پانچ ڈپٹی کمشنروں کو انعام اور گڈگورننس

   پانچ ڈپٹی کمشنروں کو انعام اور گڈگورننس
   پانچ ڈپٹی کمشنروں کو انعام اور گڈگورننس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 سرکاری ملازمین کو کیش ایوارڈ یا اضافی تنخواہیں تو پہلے بھی دی جاتی تھیں، مگر یہ معاملہ نچلے ملازمین تک رہتا تھا  پنجاب میں یہ غالباً پہلی بار ہوا ہے کہ اِس بار صوبے کے مختلف اضلاع میں کام کرنے والے پانچ ڈپٹی کمشنروں کو وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے اعلیٰ کارکردگی پر دو ماہ کی بنیادی تنخواہ کے برابر اعزازیے سے نوازا گیا ہے۔ان میں ذوالفقار احمد بھون بہاولنگر،امیرا بیدار لیہ، سعدیہ مہر پاکپتن، خالد جاوید گورایہ میانوالی اور ظہیر عباس شیرازی مری شامل ہیں۔اب اِس عمل کی حمایت اور اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔اصل معاملہ یہ ہے کہ بیورو کریسی کے افسروں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو پوری محنت اور دیانتداری سے ادا کریں گے، ماضی میں ایسا ہوتا تھا کہ اچھے افسروں کی حاکم ِ وقت کی طرف سے تعریف کر دی جاتی یا شہباز شریف کی طرح اُسے پاس بُلا کر شاباش دے دی جاتی تھی،جزا و سزا کا ایک نظام تو ہمارے ہاں ہمیشہ ہی رائج رہا ہے کہ کسی کی کارکردگی بری رہی تو اُسے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اچھی رہی تو کام جاری رکھنے کا موقع دیا جاتا رہا۔ پھر چونکہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر سب کی نظروں میں رہتا ہے،خاص طور پر ارکانِ اسمبلی کے لئے وہی اختیارات کا گھنٹہ گھر بھی ہوتا ہے،اس لئے ماضی میں ایسے بیسیوں واقعات پیش آ چکے ہیں کہ کسی ایک یا دو چار ارکانِ اسمبلی کی شکایت پر ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس فیصلے پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کیا اب بیورو کریسی کو بھی کام کرنے کے لئے کوئی لالچ دینا پڑے گا۔کیا بیورو کریسی واقعی اتنی غیر فعال ہو چکی ہے کہ جسے متحرک کرنے کے لئے کیش ایوارڈز یا اضافی تنخواہوں کا لالچ دینا پڑے گا،پھر پنجاب میں سے صرف پانچ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو ایوارڈز یا انعام دے کر جن تین درجن سے زائد ڈپٹی کمشنروں کو محروم رکھا گیا ہے،کیا اُن کی کارکردگی مثالی نہیں اگر مثالی نہیں تو اُن کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی یا باز پُرس کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اعتراض کرنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح بیورو کریسی کو پنجاب حکومت کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) ہی وہ جماعت ہے جو افسروں کو نواز سکتی ہے اس لئے اُن کے دیے گئے ایجنڈے پر کام کیا جائے۔یہ بیورو کریسی کو سیاست زدہ کرنے کی ایک کوشش ہے، حالانکہ وہ ریاست کے ملازم ہیں اور انہیں سیاست سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض ادا کرنا چاہئیں۔ میرے ایک بیورو کریٹ دوست نے کہا ایسی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں کہ ان پانچ ڈپٹی کمشنروں نے آخر ایسا کیا کِیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی باقی اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں سے بہتر رہی ہے۔یہ تفصیلات سامنے آ جاتیں تو شاید باقی افسروں کو رہنمائی ملتی۔ انہوں نے کہا یہ تو ان پانچ اضلاع کے عوام ہی بتا سکتے ہیں انہیں گورننس میں کیا بہتری نظر آئی؟ کیا اُنہیں ریلیف ملا۔ پیمانہ تو یہی ہونا چاہئے کہ کسی افسر نے اپنے ضلع کے عوام کو کتنا مطمئن کیا ہے یا اُن کے کتنے مسائل حل کئے ہیں۔د لچسپ بات یہ ہے ان میں تمام چھوٹے اضلاع میں کام کرنے والے ڈپٹی کمشنر ہیں گویا بڑے اضلاع جن میں لاہور،راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور،گوجرانوالہ جیسے بڑے اضلاع جو ڈویژنل صدر مقام بھی ہیں ایسے ڈپٹی کمشنروں سے محروم ہیں جو اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے وزیراعلیٰ مریم نواز کی نظروں میں آ سکتے۔

