غریبوں کو جینے دیں
ایک خبر چھپی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ادویات کی قیمتوں پرحکومتی کنٹرول ختم ہونے کے بعد ڈیڑھ برس کے عرصے میں قیمتیں تین سو فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔ 18فروری 2024ء کو اس وقت کی نگران کاکڑ حکومت نے مقابلے کی فضاء پیدا کرنے کے نام پر ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی کا یہ اختیار ختم کر دیا تھا کہ وہ ادویات کی قیمتوں کا تعین کرے۔ اس فیصلے کے مضمرات کو جانچے بغیر موجودہ حکومت نے بھی اسے برقرار رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آئے روز اضافہ کیا جا رہا ہے اور بعض ادویات تو پانچ سو سے ہزار فیصد تک مہنگی ہو گئی ہیں۔ ماضی کی حکومتیں کیا پاگل تھیں جنہوں نے ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول رکھا ہوا تھا اور قیمتوں میں اضافہ مختلف پہلوؤں کو دیکھ کر کیا جاتا تھا۔ یہ وہ ملک تو ہے نہیں جہاں عوام کی قوت خرید دیکھ کر قیمتیں بڑھائی جاتی ہوں۔ یہ تو ناجائز منافع خوروں کی جنت ہے انہیں قابو میں رکھنے کے لئے حکومت نے سوچ سمجھ کر ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی جیسے ادارے بنائے تھے کیونکہ یہاں جس کا بس چلتا ہے، عوام پر بجلی گرا دیتا ہے۔ آج بھی اگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پاکستان اور بھارت میں قیمتوں کا موازنہ کیا جائے تو ایک ہی دوا پاکستان میں دس گنا زیادہ قیمت پر بیچی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بات خام مال کی نہیں،نہ ہی مخصوص نوعیت کے سالٹ کی ہے بلکہ قیمتوں کی کھلی چھوٹ اس کا بنیادی سبب ہے جو پاکستان میں ان کمپنیوں کو حاصل ہے بھارت میں حاصل نہیں۔ سب سے زیادہ قیمتوں میں اضافہ دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر،کینسر اور بچوں کی بیماریوں میں استعمال ہونے والی ادویات کی قیمتوں میں کیا گیا ہے۔ فارما کمپنیاں اس کے حق میں دلیل یہ دیتی ہیں کہ قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ان ادویات کی دستیابی یقینی ہو گئی ہے۔ واہ کیا نکتہ ہے۔ اس دستیابی کو کیا کرنا ہے جو عوام کی قوت خرید سے باہر ہو۔ حکومت نے چونکہ ہر ایسے معاملے سے قطع تعلق کرلیا ہے، جس کا تعلق عوام کو ریلیف دینے سے تھا، ہر قسم کی سبسڈی کا خاتمہ اور اوپن مارکیٹ کا تصور آج کی پالیسی ہے۔ اس پالیسی کا اصل خالق تو آئی ایم ایف ہے، جس نے غریبوں کی گردن پر انگوٹھا رکھا ہوا ہے، وہ طبقہء امرا کی مراعات ختم کرنے کی کبھی بات نہیں کرتا۔ اربوں روپے کما کر ایک کوڑی ٹیکس نہ دینے والے بھی اس کی نظر میں نہیں آتے، اس کی نظر تو اس پر ہوتی ہے یوٹیلٹی سٹور سے عوام کو کہیں سستی اشیاء تو نہیں مل رہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ غیر ملکی ادویہ ساز کمپنیاں بھی آئی ایم ایف کی سہولت کار ہوں۔ بدلے میں اس نے نگران حکومت پر دباؤ ڈال کر ادویہ کی قیمتوں کا معاملہ حکومت کی دسترس سے نکال دیاہو۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا ایک چھوٹے سے عرصے کے دوران قیمتوں میں تین سو گنا اضافہ کر دیاجائے۔ یہ تو اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ ہے۔ غریبوں کے پاس تو عام گولی خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے، جب انہیں مہنگی انسولین خریدنی پڑتی ہے تو ان کے دل کی دھڑکن رکنے لگتی ہے۔
