھے۔ شہر علم وحکمت، مدینتہ الحکمہ تعمیر کیا اور اشاعت و فروغ تعلیم کے لیے عملی جدوجہد کی۔
وہ بارہا اپنی تقاریر میں کہتے تھے کہ اس قوم کا مستقبل کیسے سنور سکتا ہے جس کے چار کروڑ سے زائد نونہال اسکول نہیں جا رہے ہیں، جس کے 80 لاکھ نونہال گھروں اور کارخانوں میں کام کر رہے ہیں۔ وہ ان سرمایہ داروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے جو اپنے گھروں اور کارخانوں میں نونہالوں سے کام لیتے ہیں۔ وہ دولت مندوں سے سوال کرتے تھے کہ کیا ان کا کوئی نونہال تعلیم سے محروم ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں ہے تو پھر قوم کے بچے کیوں تعلیم سے محروم ہیں؟ وہ اہل دولت پر زور دیتے تھے کہ وہ نونہالوں کے لیے اسکول کھولیں۔
غربت جو ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اس کا حل حکیم صاحب نے یہ نکالا کہ ”غربت کے خاتمے کے لیے غربت اختیار کی جائے“ یعنی قناعت پر مبنی انتہائی سادہ زندگی گزاری جائے جس کا عملی نمونہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم امت کے سامنے پیش فرماچکے ہیں۔ قوم کو بھی سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں انتہائی سادہ زندگی گزارنی چاہیے اور قناعت اختیار کرنی چاہیے کہ یہی ہماری غربت اور معاشی مسائل کا حل ہے۔
پاکستان کے اس بطل جلیل نے 9۔ جنوری 1920 ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ وہ پاکستان کے لیے جیے اور پاکستان کی خاطر 17 اکتوبر 1998ء کی صبح شہادت کا جام نوش کیا۔ حکومت پاکستان نے بچوں کے لیے شہید حکیم محمد سعید کی خدمات کے اعتراف میں ان کے یوم پیدائش، 9 جنوری کو ”پاکستان میں بچوں کا قومی دن“ قرار دیا ہے۔