ایک سابق بیورو کریٹ دوست راؤ فرزند علی عادل کل پوچھ رہے تھے،کیا افسروں کو کام کی طرف راغب کرنے کی کیا یہ کوئی نئی حکمت عملی ہے،ماضی میں حکمرانوں کی حکمت عملی تو یہی رہی کہ افسروں کو ڈرا کے یا ایسے بیانات دے کر جو کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا۔کام پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی جو بذاتِ خود اس  لحاظ سے بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے بیورو کریٹ ازخود اپنے اندر کام کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی بجائے  انتظار کریں، کوئی انہیں  آ کر جگائے اور وہ اپنا فرض ادا کریں۔میں پہلے بھی ایک کالم میں لکھ چکا ہوں آج کے بیورو کریٹ فیصلے آپ کرنے کی بجائے کان لگائے رکھتے ہیں کہ حاکم اعلیٰ نے کیا حکم دیا ہے۔ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے وزیراعلیٰ مریم نواز نے گورننس کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک میٹنگ میں افسروں کو کام کرنا پڑے گا۔اس حوالے سے کوئی کوتاہی یا غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایک دو بار انہوں نے اچانک دوروں کے دوران افسر معطل بھی کئے تھے تاہم پھر کسی نے انہیں سمجھا دیا اور بیورو کریسی کو چیک کرنے سے باز آ گئے تاہم اس کا متبادل انہوں نے یہ نکالا کہ تبادلے کو اپنا مشغلہ بنا لیا۔اُن کے زمانے میں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ایسے آئے روز بدلتے تھے جیسے کیلنڈر روزانہ بدلتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں گورننس ایک تماشا بن گئی، کوئی افسر دِل لگا کے کام کرتا ہی نہیں تھا، سب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت وقت گزار رہے تھے اس میں کوئی شک نہیں،اچھی سے اچھی حکومت بھی آ جائے تو اس کی کارکردگی صفر ہی رہے گی اگر بیورو کریسی اُس کے ساتھ نہیں۔نظام کچھ ایسا ہے سب کچھ افسروں کے ہاتھ سے ہو کر گذرتا ہے اگر وہ بریک لگا دیں یا سست روی کا شکار ہوجائیں تو حکومت بھی بے بس ہو جاتی ہے۔مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ افسروں کو کبھی کھل کے کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔تیسرا عنصر کرپشن بھی ہے،جس نے پورے نظام میں جڑیں پھیلائی ہوتی ہیں۔ کوئی ایماندار افسر اگر  آ جائے تو اسے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب ایک نوٹیفکیشن اسے ایک جگہ سے اُٹھا کے دوسری جگہ پہنچا سکتا ہے۔

ایک عام آدمی کو توقع آج بھی یہی ہوتی ہے،افسر اُس کا مسئلہ حل کریں گے۔اُن کے ذہن میں یہ بات دور دور تک نہیں ہوتی کہ انتظامیہ اور پولیس کے افسر کس انعام کے لالچ میں کام کریں گے۔ڈپٹی کمشنروں اور ڈی پی اوز کے پاس تو ویسے بھی اتنے اختیارات اور فنڈز ہوتے ہیں،انہیں کسی اعزازیے کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اس ضرورت  سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بیورو کریسی میں جزا و سزا کا کوئی نظام ہونا چاہیے۔کم از کم اتنا تو ضرور کی جائے جتنا وزیراعلیٰ مریم نواز نے پانچ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو دو ماہ کی تنخواہ اعزازیے کے طور پر دے کر کیا ہے۔اگرچہ بیورو کریسی  کے لئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں۔اسے بحیثیت ادارہ از خود صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر اپنا فرض ادا کرنا چاہئے تاہم جب زوال کی صورت ہو تو پاتال سے نکالنے کے لئے کوئی بھی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم صرف اسی پر انحصار نہ کیا جائے۔بری کارکردگی پر پکڑ کا نظام بھی رائج رہنا چاہئے۔ آج تک ہماری بیورو کریسی نے آمروں سے لے کر سول حکمرانوں تک کو عوام کی نظروں میں گرایا ہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر بھی وزیراعظم بن کر  اس کے ہاتھوں بے بس ہو گیا تھا اور انہوں نے کارکنوں کو اختیار دیا تھا وہ ہر سرکاری دفتر میں جائیں اور لوگوں کے کام کروائیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -