گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 75
کراچی میں بیٹھ کر مشرقی پاکستان کے انتظامی معاملات انجام دینا نہایت مشکل ہے۔ صرف ایک مثال کافی ہوگی۔ ایک دفعہ مرکز نے چھالیہ پردس روپیہ فی من کی شرح سے ٹیکس لگادیا۔ اس وقت چھالیہ کی قیمت 45 روپیہ من تھی۔ اس کے بعد قیمت دس روپیہ من تک گرگئی۔ گورنر کی حیثیت سے میں نے مرکزی حکومت کو لکھا کہ کسان ٹیکس سے بچنے کی خاطر چھالیہ کے درختوں کو کاٹ رہے ہیں۔ لہٰذا ٹیکس اٹھالینا چاہیے لیکن مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ مرکزی وزیر خزانہ نے میری یہ بات سنی ان سنی کردی۔ تاہم مجھے اب یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وہ ٹیکس ختم کیا جاچکا ہے لیکن اس طرح کے امور کا فیصلہ مقامی طور پر کیا جانا چاہیے۔
مغربی پاکستان کے عوام یقیناًاس سے اتفاق کریں گے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کو جس حد تک ممکن ہو تمام شعبوں میں خود کفیل بننا چاہیے۔ وہ دوسرون پر جتنا کم انحصار کریں گے ، پاکستان کے لئے بحیثیت مجموعی یہ بات اتنی ہی مفید ہوگی لیکن بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کی حکومت اپنے صوبہ میں مناسب مقدار میں ٹیکس عائد نہیں کرتی اور جو ٹیکس پہلے سے لاگو ہیں، انہیں بھی وصول نہیں کیا جاتا۔ مشرقی پاکستان میں پٹ سن اور دھان کی فی ایکڑ اراضی سے اتنی ہی آمدنی ہوتی ہے جتنی مغربی پاکستان میں کپاس اور گندم کی ایک ایکڑ فصلوں سے ہوتی ہے لیکن مغربی پاکستان کا کسان جہاں زمین کا مالیہ اور آبیانہ 15 روپے فی ایکڑ کی شرح سے ادا کرتا ہے، وہاں مشرقی پاکستان کے کسان کو کوئی مالیہ ادا نہیں کرنا پڑتا اور اس کی لگان کی شرح بھی ایک روپیہ فی ایکڑ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ حد تو یہ ہے کہ یہ رقم بھی پری طرح وصول نہیں کی جاتی۔ بالخصوص اس وقت جب کہ انتخابات قریب ہوں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 74 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مشرقی پاکستان میں میرے تقرر کا زمانہ اگرچہ بحیثیت مجموعی بہت پرامن تھا تاہم لیاقت علی خان کے قتل کا المیہ اسی زمانے میں پیش آیا۔ مرحوم کے جانشین خواجہ ناظم الدین، جنہیں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لئے چنا گیا تھا، مشرقی پاکستانی کے دورے پر اس کے بعد ہی آئے تھے۔ مسٹر غلام محمد نے جو لیاقت کابینہ میں وزیر خزانہ تھے، گورنر جنرل کا منصب سنبھال لیا تھا۔
لیاقت اور میں دونوں بہت اچھے دوست تھے۔ انہیں میری ذات پر مکمل اعتماد تھا اور وہ میرے مشوروں کی قدر کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ وزیراعظم بھی مجھ پر اسی قدر اعتماد کرتے تھے لیکن وہ چونکہ بنگالی تھے اور آزادی سے پہلے متحدہ بنگال کے وزیراعظم رہ چکے تھے اس لئے انہیں اپنے خیال کے مطابق مشرقی پاکستان پر ہر طرح کے فیصلے لاگو کرنے کا زیادہ حق حاصل تھا۔ اس طرز فکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواجہ ناظم الدین نے بحیثیت وزیراعظم اپنے پہلے دورہ ڈھاکہ میں زبان کے مسئلہ پر ایک نہایت دیانتدارانہ لیکن سیاسی اعتبار سے عاجلانہ اور ناقابل قبول تقریر کردی۔ اس تقریر کے بعد ہی لسانی تحریک شروع ہوگئی اور طلبہ میں خلفشار پیدا ہوگیا۔ میں نے کسی غیر آئینی طرق کار کی سفارش نہیں کی اور نہ خود کوئی غیر آئینی طریقہ اختیار کیا بلکہ انتظامی اختیارات پر اپنی گرفت پہلے سے مضبوط کردی۔
مشرقی پاکستان میں مسلمان بچہ کلام پاک پڑھنا جانتا ہے اور موجودہ عربی رسم الخط ہی میں ہوتا ہے لیکن بنگالی زبان دیوناگری رسم الحظ میں لکھی جاتی ہے۔ مغربی پاکستان میں اردو کا رسم الخط بھی عربی کی طرح ہے لیکن مشرقی پاکستان میں بچہ کو دورسم الخط جبراً سیکھنے پڑتے ہیں۔ ایک عربی اور دوسرا دیوناگری۔ میں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ مسٹر نورالامین سے اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کیا اور انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ بچوں کے والدین سے اگر استصواب کرایا جائے تو وہ سب کے سب بنگالی رسم الخط ترک کرانے اور اپنے بچوں کو ایک رسم الخط یعنی عربی سکھانے کے حق میں رائے دیں گے۔ بنگالی اردو رسم الخط میں لکھی جاسکتی ہے اور اس امر کے متعدد تاریخی شواہد موجود ہیں کہ شیر شاہ سوری کے زمانہ میں یہ تجربہ بھی ہوا تھالیکن نور الامین سیاسی اسباب کی بنا پر اس بارے میں کوئی قدم اٹھانے پر راضی نہ ہوئے۔ میں یہ جانتا تھا کہ ہندو عربی رسم الخط کو ناپسند کرتے ہیں۔ 4 کروڑ بیس لاکھ کی آبادی میں ہندوؤں کی تعداد تقریباً اسی لاکھ ہے تاہم ان کے پاس دولت ہے صوبائی اسمبلی میں ووٹوں کی فیصلہ کن تعداد انہی کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر درسی کتابیں اس وقت تک کلکتہ سے چھپ کر آرہی تھیں اور جہاں مفادات موجود ہوں وہاں ان کو توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میرے لئے یہ اطلاع دلچسپی کاموجب ہوئی کہ صوبہ میں سو سے زیادہ پرائیویٹ سکولوں میں ڈیڑھ سو سال سے اردو پڑھائی جارہی تھی لیکن سرکاری سکولوں میں ایسا کوئی انتظام نہ تھا چونکہ وہاں ایسے سکول بہت کم ہیں جن میں تعلیم کا ذریعہ اردو انگریزی ہو۔ لہٰذا مغربی پاکستان کے سرکاری ملازم مشرقی پاکستان میں اپنا تقرر کراتے وقت نہایت پس و پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کے بچوں کی تعلیم میں شدید دشواریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ میری بیوی نے اسی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ڈھاکہ میں ایک بہت بڑا مدرسہ طالبات کے لئے قائم کیا۔ جواب بھی ان کے نام سے قائم ہے اور مشرقی پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس سکول میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور دوسری زبان اردو یا بنگالی میں سے کوئی بھی منتخب کی جاسکتی ہے۔
مجھے اس خیال سے خوشی ہوتی ہے کہ میں اس صوبہ کی انتظامیہ سے تین سال، جو بے بہ، یہاں کی سیاسی زندگی کے بے حد نازک سال تھے، وابستہ رہا۔ میں نے وہاں ہر طبقہ میں بڑے اچھے دوست بنائے اور میرے یہ تجربات اسی وقت بہت کارآمد ثابت ہوئے۔ جب میں مرکزی حکومت میں شامل ہوا۔ میری رائے میں ہمارے سول حکام کو ملک کے دونوں صوبوں میں ادائے خدمت کا پابند کردینا چاہیے کیونکہ اس کے بعد ہی مرکز کے دائرہ عمل میں ان کے تجربات کی اہمیت تسلیم کی جائے گی۔ ان کے فیصلوں میں بصیرت ہوگی اور ایک سچے پاکستان کا جذبہ حب الوطن کارفرما ہوگا۔
اپریل 1953ء میں مجھے اچانک کراچی سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کا ٹیلیفون پر ایک پیغام ملا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں پنجاب کا وزیراعلیٰ بن جاؤں کیونکہ دولتانہ حکومت میں صوبہ کا نظم و ضبط تباہ ہوچکا تھا۔ لاہور میں مارشل لاء نافذ تھا اور پولیس کی فائرنگ سے لوگ خاصی تعداد میں ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ صورتحال ان لوگوں نے پیدا کی تھی جو مرکز میں برسراقتدار آنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اس طرح بے چینی اور خلفشار پیدا ہونے سے مرکز کے ارباب اختیار حکومت سے الگ ہوجائیں چنانچہ انہوں نے پرامن شہریوں کے ذہنوں کو مشتعل کرنے کے لئے احمدی مذہبی اقلیت پر حملہ کا پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کیا۔ ایسے نازک موقع پر میں انکار نہ کرسکا تاہم میں نے کہا کہ یہ منصب مجھے صرف اس صورت میں قبول ہوگا جبکہ پنجاب مسلم لیگ پارٹی مجھے پہلے اپنا لیڈر منتخب کرلے میں اس طرز عمل کو ناپسند کرتا تھا کہ کراچی میں ہائی کمان کے حکم پر پہلے عہدہ قبول کرلوں۔ اس کے بعد اپنے اثر و رسوخ اور طاقت و اقتدار سے لوگوں کو اپنی حمایت پر مجبور کروں۔ خواجہ ناظم الدین نے یہ مطالبہ مان لیا اور لاہور میں مسلم لیگ پارٹی سے کہا کہ وہ اجلاس منعقد کرکے پارٹی کی قیادت کا فیصلہ کرے۔ چنانچہ مسلم لیگ پارٹی نے اتفاق رائے سے مجھے اپنا لیڈر منتخب کرلیا اور میں وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے لئے ڈھاکہ سے لاہور پہنچ گیا۔ اس طرح سالہاسال کے تجربوں اور ناکامیوں کے بعد بالآخر انہوں نے مجھے میرے آبائی صوبہ میں و اپس بلالیا۔ جہاں میں نے وزیراعلیٰ کے طور پر دو سال گزارے۔(جاری ہے)