کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کی قرارداد
مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 (کشمیر کی خصوصی حیثیت) کی بحالی کے لیے قرارداد منظور کر لی ہے۔ کشمیر میڈیا سرو س کے مطابق نائب وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنماء سریندر سنگھ چوہدری نے ایک قرارداد پیش کی جس کا مقصد آرٹیکل 370 کی اُن خصوصی دفعات کو بحال کرانا تھا جن کے تحت جموں و کشمیر کو خود مختاری حاصل تھی۔سپیکر اسمبلی نے ووٹنگ کرائی تو اراکین کی اکثریت نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا جس پر اِسے باضابطہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے قرارداد کے ذریعے نئی دہلی سے مطالبہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بحال کی جائے، بھارتی حکومت جموں اور کشمیر کے لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحالی، آئینی ضمانت اور دفعات کی بحالی کے لیے آئینی طریقہ کار کے مطابق کام کرنے کے لیے بات چیت شروع کرے۔قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کی یہ قانون ساز اسمبلی خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کی اہمیت کی توثیق کرتی ہے جس نے کشمیر کے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور حقوق کا تحفظ کیا، اِس کی یکطرفہ برطرفی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیتی ہے کہ خصوصی حیثیت کی بحالی کا عمل قومی یکجہتی اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی جائز اُمنگوں کی حفاظت کرتا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ قرارداد ایک آنکھ نہیں بھائی، اِس کے 29 ارکان اُس اسمبلی کا حصہ ہیں اور اُن سب ہی نے درمیان میں کھڑے ہو کر احتجاج شروع کر دیا، سپیکر کی بار بار اپیل کے باوجودنشستوں پر نہ بیٹھنے اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کرتے رہے۔ بی جے پی ارکان نے خصوصی حیثیت کی بحالی کے خلاف نعرے بازی کی اور قرارداد پیش کرنے والوں پر پاکستانی اور ملک دشمن ایجنڈا کے حامی ہونے الزام عائد کیا۔ معاملہ اْسوقت بگڑ گیا جب بھارتی پارلیمنٹ کے رُکن انجینئر عبدالرشید کے بھائی خورشید شیخ آرٹیکل 370 اور 35۔اے کی فوری بحالی کے مطالبے کا بینر اُٹھائے ایوان میں داخل ہوئے، یہ دیکھ کر بی جے پی کے ارکان بالکل ہی آپے سے باہر ہو گئے، انہوں نے خورشید شیخ کو گھیر لیا، ہنگامہ آرائی عروج پر پہنچ گئی،انتہائی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ بی جے پی کے لوگوں نے قرار داد کی کاپیاں چھیننے کی کوشش کی تو ہاتھا پائی بھی ہوئی، سپیکر نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کر لیاجنہوں نے بی جے پی اراکین اسمبلی کو گھسیٹ کر ایوان سے باہر نکالا۔ ہنگامہ آرائی کے بعد سپیکر نے اجلاس عارضی طور پر ملتوی کر دیا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں،انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف منظور قرارداد پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370 کی دیوار قبرستان میں گاڑھ دی ہے، دنیا کی کوئی طاقت اِسے دوبارہ نہیں لا سکتی۔ بھارتی وزیر خارجہ نے بھی کچھ عرصہ قبل ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ بھی اپنی طرف سے مسئلہ کشمیر حل کر چکے ہیں اور اِس سلسلے میں کوئی مذاکرات نہیں چاہتے۔
یہ اچھی ضد اور ہٹ دھرمی ہے، بھارت اقوام متحدہ کی ساری قراردادوں کو ہوا میں اُڑا چکا ہے، شملہ معاہدے کی بھی اِس نے لاج نہیں رکھی اور خود ہی یکطرفہ طور پر کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔ یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35۔اے کو منسوخ کر دیا تھا، بھارتی سپریم کورٹ بھی اِس پر مہر ثبت کر چکی ہے، اِس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کے لئے وہاں باہر سے لوگوں کو بسانا بھی شروع کر دیا تاکہ اگر کبھی بادل نخواستہ استصوابِ رائے کرانا پڑ گیا تو فیصلہ اس کے حق میں ہی آئے۔زیر بحث دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیر میں ظلم و ستم کا نیا دور شروع کر دیا، انٹرنیٹ بند کر دیا، وہاں کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ ختم کر دیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی، ہزاروں کشمیری بالخصوص نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا، وہ بھارت کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جاتا ہے، وہاں کے رہائشی بنیادی انسانی سہولیات اور حقوق سے محروم ہیں لیکن عالمی برادری خاموش ہے، آج تک کوئی بھارت کو اُس کا اصل چہرہ نہیں دِکھا سکا۔ بھارت نے لگ بھگ ایک دہائی تک مقبوضہ کشمیر میں انتخابات نہیں ہونے دئیے، رواں برس ستمبر میں انتخابات ہوئے تو حکمران جماعت بُرے طریقے سے ہار گئی،سرکاری مشینری کے استعمال کے باوجود تین مراحل میں 90 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 29 نشستیں ہی حاصل ہوسکیں جبکہ نیشنل کانفرنس کے اتحاد نے کْل 53 نشستیں حاصل کیں جس میں نیشنل کانفرنس 42 اور کانگریس نے چھ نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ بعد میں چار آزاد امیدواروں اور ایک اور جماعت کے واحد رکن نے بھی نیشنل کانفرنس کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کے پارلیمانی رہنما عمرعبداللہ وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئے۔ انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ کشمیری عوام نے مودی سرکار کے کالے قانون کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کو مسترد کر دیا۔ بھارتی سیاسی تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ مودی حکومت کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کشمیری خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔کشمیری بخوبی واقف ہیں کہ یہ کام صرف بھارتی پارلیمان ہی کر سکتی ہے لیکن پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے اگلا دور نریندر مودی کا نہ ہو اور ایسی حکومت بن جائے جو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحال کر دے۔ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے منتخب ہونے کے بعد یہی کہا تھا کہ وہ جانتے ہیں کشمیر کی حیثیت ختم کرنے والی مودی حکومت کسی صورت اِس آرٹیکل کو بحال نہیں ہونے دے گی لیکن یہ حکومت ہمیشہ نہیں رہے گی، اُنہیں اُس حکومت کا انتظار کرنا ہو گا جو اِس آرٹیکل کو بحال کرائے۔اہل ِ کشمیر کی جدوجہد تو دہائیوں سے جاری ہے، اُن کے ہمت و حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے،وہ اچھے دِنوں کی آس میں بھارتی حکومت کے تمام تر مظالم سہہ رہے ہیں، زیادتیاں برداشت کر رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حقیقت سب پر عیاں ہے،ظلم ہو رہا ہے، لوگوں پر زمین تنگ ہو رہی ہے، طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں چُور ہے لیکن کمزور کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اقوام متحدہ اپنی قرادادوں پر عمل کرانے میں ناکام ہے،دنیا میں اَمن قائم کرنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔مودی حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اپنی منشاء اور خواہش کے مطابق کسی دوسرے کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتی، خطے میں امن قائم کرنے ہی میں اُس کی بھلائی ہے۔ایک جھٹکا اِس سال ہونے والے انتخابات میں وزیر اعظم مودی کھا چکے ہیں،اب بھی اگر اُنہوں نے کشمیریوں کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا تو ہو سکتا ہے آئندہ اقتدار اُن کی جماعت کے نام نہ ہو۔