اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہر حال ہر قیمت پر آپ کی تعریف کی جائے تو پھرکوئی بھی شخص آپ کے ساتھ سچی اور ایماندارانہ تعلق داری قائم نہیں کر سکتا
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:43
جب معاشرے میں باہمی میل جول کے دوران اپنی رائے اورمرضی چھوڑ کر محض اپنے آپ کو دوسروں کے لیے پسندیدہ ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے پر مبنی رویہ اورطرزعمل اپنایا جاتا ہے توپھرمعاشرے میں سچ کا عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہر حال اور ہر قیمت پر آپ کی تعریف کی جائے، آپ کو سراہا جائے تو پھرکوئی بھی شخص آپ کے ساتھ سچی اور ایماندارانہ تعلق داری قائم نہیں کر سکتا اور نہ ہی آپ اعتماد کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رکر سکتے ہیں۔ آپ دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی کے لیے خود کو قربان کر دیتے ہیں۔
اجتماعی طور پر ایک طبقے کے لحاظ سے سیاستدان قابل بھروسا نہیں ہوتے۔ دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے پر مبنی ان کی ضرورت حیرت انگیز اور انوکھی ہوتی ہے، اس کے بغیر وہ بالکل صفر ہو جاتے ہیں اس لیے وہ ہمیشہ دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ سب لوگ ان سے خوش رہیں۔ جب ایک سیاستدان کسی بھی قسم کا کوئی بیان دیتا ہے تو اس کا اندازبیان ایسا ماہرانہ نوعیت کا ہوتا ہے کہ ہر شخص خوش ہو جاتا ہے۔ اس قسم کا رویہ اورطرزعمل سیاستدانوں میں بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
ایک ایسے روئیے کو بآسانی اپنایا جا سکتا ہے جس کے باعث دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کی جا سکے، اس کے برعکس اس روئیے کی اپنائیت بہت مشکل ہے جس کے ذریعے دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی حاصل نہ ہولیکن جب آپ یہ آسان طریقہ اپناتے ہیں تو آپ اپنے روئیے اور طرزعمل کی نسبت دوسروں کی مرضی اور خواہش کو زیادہ اہم اور قابل قدر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی خطرناک اور مکروہ جال ہے اور ہمارے معاشرے میں اس سے بچنا بہت ہی مشکل ہے۔
دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی کے حصول پرمبنی جال اورپھندے سے محفوظ رہنے کے لیے ان عناصر کا تجزیہ اور جائزہ بہت اہم اور ضروری ہے جن کے باعث دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ ذیل میں مختصر طور پر وہ صورت احوال بیان کی گئی ہے جس کے باعث دوسروں کی خوشنودی اورضامندی حاصل کرنے پرمبنی رویہ اورطرزعمل جنم لیتا ہے۔
دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے پر مبنی ضرورت کے ضمن میں مثالیں اور واقعات
اپنی خواہش اور مرضی کے مقابلے میں دوسروں کی خواہش اور مرضی کو فائق اور صحیح سمجھنے کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ ”آپ کو اپنی ذات پر یقین اور بھروسا نہیں ہے…… اس کا کسی کے ساتھ تقابل کرنا چاہیے۔“ ہمارا معاشرہ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ دوسروں کی مرضی اور خواہش کو اپنی مرضی اور خواہش سے برتر اور اعلیٰ حیثیت دینے کا عمل ہمارے طرززندگی میں مکمل طور پرداخل ہو چکا ہے۔ آزادانہ طرزفکر نہ صرف غیرروایتی ہے بلکہ یہ ان اداروں کی بھی دشمن ہے جو ہمارے معاشرے کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو تشکیل دیتے ہیں۔ اگر آپ کی پرورش اس قسم کے معاشرتی حالات میں ہوئی ہے تو پھر آپ میں یہ خوبیاں اور خصوصیات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے: ”اپنے آپ کو قطعی قابل بھروسا اور اعتماد کے قبال نہ سمجھو!“ یہ رویہ اورطرزعمل ہماری شخصیت کا نچوڑ اور معاشرے کی بنیاد بن چکا ہے۔ اگر آپ اپنی مرضی اور خواہش کے مقابلے میں دوسروں کی خواہش اور مرضی کو مقدم جانتے ہیں اور پھر بھی ان کی خوشنودی حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں تو پھر آپ جائز طور پر مایوسی، بے وقعتی یا احساس جرم کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ آپ سے زیادہ اہم اور قابل قدر ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