شام میں 1300 افراد ہلاک، کیا تشدد کی نئی لہر کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے؟

تہران (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایران نے ان میڈیا رپورٹس کو سختی سے مسترد کر دیا جن میں اس پر شام کے علوی علاقوں میں جاری تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس تشدد میں اب تک سینکڑوں عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق، لڑائی کا آغاز جمعرات کو ہوا جب شام کی نئی سیکیورٹی فورسز اور سابق صدر بشار الاسد کے وفادار جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق تشدد کی نئی لہر میں اب تک 973 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں سیکیورٹی اہلکار اور بشارالاسد کے حامی جنگجو بھی مارے جا چکے ہیں۔ ملک میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 1300 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اتوار کو شام کے صدر احمد الشراع نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ تشدد سابقہ حکومت کے بچے کھچے عناصر اور ان کے غیر ملکی سرپرستوں کی سازش ہے، جو شام کو دوبارہ خانہ جنگی میں جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ایران کے ملوث ہونے کے الزامات کو سختی سے رد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزام مکمل طور پر بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہے۔ ایران اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگانا غلط، گمراہ کن اور سو فیصد بے بنیاد ہے۔ علوی، مسیحی، دروز اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کا کوئی جواز نہیں۔