گائیڈغیر ملکی سیاحوں کو پتھروں کے نیچے چھپی تاریخ اور فرعونوں کا کچا چٹھا بیان کر رہے تھے، محلاتی سازشوں کے علاوہ ذاتی معاملات بھی زیر بحث لے آئے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:26
میری وہاں موجودگی میں ہی ایک شخص نے ایک بڑے چاقو سے ان پودوں کے ڈنٹھلوں کو بیچ میں سیدھا تراش کر اس میں سے نکلنے والے گودے کی سیدھی اور لمبی لمبی سی پٹیاں بنا لیں، جس کی چوڑائی کوئی آدھ انچ ہوگی۔ جب اس کے پاس مناسب تعداد میں یہ پٹیاں جمع ہوگئیں تو اس نے ان کو ایک ترتیب سے لوہے کی ایک بھاری پلیٹ پر اس طرح بچھا دیا جیسے کسی زمانے میں نواڑی پلنگ بنے جاتے تھے۔ بعد میں اس کے اوپر بھی ایک فولادی پلیٹ رکھی اور دونوں پلیٹوں کو ایک مضبوط شکنجے میں کس دیا گیا اور ایک لیور کے ذریعے اس پر آہستہ آہستہ اور مسلسل دباؤ ڈالنا شروع کیا جس سے ان میں سے پانی نچڑنے لگا۔ وہ ساتھ ساتھ دباؤ بڑھاتا جا رہا تھا۔ جب ان پٹیوں کا سارا پانی نکل گیا تو اس نے شکنجے کو کھول کر فولادی پلیٹ اٹھائی۔ساری پٹیاں آپس میں مدغم ہو کر یک جان ہوگئی تھیں اور ایک کچے کاغذ کی شیٹ کی شکل اختیار کر گئی تھیں۔ جسے اس نے احتیاط سے اٹھا کر قریب ہی پڑی ہوئی ایک برقی بھٹی میں رکھ کر بتدریج سکھا یا، نتیجتاً وہ ہلکے زرد رنگ کے ایک مضبوط ورق کی شکل میں سامنے آگیا۔
اس نے گرم گرم کاغذ پاس ہی بیٹھے ہوئے ایک مصور کو تھما دیا، جس نے فوراً ہی پینٹ برش اٹھا کر قدیم انداز میں اس پر چڑیوں، طوطوں اور دوسرے جانوروں کے علاوہ فرعونوں اور ان کی ملکاؤں کی تصویریں بنادیں اور فرعونی زبان میں کچھ تحریریں لکھ کر ایک مضبوط لفافے میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ اس سارے عمل کو بمشکل 20 منٹ لگے ہوں گے 2 تصویروں کے 20 پاؤنڈ وصول کرکے مجھے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ یہ حقیقتاً ایک بڑا ہی معلوماتی اور تفریحی دورہ تھا۔ میں یقینا اس سے لطف اندوز ہوا تھا۔ اگر میں یہ سب کچھ ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا تو آگے چل کر مجھے کبھی بھی سمجھ نہیں آتا کہ وہ لوگ یہ سب کچھ کیسے کیا کرتے تھے۔
جیسے ہی عبدو مجھے لے کر اہراموں کی طرف بڑھا تو ایک دم ہمیں کچھ لوگوں نے چاروں طرف سے گھیر کر یرغمال بنا لیا۔ آنے والوں میں گائیڈ، اونٹوں اور گھوڑوں والے، فوری تصویر بنا کر دینے والے فوٹو گرافر اور ٹھنڈے جوس والوں کے علاوہ بہت سے میلے کچیلے بچے ہاتھ پھیلائے پہنچے اور بخشش کا مطالبہ کر نے لگے۔ سب کو نہ نہ کرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے۔ عبدو میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اپنی ٹیکسی کے پاس سے گزرے اورایک نظر مڑ کر دیکھا تو ہمارا صحت مند ٹیکسی ڈرائیور گاڑی کی نشست کھول کر لیٹ گیا تھا اور اب کسی بیمار بھینسے کی طرح پھنکار رہا تھا۔ ویسے تو ہم ابھی پوری طرح اترے بھی نہیں تھے کہ اس نے مسلسل جمائیاں لے کر اپنا پہلا خراٹا نشر بھی کر دیا تھا۔ اس نے اپنے اوپر ہلنا جلنا حرام قرار دیا ہوا تھا، اس لئے اس نے گاڑی میں ہی بیٹھے رہنے کو ترجیح دی تھی۔ ویسے بھی اس کو ان چیزوں سے بھلا کیا دلچسپی ہوسکتی تھی، وہ تو ہزاروں بار یہاں آیا ہوگا۔
اہراموں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ہر طرف امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جاپانی سیاح صاف ستھرے لباسوں میں ملبوس چست و چالاک مصری لڑکے اور لڑکیوں کی معیت میں اہراموں کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے گائیڈ ان کو ان ہی کی زبانوں میں ان بے جان پتھروں کے نیچے چھپی ہوئی تاریخ کھول کھول کر بیان کر رہے تھے اور فرعونوں کا کچا چٹھا بیان کر رہے تھے۔ وہ تو ان کی محلاتی سازشوں کے علاوہ ان کے گھروں کے اندرونی اور انتہائی ذاتی معاملات کوبھی زیر بحث لے آئے تھے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں