سنتھیا ڈی رچی کے الزامات اور انصاف کے تقاضے

سنتھیا ڈی رچی کے الزامات اور انصاف کے تقاضے
 سنتھیا ڈی رچی کے الزامات اور انصاف کے تقاضے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان آجکل امریکی خاتون کی طرف سے پاکستانی سیاستدانوں پر دست درازی کی شکایات کی زد میں ہے اور اس کی آڑ میں باقی بھی الزامات لگانے کی تاک میں ہیں،عوام چیخ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں آٹا اور چینی چور ملک لوٹ کر کھا گئے ہیں اور حکومت کی طرف سے بھاری بھر کم سبسڈی کے احکامات سے ککھ پتی ارب پتی بن چکے ہیں، کمیشن پہ کمیشن قائم کر کے کچھ لوگوں کو بیرون ملک رخت سفر باندھنے کا موقع دیا گیا جس سے یہ باور کیا جا رہا ہے کہ ایسا احتساب جس پر عوام بھی یقین کریں، موجودہ مرشد کے بس کی بات نہیں.

امریکی خاتون کی طرف سے ریپ کی شکایت 9سال پرانی ہے لیکن یہ شکایت بھی باعث شرم ہے، اقتدار کی راہ داریاں انتہائی خطرناک اور دشوار گزار ثابت ہوتی ہیں،مغرب ان راہداریوں کو اپنے لیے کھولنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کر سکتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو،ہم تو ٹھہرے معصوم اور اجنبی، فیصلہ کرتے کرتے اس قدر دیر کر دیتے ہیں کہ پھر فیصلہ پر اتناہی کہا جا سکتا ہے کہ ”اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئی کھیت“ہاں البتہ اسلامک معاشرے میں شکایت کنندہ کو داد رسی کا مناسب موقع ملنا چاہیے۔

بطور ایک قانون دان اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیم کےرکن ہونےکی حیثیت سےمیں یہ دیکھکرپریشان ہوگیاہوں کہ اپنی نوعیت کی اس انوکھی شکایت پر ابھی تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟امریکی خاتون کے انٹرویو نشر کرنے کا پہلے ہی ایک مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ مذکورہ خاتون نے اپنی پٹاری سے مزید زہریلے سانپ نکالنے کا اعلان کر کے پاکستانی معاشرے میں کورونا کے بعد سب سے زیادہ تبادلہ خیال کی جانیوالی خبر کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اس طرح کی شکایات کا ماضی میں ریکارڈ کوئی اتنا حوصلہ افزا نہیں،جبکہ شکایت کنندہ نے معافی کی صورت میں اپنی میڈیا مہم پر نظر ثانی کا بھی عندیہ دیا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں جب کسی ایسی بات کو مصالحے لگا لگا کر ایک دوسرے کو سنا نہ لیں لوگوں کو چین نہیں آتا۔ ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف تو پاکستانی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پھر سے اڑے گئےکہ 9سال بعد ایسے گھٹیا الزامات جس طرح ٹیلی ویژن پر مختلف چینلز پر مزے لے لے کر اور تفصیلی انٹرویو پیش کیے جا رہے ہیں ،اس سے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہوئے شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں، جس کے ہمارے معاشرے پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہونگے مگر پیمرا اس صورتحال پر خرگوش کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہے ۔

پاکستانی ٹی وی چینلز کو ایسے پروگرام پیش کرنے سے قبل ہزار مرتبہ یہ سوچ لینا چاہیے کہ ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں وہ اسلامی معاشرے کی تباہی اور بربادی کا سبب بھی بن رہے ہیں، اس طرح کی مغربی شکایات کا چر بہ پاکستان میں مصالحے لگا کر پیش کرنے کے خطرناک رجحان کو جنم دے گا۔ اگر متاثرہ فریق اپنا بیان واپس لے یا معاملہ عدالت تک چلا جائے تو ٹی وی پر اسکے انٹرویوز دونوں صورتوں میں انصاف کے عمل کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، متاثرہ فریقین کو انصاف کے ذریعے داد رسی کا پوراموقع ملناچاہیےاورعدالت آئین میں دیے گئے حقوق کے مطابق انہیں تحفظ فراہم کرے ،ہم حیرا ن ہیں کہ ریاستی ادارے پس پردہ پاکستان کے قومی لیڈروں کی گردنیں غیر ملکی ایجنڈے کے تحت ذبح کرا رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں؟؟ سوشل میڈیا پر اس طرح یکطرفہ ٹرائل کا سدباب کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ یہ انتہائی نامناسب اقدا م ہے۔۔۔ ہمیں چادر اور چاردیواری کے تقدس کا پورا خیال رکھنا چاہیے، بعض اداروں کی ناقابل فہم خاموشی ان کے نزدیک مجرمانہ ہے جبکہ شکایت کنندہ کی ان اداروں تک رسائی واضع طور پر نظر آ رہی ہے۔

