میانوالی ایئر بیس پر دہشت گردی۔ نیشنل ایکشن پلان!

      میانوالی ایئر بیس پر دہشت گردی۔ نیشنل ایکشن پلان!
      میانوالی ایئر بیس پر دہشت گردی۔ نیشنل ایکشن پلان!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 میانوالی ایئر بیس پر4نومبر2023ء کو ہونے والی دہشت گردی کو2011ء اور2012ء کے کامرہ اور مہران اڈوں پر حملوں کا ایکشن ری پلے نہ کہا جائے تو بھی بڑی مماثلتیں ہیں۔ تاہم وہ حملے نیشنل ایکشن پلان سے پہلے ہوئے تھے۔ نیشنل ایکشن پلان  16دسمبر 2016ء کے اے پی ایس حملے کے بعد تشکیل پایا تھا۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ تحریک طالبان پاکستان ملک میں پوری طاقت سے عمل پیرا تھی۔ حکومت کی طرف سے اس کے ساتھ مذاکرات کی کوشش ہوئی۔ عرفان صدیقی صاحب حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بنائے گئے مگر مذاکرات کا باقاعدہ عمل شروع نہ ہو سکا۔ جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے۔ سانحہ اے پی ایس میں اساتذہ، عملے اور آپریشن کرنے والے اہلکاروں اور طلبا سمیت 144 لوگ جاں بحق ہوئے۔  اس کے بعد شدت پسندوں کو کرش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مقامی طالبان پاکستان میں خوف کا کوہِ گراں بن چکے تھے۔ان کے خلاف آواز اٹھانا موت کو ”خالہ“ کہنا تھا۔ پاک فوج ان کے خلاف برسر پیکار تھی۔ میڈیا میں دونوں طرف سے مارے جانیوالوں کے لیے ”جاں بحق“ کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔آپریشن ضرب کانیشنل ایکشن پلان کے بطن سے جنم ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں طالبان کا خوف رفع ہوتے ہوتے دفع ہو گیا۔

 24مئی 2011ء کو4دہشت گردوں نے نیول ایئر بیس مہران کراچی پر ہلہ بول دیا۔ جہاں دو نہایت ہی اہمیت کے حامل اور قیمتی اور اورین جاسوس طیارے تباہ کر دیئے گئے۔ چاروں دہشت گرد ڈیڑھ دو دن کے مقابلے کے بعد ہلاک کر دیئے گئے۔ آپریشن میں رینجرز اوربحریہ کے فضائی مستقر کی سکیورٹی کے لوگ شریک رہے۔جہاں جاں بحق ہونے والے اہلکاروں کی تعداد دس رہی۔ 16 اگست2012ء کو کامرہ ایئر بیس پر 9 دہشت گردوں نے یلغار کی۔ میانوالی ایئر بیس پر بھی اتنے ہی حملہ آورتھے۔ وہ بھی سب کے سب مارے گئے۔ یہ بھی اُسی انجام سے دو چار ہوئے۔ کامرہ میں تین اہلکار بھی شہید ہوئے تھے۔ محمد اعظم ایئر کموڈد شاید بیس کمانڈر تھے زخمی ہوئے۔ وہ خود اپریشن کی سربراہی کر رہے تھے۔9دہشت گرد کارہ ایئر بیس کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتے تھے۔

دہشتگردی کے سائے ان دنوں بھی گہرے ضرور تھے مگر کوئی باقاعدہ پالیسیNACTA (نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی)کے موجود ہونے کے باوجود نہیں تھی۔2016ء میں نیشنل ایکشن پلان ٹیررزم کے خاتمے کے لیے پالیسی کے طور پر سامنے آیا جس کے بیس نکات ہیں۔ ان میں سے کسی پر مکمل عمل ہوا، کسی پر جزوی اور کسی پر سرے سے ہوا ہی نہیں، مگر وہ ادارے جودہشت گردی کی زد میں آچکے تھے انہوں نے بالخصوص حفاظتی انتظامات فول پروف بنانے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود بھی اگر دہشت گردی ہو جاتی ہے تو کہیں نہ کہیں کمی رہ گئی ہوگی۔ وہ کیوں رہ گئی یا رہ سکتی ہے؟؟

ایئر فورس کی کامرہ کے علاوہ بھی کئی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جس میں پشاور ایئر بیس، سرگودھا فیصل  بیس کراچی  اورکوئٹہ سمنگلی بیس بھی  شامل ہے، اگر دفاعی تنصیبات کی بات کی جائے تو جی ایچ، آئی ایس آئیک کا مستقر بھی شامل ہے۔ سرجن جنرل آرمی  جنرل مشتاق اور کئی میجر جنرل اور بریگیڈیئرز سمیت افسروں کو انفرادی طور پر شہید کیا گیا۔

میانوالی ایئر بیس کے اندر تک تخریب کار پہنچ گئے۔ وہ کیسے پہنچے؟ فینس کاٹ کر گئے؟ دیوار پھلانگ کر گئے؟ یاگارڈ روم عبور کر کے گئے؟ ان کو کیسے پتہ تھا جہاز کہاں کھڑے ہیں۔ ایک پہلو اس خوفناک واقعے کا اطمینان بخش ہے کہ اندرونی  سکیورٹی ہائیسٹ الرٹ تھی۔ ایک بھی حملہ آور کو زندہ نہیں بچنے دیا۔ یہ بیس سکیورٹی کا بجا اور زبردست کریڈٹ ہے۔ بیس کے اندر سکیورٹی کے نقطہء نظر سے سب ٹھیک تھا۔ باہر معاملات ایجنسیوں سے لے کر بیس کے اندر داخل ہونے تک سوالیہ نشان ہیں۔ دہشت گرد کہیں سے تو آئے۔ انہیں کسی نے کہیں پر اسلحہ دیا۔ بیس کے اندر تک پہنچایا گیا!۔ تین جہازوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اندر کی سکیورٹی تھوڑی سی لوز ہوتی تو بیس مکمل طور اُڑا کر رکھ دیا جاتا۔ یہ سب سہولت کاری کے کارن ہونا تھا۔جو نقصان ہوا وہ بھی سہولت کاری کے باعث ہی ہوا۔

نیشنل ایکشن پلان میں نے آج پھر پڑھا ہے۔ ایک بار نہیں، تین بار……۔ اس میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف اقدامات بارے شق تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہ موجود نہیں ہے۔ شق18میں ملفوف سے انداز میں اردو ترجمے میں لکھا گیا ہے۔ ”دہشت گردوں کے سرخیلوں سے سختی سے نمٹا جائے گا“۔ سر خیل کا مطلب سرغنہ ہو سکتا ہے۔ سہولت کاروں میں اطلاع دینے والے، راستہ بتانے، ٹارگٹ کی نشان دہی کرنے، اسلحہ دیگر لوازمات فراہم کرنے والے، ٹرانسپورٹ اور ڈرائیو شامل ہیں۔ جس نے پناہ دی، ان کے بارے بھی تذکرہ نہیں۔ سرخیلوں میں شاید سہولت کاروں کو بھی شامل کر لیاگیا۔ انگلش میں یہ شق اس طرح سے واضح کی گئی Dealing firmly with sacatarian tarrorists۔سہولت کاروں سے نمٹنے کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان میں  جھول کیوں ہے، اس طرف توجہ نہیں دی گئی،جان بوجھ کر کوئی خلا چھوڑا گیا یا پھر  سہولت کاروں کو بھی دہشت گرد ہی قرار دیا گیا۔

 سرخیلوں کی کبھی سرکوبی ہوتی نہیں دیکھی گئی۔ پاکستان میں دہشت گردی جس کے پیش نظر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا وہ ٹی ٹی پی کی طرف سے ہو رہی تھی اور اب بھی جاری ہے، مگر نیشنل ایکشن  پلان میں ہر مذہبی تنظیم کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔ دہشت گرد چند مدرسوں میں پنپتے پائے جاتے ہیں۔ NAPمیں ہر مدرسہ و مسجد نگرانی کی چھتری تلے آگئے۔ ایک مولانا صاحب نے کہا کہ وہ پاکستان میں داعش کا نمائندہ ہے۔ وہ آزاد پھر رہے ہیں۔ کئی بڑے قد موٹے جثے کے  سیاسی علمائے کرام ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطوں میں رہے ان سے کبھی حساب کتاب نہیں مانگا گیا۔

پاکستان سے دہشتگردی کی جڑیں اکھاڑنے  اور بی مکانے کے لیے دہشتگردوں کے سہولت کاروں پر کڑا ہاتھ ڈالنا پڑے گا۔ اس کے لیے نیشنل ایکشن کو سات آٹھ سال کے تجربات کی روشنی میں ریوائز کرنا پڑے گا، اس  میں تبدیلی و ترمیم کرنا پڑے گی۔ اس طرف فوری توجہ درکار ہے۔نگران وزیر اعظم کاکڑ کی طرف سے  افغان حکومت سے کہا گیا ہے کہ اسے پاکستان اور پاکستانی طالبان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔خود کش حملوں میں  ملوث افراد میں پندرہ افغان شہری شامل تھے۔وزیر اعظم نے جرأت سے کام لیا ہے۔ان پر تنقید بھی ہو گی جو بھی ہو پاکستان میں امن کا قیام اور دہشتگردی کا خاتمہ اولین ترجیح ہے۔افغان طالبان ملا عمر جیسے بنیں۔اشرف غنی،حامد کرزئی،داؤد اور ظاہر شاہ جیسوں کے مائنڈ سیٹ کی عکاسی نہ کریں۔  

مزید :

رائے -کالم -