الیکشن2024ء کے ابتدائی نتائج

         الیکشن2024ء کے ابتدائی نتائج
         الیکشن2024ء کے ابتدائی نتائج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  8 فروری کو جنرل الیکشن بالآخر منعقد ہو گئے اور اس کی تاخیر کے حوالے سے ہونے و الی چہ میگوئیاں دم توڑ گئیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ الیکشن کے نتائج سیاسی جماعتوں کی توقعات کے عین مطابق نہیں اور دوتہائی اکثریت والی بات تو ظاہر ہے کہ اب سوچنی نہیں چاہیے جو بہر حال ایک المیہ ضرور ہے کہ مخلوط حکومتیں کبھی بھی جمہوری عمل کو بہتر انداز سے آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتیں۔جمہوریت عوام کی رائے  کو کہا جاتا ہے اور شاید یہی ایک موقع ہوتا ہے جس میں انھیں  اپنی مرضی کے نمائندے  چننے کے لیے ایک ووٹ میسر آتا ہے۔ جمہوری عمل جن ملکوں میں کامیابی سے رائج ہے وہاں معاشرے شعوری اور علمی ترقی کی منازل طے کر چکے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کی دو تہائی آبادی  اس سے محروم ہے اور ان کی یہی محرومیاں الیکشن کے موقع پر خریدی اور استعمال کر لی جاتی ہیں۔اس بار کے ابتدائی نتائج میں آزاد ارکان نے حیران کن کردار ادا کیا ہے جنہوں نے لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہ ہونے کے باوجود بڑی سیاسی جماعتوں کومشکل میں ڈال دیا ہے۔ہر چند کہ یہ ارکان آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں لیکن  ان سب کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے سب جانتے ہیں اور اسی بنیاد پر انھیں ووٹ ملے ہیں۔ شاید یہ پاکستان میں ہونیو الے کسی بھی الیکشن میں آزاد حیثیت سے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہو۔اب اتنی زیادہ تعداد میں پارلیمنٹ کا حصہ بننے والے یہ ارکان کیا لائحہء عمل اختیار کریں گے یہ ظاہر ہونا ابھی باقی ہے۔ اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ یہ ووٹ انھیں آزاد حیثیت سے نہیں بلکہ ایک سیاسی  پارٹی کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ملا ہے جس کو کسی اور کے پلڑے میں ڈالنا بہت بڑا فیصلہ ہو گا اور دوسری صورت میں الیکشن کمشن کے اعلان کے مطابق کہ آزاد ارکان کیا خود سے اپنا قائد ایوان چننے کی پوزیشن میں بھی آ سکتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ اب زیادہ دور نہیں رہا۔رزلٹ کی دھند ابھی مکمل چھٹی نہیں لیکن  الیکشن کی رات گئے تک آنے والی خبروں سے اس کا مجموعی موڈ سامنے آ چکا تھا۔اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کی سیاسی کمپین سب سے زیادہ موثر اور جاندا ر تھی جس میں زبانی تیروں کے بھی خوب وار کئے گئے۔سندھ کے اندرونی حلقوں میں انھیں مکمل کلین سویپ حاصل ہونے کی اطلاعات ہیں جو دراصل اس صوبے میں ان کی سسٹم پر مضبوط گرفت کی آئینہ دار ہے۔ اسلام آباد میں زردادی صاحب کا پڑاؤ ہو چکا ہے اور وہ ان حالات میں کوئی بھی سرپرائز دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں کہ انھیں سیاسی جوڑ توڑ کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ قومی حکومت جو بھی بنے لیکن بلاول صاحب کو کم از کم سندھ کے باسیوں کو۳۰۰ یونٹ تک  مفت بجلی دینے کا وعدہ ضرورپورا کرنا چاہیے۔ کے پی کے کی بات کریں تو وہاں کے لوگوں کا فیصلہ بھی یکطرفہ اور واضح ہے کہ کم و بیش تمام سیٹوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان ہی کامیابی کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔سب سے بڑا دھچکہ پنجاب کے رزلٹ کولگا ہے جس میں ن لیگ  کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے جو ان کے لیے مکمل غیر متوقع ہے۔ لاہور فیصل آباد گوجرانوالہ راولپنڈی اور جنوبی پنجاب کے بہت اہم کھلاڑی اپنی سیٹ نہیں بچا سکے۔ پنجاب کے رزلٹ کے اثرات ہی قومی حکومت پر پڑتے ہیں اور اس سے  ان کی توقعات قطعاً پوری نہیں ہو سکیں۔

شاید اس میں ان کی حد سے زیادہ خود اعتمادی کا بھی حصہ ہے  جس میں ان کی قیادت اور ارکان سبھی برابر کے شریک ہیں۔سیاسی کمپین میں بھی غیر ضروری تاخیر کی گئی اور الیکشن سے ایک دن قبل ہیڈ لائن کی صورت لگنے والا اشتہار جسے خبر کی صورت ڈیزائن کیا گیا تھا ان کی اسی خوداعتمادی کو ظاہر کر رہا تھا۔ اس الیکشن میں سب سے نمایاں کردار ان کثیر نوجوانوں کا ہے جو پہلی بار اس الیکشن میں اپنا حق استعمال کر رہے تھے  جنھیں ان کی طرف سے  مکمل آؤٹ آف فوکس رکھا گیا۔رات گئے تک آنیو الے رزلٹ سب سے زیادہ ان کے لیے حیران کن بھی تھے اور پریشان کن بھی۔ملک کی مجموعی صورتحال کو دیکھیں تو  اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جن کو سنبھالنے کے لیے ایک مضبوط اور توانا سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ہمیں معاشی، معاشرتی اور بین الاقوامی بہت سے گھمبیر چیلنجز کا سامنا ہے جس  کے لیے  جمہوری عمل کا طاقتور ہونا بہت ضروری ہے۔ ملک کی تمام  قوتوں کو اس وقت تمام تر مفادات اور ذاتی رنجشوں سے بالا تر ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی مفاد کیلیے ہر ایک سے بات کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ہم اس وقت کسی بھی کمزور اور عدم استحکام سے دوچار حکومتی نظام کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ چیزیں اتنی خراب ہو چکی ہیں کہ انھیں درست سمت کی طرف گامزن کرنے میں ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وطن سیاسی طور پر جتنا مستحکم ہو گا اتنا  ہی جلد ہم مسائل سے نمٹنے کے قابل ہو سکیں گے۔جمہوریت اگر عوام کی رائے کے احترام کو کہتے ہیں تو اس کی عملداری کے لیے یہ وقت بہت اہمیت کا حامل ہے۔مایوسیوں کی دھند اتنی گہری ہو چکی کہ اس کے لیے سب کو  پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اپنی اپنی مشعل کو تھامنا ہو گا تا کہ ہماری نسلوں کے مستقبل کی راہیں روشن ہو سکیں۔

مزید :

رائے -کالم -