مولانا طاہر القادری کیس میں سپریم کورٹ نے ایک پیمانہ طے کر لیا تھا کہ عدالت سے کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے؟ اتنے سال گزر جانے کے بعد اگر کوئی استغاثہ ہے تو اسے مثبت سوچ کے ساتھ عدالت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ساتھ رابطے کی ترغیب دی جانی چاہیے کہ ناقابل واپسی ہتک عزت اور ہرزہ سرائی کا میڈیاٹرائل ہونے دیا جائے اور داد رسی بعد میں ہو۔۔۔ پاکستان میں ویڈیو سکینڈل کوئی نئے نہیں بلکہ چیئرمین نیب کی ویڈیو پر بھی لعن طعن ہو چکی ہے اور نیب کے جج بھی میڈیا میں ایک عرصہ تک چھائے رہے جبکہ معاملہ ابھی بھی زیر سماعت ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف بالخصوص سندھ حکومت کورونا بحران کے بعد وفاقی حکومت کے ساتھ باہم دست و گریبان ہے، اٹھارویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ پر نکتہ چینی بھی ہورہی ہے جبکہ دفاعی اخراجات بھی کرونا کے باعث متاثر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

امریکہ اور چین کورونا وائرس کے باوجود ایک پچ پر نہیں جبکہ بھارت امریکی آشیر باد سے علاقائی تھانیداری کیلئے پر تول رہا ہے تو دوسری طرف پاک چائنہ کاریڈور دنیا کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا ۔مذہبی قوانین میں چھیڑ خانی کسی بھی وقت آتش فشاں بن سکتی ہے۔ کشمیر عوا م بھارتی تسلط کے خلاف نبرد آزما ہیں اور وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر پاکستان اپنے مسائل میں اس قدر دھنسا ہوا ہے کہ اسے یہ موقع ہی نہیں مل رہا کہ وہ اقوام متحدہ کو کشمیر کا وزٹ کرائیں اور ان کی داد رسی کی جا سکے۔ سول ملٹری تعلقات ایک کتاب کی شکل اختیار کر رہے ہیں اور جمہوریت بلدیاتی ادارے اور ووٹ کا احترام سبھی ایک بحران سے گزر رہے ہیں، اس دوران سپریم کورٹ کے ایک سینئر ترین جج کا مقدمہ بھی دس رکنی بنچ سن رہا ہے ۔جولائی 2007کا جسٹس رمدے کا فیصلہ یہی بتاتا ہے کہ حکومتی نیت عموماً ججوں کے خلاف اچھی نہیں ہوتی اور وہ ججوں کو پسند ناپسند کی کسوٹی سے گزارنے کی غلطی کرتے رہتے ہیں۔

اعلی عدالتوں کے ججوں کے خلاف جلدی میں دائر کیے گئے ریفرنس قانونی تقاضوں سے آراستہ نہیں ہوتے اور جلدی جلدی میں ایسی شکایات خود حکومت کے لئے باعث ندامت اور شرمندگی کا باعث بنتی ہیں۔جج اور جنرل اپنے بھائیوں کے ذریعے احتساب پر تاحال متفق ہیں،عوام بہرحال بلا امتیاز، صاف اور شفاف احتساب کی منتظر ہے، اس میں کتنا وقت لگے گا؟ کسی کو پتہ نہیں کیونکہ صاف اور شفاف احتساب کیلئے کوئی اصلاحات نافذ نہیں کی گئیں۔قدرت جب فیصلے کرنے پر آئے تو وہ کن فیکون کی طاقت کی مالک ہے۔عوام کے نام پر بڑے بڑے سیاسی کھیل تماشے کیے جاتے ہیں مگر کبھی بھی نظام میں اصلاحات کیلئے جدوجہد نہیں کی جاتی۔ پاکستانی سیاستدان کبھی کبھی نو بال پر چھکا بھی مارتے ہیں اور کبھی چھکے مارنے والوں کو اقتدار کی مسند پر بھی بٹھا دیا جاتا ہے ۔

قانون کے ساتھ اس طرح کے مذاق کے گہرے اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں جو اسے بری طرح متاثر بھی کرتے ہیں بعض لوگو ں کو یہ وہم ہے کہ وہ اہم بھی ہیں مگر قبرستان ایسے ہی احمقوں سے بھرے پڑے ہیں جو یہ کہتے تھے کہ ہمارے بغیر نظام کا چلنا ناممکن ہے اور قیامت آ جائے گی۔

(بیرسٹر امجد ملک برطانوی وکلا کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز کے چیئرمین ہیں اور برطانیہ میں انسانی حقوق کے سال 2000کے بہترین وکیل کے طو رپر ایوارڈ یافتہ بھی ہیں وہ ہیومن رائیٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تا حیات ممبر ہیں)

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -