ایران میں سڑکیں صاف ستھری اور کشادہ تھیں، چند روز قیام کیا، مختلف تاریخی مقامات دیکھے، پاکستان کیلئے محبت بھرے جذبات جگہ بہ جگہ نظر آئے
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:18
ایران میں سڑکیں بڑی صاف ستھری اور کشادہ بنی ہوئی تھیں۔ یہ قومی شاہراہ تھی۔ سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ٹورسٹ ہوٹل، ریسٹورنٹس اور کیفے ٹیریاز بڑی کثرت سے بنائے گئے تھے۔ جہاں کھانے پینے والوں کا بھاری ہجوم نظر آ رہا تھا۔ ان دنوں ایران میں برگر اور فوڈ کی دیگر اقسام کے امریکی برانڈ موجود تھے۔ ہم نے ایران میں امریکی برگر کھائے جو کہ ہم برطانیہ میں اس لئے نہیں کھاتے تھے کہ ہمیں شبہ تھا کہ اس میں ہیم برگر ہی نہ کھا جائیں جس کا ایران میں امکان نہیں تھا۔ ایران میں جو نقشہ ہمیں دیا گیا تھا اس کے مطابق ہم وہاں سے چلتے رہے۔ راستے میں بہت سے مزارات بھی آئے ہم ہر مزار پر حاضری دیتے وہاں فاتحہ خوانی کرتے اور آگے چل پڑتے۔ اس طرح ہمیں دن بھر سفر کرنے کھانے پینے کی عادت تھی۔ رات کو ہم کوئی مناسب ہوٹل یا موٹیل ڈھونڈ کر آرام کر لیتے اور اگلے روز پھر سفر یہاں تک کہ ہم لوگ تہران پہنچے وہاں چند روز قیام کیا مختلف تاریخی مقامات دیکھے۔ بڑا ماڈرن شہر تھا۔ خواتین یورپی لباس میں ملبوس سفر کرتیں اور دفاتر میں کام کرتی تھیں۔ نہایت خوبصورت اور تاریخی شہر تھا۔ وہاں رہنے اور سیر کرنے کا بڑا مزہ آیا۔
براستہ افغانستان
اس وقت ایران…… شہنشاہ ایران کا ملک تھا۔ ہم جب تہران میں داخل ہوئے تو بڑی سخت چیکنگ اور نگرانی کی جا رہی تھی اور جب ہم سول ایریا میں آئے تو پاکستان کے لئے خوشگوار اور محبت بھرے جذبات ہمیں جگہ بہ جگہ نظر آئے۔ ہم نے آپس میں طے کر رکھا تھا کہ رات کو سفر کم کریں گے۔ جہاں ممکن ہوا قیام اور آرام کریں گے۔ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے ہم ایران کے دارالحکومت تہران پہنچ گئے۔ ہم کئی روز سے سفر میں تھے۔ تہران میں ہم نے ہوٹل والوں کو کہا کہ ہم نے نہانا ہے جس پر انہوں نے ہمیں رہنمائی فراہم کی اور ایک ایسی جگہ پر بھیج دیا جہاں لوگ کھلے پانی میں غسل کر رہے تھے۔ یہاں مالش اور چمپی وغیرہ کا بندوبست بھی تھا مگر ہم کو تو گرم پانی کا غسل چاہئے تھا۔ وہاں ہمیں کھلا گرم پانی میسر ہوا۔ ہم بڑی دیر تک نہاتے رہے۔ سفر کی تھکان بھی اُتر گئی اور ہم لوگ تازہ دم بھی ہو گئے۔ تہران میں ہم چند روز ٹھہرے یہاں بہت سیر کی اور یہاں کے قابل دید مقامات بھی دیکھے۔ تہران اور لاہور شہر میں بڑی مشابہت ہے کہ تہران بھی کھانوں اور ناشتوں کا شہر ہے۔ ہر جگہ کھانے پینے کی ہر قسم کی اشیاء میسر ہیں اور اس زمانے میں بہت کم قیمت پر خوراک کی اشیاء میسر تھیں۔ تہران میں چند روزہ قیام کے بعد زاہدان شہرمیں پہنچ گئے۔ کبھی زاہدان پاکستان کا شہر ہوتا تھا۔ صدر ایوب نے ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتے ہوئے یہ شہر ایران کو دے دیا…… ہم جب اس شہر میں پہنچے تو یہاں ہوٹلوں، چائے خانوں اور بازاروں میں ہمیں پاکستانی کلچر نظر آیا۔ یہاں لوگ زیادہ تر اُردو بولتے اور سمجھتے تھے۔ اگرچہ وہاں فارسی بولنے والوں کی بھی بھاری تعداد رہتی ہے اور بہت سے لوگوں نے تو افسوس کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان نے نہ معلوم کیوں یہ علاقہ ایران کو دے دیا حالانکہ یہاں تانبے اور چاندی کی کانیں ہیں۔ زیر زمین پیٹرول ہے اور دیگر بے شمار معدنی ذخائر بھی موجود ہیں جو ایرانی حکام یہاں سے نکال رہے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