پنجاب حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات کرنا چاہتی ہے۔وزیراعلیٰ مریم نوازنے ادویات بھی گھروں تک پہنچانے کا ایک منصوبہ بنایا ہے لیکن صوبے کی تقریباً تیرہ کروڑ آبادی کو مفت ادویات کیسے فراہم کی جا سکتی ہیں۔ صرف لاہور کی حد تک کوئی منصوبہ نافذ کرنے کامقصد یہ تو نہیں کہ پورا صوبہ کور ہو گیا ہے۔ اس وقت کے اعدادو شمار کے مطابق دل، بلڈ پریشر اور شوگر کے امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ ڈاکٹروں کے ایک پینل نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے دل کے امراض سے ہر سال پانچ لاکھ افراد مر جاتے ہیں۔ شوگر اب گھر گھر کی بیماری ہے۔ ایک ہی گھر میں کئی افراد اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی منصوبہ ایسا نہیں بنایاجا سکتا کہ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کو مفت علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ پھر سرکاری ہسپتالوں کا جو حال ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ ابھی چند دن پہلے مجھے ملتان کارڈیالوجی ہسپتال جانا پڑا۔ جہاں میرے کزن رانا محمد وسیم داخل تھے۔ ایمرجنسی اور آؤٹ ڈور میں اتنا رش تھا کہ سانس تک لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے پورا ملک ہی دل کے امراض میں مبتلا ہو گیا ہو۔ یہیں مجھے ایک جاننے والے ڈاکٹر مل گئے۔ میں نے رش کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا آج کل کسی کو گیس کی وجہ سے سینے میں درد بھی محسوس ہوتا ہے تو یہ سمجھ کر دل کا مسئلہ یہاں چلا آتا ہے جس سے جو حقیقی مریض ہوتے ہیں وہ متاثر ہوتے ہیں۔ میں نے کہاوہ گھر بیٹھ کر یہ کیسے طے کر سکتا ہے کہ سینے کا درد گیس کی وجہ سے ہے یا دل کی وجہ سے، اسے تو بہرحال آنا ہی ہے۔ اس پر انہوں نے کہا پھر وہی حال ہوتا ہے جو آپ کو نظر آ رہا ہے۔ حالت یہ ہے ایمرجنسی کے مریض کو بھی تین سے چار گھنٹے کرسی پربیٹھنا پڑتا ہے۔پھر اس کے لئے کسی بیڈ پر جگہ ملتی ہے۔ ملتان ہی میں بچوں کا ایک ہسپتال چلڈرن کمپلیکس ہسپتال ہے۔ یہاں آپ دن کے وقت جائیں تو تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ جہاں تک سرکاری ہسپتالوں سے ادویات ملنے کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس کی اب تک کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ سرکاری ہسپتالوں کے باہر سب سے زیادہ میڈیکل ہال ہوتے ہیں۔ ان پر بروقت رش بھی نظر آتا ہے کیونکہ ہسپتال میں داخل مریضوں کے لواحقین سے ادویات انہی میڈیکل ہالوں سے منگوائی جاتی ہیں۔
مسئلے کا حل وہی ہے، جو پاکستان میں کئی دہائیوں تک چلتا رہا۔ ادویات کی قیمتوں کوبے لگام نہ چھوڑا جائے اور حکومت ان پر نظر رکھے۔ کوئی دوائی اگر صرف قیمت بڑھانے کے لئے جان بوجھ کر مارکیٹ سے غائب کر دی جائے تو اس کی انکوائری کرائی جائے۔ چور بازاری ثابت ہو جائے تو ڈرگ کورٹ میں ان کمپنیوں کے کیسز بھیجے جائیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے پنجاب میں ہیلتھ کلینک منصوبہ متعارف کرایا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے صحت کی بہترین سہولیات عوام کا حق ہیں۔ انہوں نے 150مراکز صحت کو ہیلتھ کلینکس میں تبدیل کرنے کا اعلان بھی کیاہے تاہم ان کی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اکیلی ہیلتھ سسٹم ریفارمز نہیں کر سکتی،اس کے لئے ڈاکٹروں کی مدد درکار ہے۔ اگر شفاف نظام آ جائے، ضلعوں اور تحصیلوں تک پھیلے ہوئے ہسپتال عوام کو طبی سہولیات فراہم کرنے لگیں، ادویات کی خریداری عوام سے نہ کرائی جائے اور حکومت فراہم کرے تو ایک آئیڈیل صورت حال پیدا ہو سکتی ہے مگر یہ اتنا آسان نہیں۔ اصل نکتہ وہی ہے کہ ادویات کی قیمتیں عوام کی پہنچ میں لائی جائیں۔ سرکاری ہیلتھ سیکٹر کی اتنی بساط نہیں کہ وہ سارا بوجھ برداشت کرسکے۔ ہسپتالوں میں ادویات نہیں ہوں گی تو لواحقین انہیں مرنے کے لئے تو نہیں چھوڑیں گے، باہر سے مہنگی ادویات لاکر دیں گے چاہے انہیں قرض اٹھانا پڑے یا گھر بیچنا پڑے۔ ادویات کی قیمتوں کے رجحان کو نہ روکا گیا تو غریبوں کے لئے جینا تو کیا مرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